سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) "النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی" کی تحقیق

  • 17394
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-06
  • مشاہدات : 32342

سوال

(68) "النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی" کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث:النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی ‘‘ اگر درحقیقت یہ حدیث  ہے، تو مع تنقید و حوالہ کتاب کے تحریر فرمائیں۔

حافظ ابن حجر فتح الباری9؍111 میں لکھتے ہیں:" وقد تقدم فى الباب الأول، الأشارة إلى حديث عائشة: النكاح من سنتى" الخ مگر باب اول " الترغيب فى النكاح" میں میں حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث نہیں ہے، اس لیے اس عبارت کا مطلب کیا ہے؟ اور باب اول سے کون باب مراد ہے؟ اور حضرت عائشہؓ کی حدیث مشار الیہ کہاں ہے؟ مفصل تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث:النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی ‘‘علماء وفقہاء کےدرمیان انہیں الفاظ کےساتھ مشہور ہےیہاں تک امام رافعی نےبھی شرح وجیر للغزالی کے اندر حدیث مذکور کو انہیں الفاظ کےساتھ ذکر کیاہے لیکن یہ حدیث ان الفاظ کےساتھ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں نظر سےباوجود تتبع وتلاش کے نہیں گزری۔ الرحمة المہداة سنن الدارقطنی المنتقى لابن الجارود والترغيب والترهيب للمنذرى مجمع الزوائد للهيثمي الجامع الازهر الجامع الصغير الجامع للسيوطى السنن الكبرى للبيهقى المستدرك للحاكم السنن للنسائى كنزالعمال للمتقى وكتب موضوعات وغيره ميں میں یہ حدیث الفاظ مذکورہ کےساتھ کسی صحابی سےبھی مذکورہ مروی نہیں ہے۔ہاں ابن ماجہ میں یہ حدیث حضرت عائشہ ﷜ سےبالفاظ ذیل مروی ہے: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي،

قال السندى:وفى الزوائد: إسناده ضعيف لاتفاهم على ضعف عيسى بن ميمون المدينى لكن له شاهد صحيح

حافظ کی عبارت:وقدتقدم فى الباب الاول الاشارة الى حديث عائشه :النكاح من سنتى(فتح البارى711/9)

ميں الباب الاول سےمراد :باب الترغیب فی النکاح ہی مراد ہےاورحضرت عائشہ ﷜ کی حدیث سےمراد ان کی وہ حدیث ہےجس کو ابن ماجہ نےالفاظ  مذکورہ بالاکےساتھ روایت کیاہے لیکن حافظ نےبجائے اصل الفاظ نبوی ذکر کرنے کےلفظ مسہور درج کلکرنے کےلفظ مشہرو درد کلیا ہےگویایہ ذکر بالمعنی ہے ذکر بالفظ نبوی ذکرنے کے لفظ مشہور درج کرلیا ہےگویایہ ذکر بالمعنی ہےذکر بالفظ نہیں جوخالی ازتسامح نہیں۔

بے شک باب اول ترغیب فی النکاح میں بذیل شرح لفظ فمن رغب عن سنتى فليس منى حضرت عائشہ ﷜ کی یہ حدیث ان کے نام کےساتھ مذکورہ موجود نہیں ہےاورحافظ کی عبارت مذکور سے اس طرح مذکور ہونا مفہوم بھی نہیں ہوتا پس اس کی کوشش کرنی امرعبث ہے۔

میرے خیال میں اس عبارت سےحافظ کامقصد صرف اس قدر ہےکہ حضرت انس کی حدیث مذکورہ فی الباب الاول کے آخری الفاظ کےساتھ حضرت عائشہ ﷜ اس حدیث کی طرف اشارہ ہوگیا جس کاانہوں نےحوالہ بہاں تیسرے باب میں بضمن احادیث ترغیب فی النکاح دے دیا اورپورے مشہور الفاظ ذکر کردئے کیوں کہ باب اول میں صراحۃ تمام الفاظ مع مخرج کےذکر نہیں کئے تھے۔

تلخیص116/3کی مندرجہ ذیل عبارت بغور پڑھ جائیے:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ»وفى اسناده عيسى بن ميمون وهو ضعيف وفى الصحيحين حديث انس فى ضمن حديث لكنى اصوم وافطر واصلى وانام اتزوج فمن رغب عن سنتى فليس منى انتهى

مکتوب

نحمدہ ونصلی ونسلم

حدیث مشہور: النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی ان الفاظ کےساتھ حدیث کی کسی کتاب میں میری نظر سےنہیں گزری ایسا معلوم ہوتا ہےکہ متاخرین علماء نےسنن ابن ماجہ سےجملہ النکاح من سنتی لیا اورصحیح بخاری سے فمن رغبتی سنتی فلیس منی سےلے کر جوڑ لیا ہے۔اس کےسوا اورکوئی اصلیت نہیں ہے واللہ اعلم

حافظ عسقلانی نے فتح الباری 111/9میں جو کچھ لکھا ہے وقد تقدم فی الباب الاشارہ الی حدیث عائشہ اسے آپ نےان کاتسامح سمجھ لیا ہےایسا نہیں ہے۔بلکہ باب مشارالیہ میں اس حدیث عائشہ کی طرف اشارہ موجود ہے۔ملاحظہ فتح الباری سطر: حیث قال ونقلہ ابن ماجہ من حدیث عائشہ اورابن ماجہ  کی حدیث وہی ہے جوتلخیص الحبیر112/3 میں منقول  ہے جس کےراوی کوحافظ نےضعیف کہا ہے مجمع الزوائد میں بھی اس کو ضعیف کہا ہے اورسندھی نے بھی حاشیہ ابن ماجہ طبع مصر میں ۔رہ گیا یہ امر کہ تلخیص میں پہلے یوں نقل کیا ہے النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی یہ الفاظ حافظ کے نہیں ہیں بلکہ امام رافعی کی وجیز کے الفاظ ہیں کہ اس میں یونہی منقول ہے۔ہاں حافظ کافتح الباری 11/9میں بھی اس طرح نقل کردینا محل تامل ہے ۔شاید وجیز للرافعی کےالفاظ حافظ کی زبان پرچڑھے ہوئے تھے ۔یا کیابات ہےکچھ کہا نہیں جاسکتا واللہ اعلم

وعلیکم السلام  مجھے اب تک پوری صحت نہیں ہوئی ہےآپ کے سوال کاجواب کیف ماامکن تحریر کرکے ارسال کرتا ہوں۔ابھی نہ زیادہ محنت کرسکتا ہوں نہ بہت سی کتابوں کامطالعہ ممکن ہے دعا خیر فرماتے رہیں اورماحضر کوقبول فرمائیں والسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسالہ:خطبہ نکاح اور اس کے مقاصد3سطر25میں ایک حدیث اس طرح لکھی گئی: النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی مشکوۃاس حدیث کو انہیں الفاظ کےساتھ ابو القاسم رافعی نے بھی شرح الوجیز غزالی میں لکھا ہے۔اس روایت کومشکوۃ میں تلاش کرنے کامجھ کو موقع مل نہیں سکا۔امید ہےآپ اس کےصفحہ اورباب سےمجھے مطلع کریں گے۔یہ جہاں تک میں نے تتبع اورتلاش کیا ہے۔مذکورہ الفاظ کےساتھ یہ روایت کسی حدیث کی کتاب میں مجھے نہیں ملی۔البتہ ابن ماجہ نےاپنی سنن کی کتاب النکاح کےپہلے باب میں حضرت عائشہ ﷜ سےایک حدیث مرفوعا بالفاظ ذیل روایت کی ہے: النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی الحدیث

علامہ بوصیری زوائد ابن ماجہ میں اس روایت کےتحت لکھتے ہیں:اسناده ضعيف لاتفاهم على ضعف عيسي بن ميمون المديني(الرواي عن القاسم بن محمد عن عائشه) لكن له شاهد صحيح انتهى اورحافظ تلخيص(116/3) میں ابن ماجہ کی اس روایت کوذکر کرنےکےبعد لکھتے ہیں فی اسناده عيسى ابن ميمون وهوضعيف وفى الصحيحن حديث انس فى ضمن حديث لكنى أصوم وافطر ,اصلى وانام وأتزوج النکاح النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی  فمن رغب عن سنتی فلیس منی انتهي بوصيرى كے مذکورہ کلام میں لکن لہ شاہد صحیح سےمراد غالبا حضرت انس کی حدیث کاوہی ٹکڑا ہےجسے حافظ نے تلخیص میں بحوالہ صحیحین ذکر کیاہے۔اس  نےروایت کاپہلا ٹکڑا یعین:النکاح من سنتی ابن ماجہ کی مذکورہ بالاحدیث سےاخذ کیا ہے اور اس کادوسراٹکڑا النکاح من سنتی فمن رغبتی سنتی فلیس منی حضرت انس کی مذکورہ صحیح حدیث سےلیا ہے اوردونوں کوملاکر پوری روایت یوں کردی النکاح من سنتی فمن رغب عن  سنتی فلیس منی

ہم نے مرعاۃ جلد242/1میں حضرت انس کی مذکورہ متفق علیہ حدیث کی شرح میں اس کی تخریج کےبعد یہ لکھا ہے واما ماذكر الرافعى واشتهر على الألسنة بلفظ النکاح من سنتی فمن عن رغب سنتی فلیس منی فلم أجده مع الاستقراء التام والتتبع البالغ والله اعلم

اور نے بھی تلخیص میں رافعی کاذکر کردہ لفظ نقل کرنے کےبعد صرف ابن ماجہ کےالفاظ اورحضرت انس کی حدیث نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے جس معلوم ہوتا ہےکہ ان کو بھی رافعی کےذکر کردہ الفاظ کےساتھ حدیث نہیں مل سکی۔

 علامہ سندھی ابن ماجہ کی مذکورہ بالاحدیث روایت کی شرح میں لکھتے ہیں: قَوْلُهُ: (النِّكَاحِ) أَيْ طَلَبِ النِّسَاءِ بِالْوَجْهِ الْمَشْرُوعِ فِي الدِّينِ (مِنْ سُنَّتِي) مِنْ طَرِيقَتِي الَّتِي سَلَكْتُهَا وَسَبِيلِي الَّتِي نَدَبْتُهَا (فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي) رَغْبَةً وَإِعْرَاضًا عَنْهَا وَقِلَّةَ مُبَالَاةٍ بِهَا فَلَا يَشْمَلُ الْحَدِيثُ مَنْ يَتْرُكُ النِّكَاحَ لِعَدَمِ تَيَسُّرِ الْمُؤنة ونحوذلك

ص:8سطر:6:کےبعد مختصرا اتناضروری بڑھادینا چاہئے کہ :مہر اتنا ہی مقرر کرنا چاہئے کہ جس کوادا کرنے کی شوہر استطاعت رکھتا ہے یعنی :وہ  رکھتا ہے یعنی وہ اسے آسانی کےساتھ ادا کرسکے اورکوشش یہ ہونی چاہئے کہ شوہر نکاح ہی کےوقت مقرر مہر ادا کردے گوتعجیل شرعا لازم نہیں ہے بلکہ تمام فقہاء کےنزدیک تاجیل بھی جائز ہے لیکن مہر کے موجل ہونے کی صورت میں مقرر اجل یعنی:  مدت ادا کرنا لازم ہےاوراگر کوئی مدت مقرر نہ کی گئی ہوجیساکہ عام طور پر رواج ہےتوپھر طلاق کے وقت یا حدالزوجین کی وفات کےوقت مہر کی ادائے گی شرعاضروری ہے۔

مہر کی ادائے گی یاصدق دل اوراپنی مرضی سےعورت کےمعاف کرنے کےبغیر شوہر اس دین سے ہرگز بری الذمہ نہیں ہوسکتا عورت پر کسی قسم کادباؤ ڈال کر مہر معاف کرانے اورمعاف کرنےسے مہر ساقط نہیں ہوتا۔

برادری کےرسم ورواج یا اپنی بڑائی اورشاندار ظاہر کرنے کے لئے یا اس خیال سے کہ شوہر بیوی کوطلاق نہ دے شوہر کی حیثیت واستطاعت سےزیادہ مقرر کرنا اورشوہر کااپنی استطاعت سے باہر مہر کےتقرر کوتسلیم کر لینا کہ جتنا چاہو مقرر کرلو دینا تو ہے نہیں یہ طریقہ کارشرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔آن حضرت ﷺ نے ایسے شخص کوجو مہر نہ دینے کی نیت کےساتھ کسی عورت سےنکاح کرنے اس کوزانی کہا ہے۔

مجلس نکاح میں خطبہ نکاح کےمقاصد کی  کی تشریح کے وقت میرے خیال میں طلاق وخلع کے مسائل کا ذکر نا مناسب نہیں ہے۔

ایک تواس وجہ سے کہ اس مجلس کاوقت بالعموم بہت مختصر اورتنگ ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ نکاح کےساتھ طلاق وغیرہ کاذکر کرنا اس مجلس میں کچھ زیب نہیں دیتا بلکہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔البتہ عام وعظوں اور رسالوں میں خطبہ نکاح کےمقاصد اورنکاح وطلاق کے ضروری مسائل کامختصر یاتفصیل کےساتھ ذکر کرنا بلاشبہ اچھا ہےبلکہ ضروری ہے۔

رسالہ کے ص: 13میں طلاق دینے کاغلط طریقہ عنوان کےماتحت جوکچھ لکھا گیا ہے وہ مجمل ہونے کےساتھ فقہ حنفی کی ترجمانی ہے اوروہ مسلک اہل حدیث کےخلاف ہےاس لئے وہاں ضروری ترمیم اورتوضیح وتصیح کردی گئی ہے۔

اسی طرح ص: میں عدت کےدنوں میں عورت کہاں رہے؟ کے عنوان کےتحت جوکچھ لکھا گیا ہےاس میں اجمال کےعلاوہ فقہ حنفی کی ترجمانی ہے۔اس لئے وہاں بھی ضروری اصلاح وترمیم کردی گئی ہے۔

یہ معلوم ہےکہ خلع عندالحنفیہ طلاق ہے۔اسی بنا پر ان کےنزدیک مثلعہ کی عدت  مطلقہ کی طرح حیض  تین حیض ہے اورامام شافعی وغیرہ کےنزدیک خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ ہے اس بنا پر اورحدیث تعمتد المختلعہ حیضہ کی روسے ان کےنزدیک مختلعہ کی عدت صرف ایک ماہوار کاآنا ہے۔بنابریں یہاں بھی ضروری ترمیمات کردی گئی ہیں:

رسالہ کومذکورہ ترمیمات واصلاحات کےساتھ شائع کرناہو توضرور شائع کیجے ورنہ جیسا کچھ وہ چھپا ہوا بعینہ اسی حالت موجودہ میں شائع کیاجاناجماعت اہل احدیث کاباعث  ہوگا اوریہ ایک بڑا فتنہ ہوگا۔مکاتیب

٭آپ نے اپنے مارڈ مرقومہ 19فروری1981میں کتاب  خطبہ نکاح دوبارہ پڑھنےے کی ہدایت کرتے ہوئے مہر اورنکاح کےوقت لڑکی سےاجازت لینے اورنکاح کی شرطوں وغیرہ کے بارے میں جوکچھ لکھا یا اب اضافہ  کرنا چاہتے ہیں میری رائے طلب کی ہے۔افسوس ہےکہ قاری صاحب نےآپ کا وہ رسالہ مجھ تک پہنچانے کی زحمت  نہیں کی اورمیرے یہاں آپ کا مرسل رسالہ نہ معلوم کہاں پڑگیا ہے کہ اب تک تلاش سے نہیں مل سکا۔ان اللہ الخ

(1)عام طور پر بلکہ تقریبا پورے ہندوستان میں مہر کےبوقت نکاح دینے کارواج بالکل نہیں ہے۔تقریبا ہر جگہ مہر دین ہی ہوتا ہے ۔ جس کی ادائے گی کاسوال زوجین میں سے کسی ایک کےمرنے یاعورت کےطلاق یاخلع لینے کے وقت اٹھتا ہے۔بعض برادریوں میں اونچے اونچے مہر مقرر ہوتے ہیں جن کی کبھی ادائیگی ہو نہیں سکتی اورنہ لڑکے والوں کی نیت ہی ادا کرنے کی ہوتی ہے۔ آپ کےمضمون میں زیادہ زور اس پر ہونا چاہے کہ مہر اتنا ہی مقرر کیا جائے جس کولٖڑکے والے جب چاہیں آسانی سے ادا کردیں اورلڑکی والے لڑکے کی استطاعت وحیثیت سےباہر مہر مقرر کرنے کی کوشش نہ کریں اورمہر تراضی طرفین سےجتنا بھی مقرر ہووہ معجل ہو اور اس فورا ادا کردیا جائے چاہے زیوروں کی شکل میں ہو یا نقدروپیہ کی شکل میں یاکسی جائداد (منقولہ یاغیر منقولہ) کی شکل میں ہو۔

(2)بوقت نکاح بالغ لڑکی سےنکاح کی اجازت حاصل کرنےکے سلسلے میں یہ عرض ہے کہ :پہلے سےلڑکی کاعندیہ معلوم ہوناکافی نہیں ہے بلکہ نکاح کےوقت  اس سےاذن حاصل کرناضروری ہے اورصرف باپ کایاکسی بھی ولی کاگھر میں اکیلے جاکر لڑکی سےاجازت لینا ٹھیک نہیں بلکہ ولی اوروکیل نکاح کودومعتبر گواہوں کے ساتھ لے کر لڑکی سےاذن حاصل کرناچاہئے۔مصلحت اوراحتیاط کاتقاضا یہی ہے۔باپ خودنکاح پڑھائے یعنی ایجاب وقبول دونوں صورتوں میں معتبر گواہوں کےساتھ باپ اوروکیل نکاح کولڑکی سے اجازت لینا چاہئے۔رسالہ مذکورہ میں نکاح کی شرطوں وغیرہ کےبارے میں آپ نےجواضافہ کیا ہے اسے الگ کاغذ پر تحریر کیا ہے۔یہ کاغذبھی قاری صاحب نےمجھ تک پہنچانے کی زحمت نہیں گوار کی اس لئے ان کےبارے میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔مکتوب

٭رسالہ خطبہ نکاح میں مہر کی شرعی مقدار بیان کرنےکی ضرورت نہیں ہے زور صرف اس بات پر دینا چاہئے کہ حتی الامکان مہر معجل اورطرفین باہمی رضامندی سےاس قدر مہر باندھیں جوشوہر کی حیثیت کےمطابق ہواورجسے وہ آسانی سےفورا ادا کردے۔

لڑکی سےنکاح کی اجازت لینے کےبعد مجلس نکاح میں ولی کی طرف سےایجاب اورشوہر کی طرف سےقبول ضروری ہے۔ایجاب وقبول  نکاح کےاارکان ہیں۔اور لانکاح الاوبولی وشاہدی عدل کی روسے ایجاب وقبول کےوقتولی اورمعتبر گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔کوئی بالغہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت اور عبارت کےبغیر خود اپنانکاح نہیں کرسکتی نیز مروجہ جہیز اورلین دین کےخلاف رسالہ میں بھرپورزور صرف کرناچاہئے۔اگر کسی لڑکی کےولدین اپنی مرضی سےجہیز دیں تو اس وقت اس کی تصریح کرالینی چاہئے کہ جہیز کاکون ساسامان لڑکی کودیا جارہا ہے اورکون سی چیز دولہاکودی جاری ہے اوردونوں کو جوکچھ دیا جارہا ہے بطورعاریت کےدیاجارہا ہےیابطورتملیک اورہبہ کے؟تاکہ بعد میں جہیز کی بابت کوئی جھگڑا نہ پیدا ہواورطے شدہ تصریح کےمطابق عمل درآمد ابوالقاسم خالد العربی کارسالہ اسلام اورعورت نظر سےگزرا ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 187

محدث فتویٰ

تبصرے