سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) مدرس یا امام کی تنخواہ زکاۃ کے مال سے دینا

  • 17354
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1209

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد یامدرسہ میں ایک میاں یا ملارکھ کر گاؤں کی بچوں کوتعلیم دلائی جائے اوران میں صاحبان زکوۃ کےبچے بھی تعلیم پاویں تو کیاجائز ہوگایانہیں؟درانحالیکہ زکوۃ دینے والے حضرات میاں یاملاکی تنخواہ اپنےعشر وزکوۃ کی رقم سے دیتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصحاب اموال کااپنےبچوں کوایسے لوگوں سےتعلیم دلاناجن کو وہ تنخواہ  اپنےاموال کی زکوۃ وعشر سےدیتے ہوں درست نہیں

هذا الرجح عندى الى هذا الان

ایسے علمائے دین جو آیت کےمصداق ہوں﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ﴾... سورةالبقرة

یعنی :دینی تعلیم وخدمت کے لئے وقف ہوگئے ہوں اورفکرمعیت کےلئے وقت نہ نکال سکتے ہوں مساکین  میں داخل ہیں۔ بشرطیکہ انہوں نےتعلیم دین کو حصول کازرکا پیشہ نہ بنالیا ہوضرورت اورحاجب  زیادہ لیتے ہوں اورکسی حالت میں ساعی وسائل نہ بنتےہوں۔ایسے علماء ودعاۃ مد زکوۃ کے بلاشبہ مستحق ہیں۔ اسی طرح غریب طلبہ علوم دینیہ بھی آیت مذکوٰرہ کی رو سےفقراء ومساکین میں داخل ہیں۔اور ضروری ہےکہ اس مد سے ان کی خبر گیری کی جائے۔رہ گئے علماء اغنیاء جو سونے یا  چاندی کےنصاب کےمالک ہیں یا خوشحال وزمیندار ہیں یا کرایہ کی جائدادوں کےمالک ہیں اور قرآن وعلوم دینیہ کی ترویج اوردعوت وارشاد ہدایت وتبلیغ یادرس وتدریس میں مصروف ومشغول رہتے ہیں ان کوزکوۃ دینی ارو خود ان کو زکوۃ لینی جائز ہےیانہیں؟ اسی طرح مدارس کااجراءوقیام اورمدرسین  وملازمین کی تنخواہ اس مد سےدینی جائز ہے یا نہیں؟سو اس میں اختلاف ہے۔ بعض علمائے اہل حدیث اسے جائز درست کہتے ہیں۔ ان میں بعض نےان علماء ومدرسین کوسبیل اللہ میں داخل سمجھاہ۔ ان کاخیال ہے کہ سبیل اللہ کےذریعہ ایک جامع وحاوی مقصد کادروازہ کھول دیا گیا ہے۔ جس میں دین وامت کےمصالح کی ساری باتیں  آگئیں۔مثلا قرآن شرعیہ کی ترویج واشاعت مدارس کا اجراء وقیام دعاۃ ومبلغین کا قیام وارسال ہدایت وارشاد امت کےتمام مفید مسائل۔

اکثر علماء کےخیال میں سبیل اللہ مراد صرف مجاہدین وغزاۃ ہیں

کماقال شمس الائمة ابن قدامة فى الشرح الكبير على متن المقنع: لاخلاف فى انهم االغزاة لان سبيل الله عند الاطلاق هو الغزو انتهي

علامہ سید رضا مصری مرحوم نےمخالفت کی ہے ۔چنانچہ لکھتے ہی

بقوله (هذا غير صحيح! بل سبيل الله هو الطريق الموصل إلى مرضاته وجنته وهو الإسلام في جملته، وآيات الإنفاق في سبيل الله تشمل جميع أنواع النفقة المشروعة، وماذا يقول في آيات الصد والإضلال عن سبيل الله والهجرة في سبيل الله؟ بل لا يصح أن يفسر سبيل الله في آيات القتال نفسها بالغزو؛ لأن القتال هو الغزو، وإنما يكون في سبيل الله إذا أريد به أن يكون كلمة الله هي العليا ودينه هو المتبع، فسبيل الله في الآية يعم الغزو الشرعي وغيره من مصالح الإسلام، بحسب لفظه العربي، ويحتاج التخصيص إلى دليل صحيح

قلت :الراجع عندي أنهم االغزاة خاصة وإن كانت كلمة سبيل الله بحسب  لفظها العربى عامة تشمل جميع مصالح الاسلام العامة لكن المراد فى آية مضارف الزكوة فيما أرى والله اعلم بمراد كلامه-الغزاة خاصة والدليل  على هذا التخصيص ماروى احمد ومالك وابوداو ابن ماجه وغيرهم عن ابى سعيد مرفوعا:لاتحل الصدقة لغنى الالخمسة لعامل عليها اورجل اشتراهابماله اور غازي فى سبيل الله الخ

وعلى هذا فلايدخل فى سبيل الله الاغنياء من اصحاب الدعوة والارشاد والهداية والتبليغ والافتاء والتدريس وغيرهم من الموظفين فى المدارس الدينيه ولايدخل فيها ايضا تاسيس المعاهد الدينيه وتعميرها واعانتها واقامتها وغير ذلك مما يشبهه

اور بعض علمائے اہل حدبث نے ایسےاصحاب  نصاب کوعاملین میں داخل سمجھا ہے۔ ان کاخیال یہ ہے کہ عاملین کوزکوۃ کامصرف ٹھہرانے کی علت بجز اس کےاورکچھ نہیں کہ ان عاملین نےایک کام جومصالح مسلمین سے ہےانجام دیا ہے-قال الشوكانى: حديث ابن السعدى(عندالشيخين)دليل على أن عمل الساعى سبب لاستحقاقه الأجرة كما أن وصف الفقر والمسكنة هو السبب فى ذلك واذا كان العمل هو السبب اقتضى قياس قواعد الشرع أن الماخوذ فى مقابلة الأجرة

اسلامی حکومت کےعاملین کو اللہ تعالی نےصاف طور پر زکوۃ کامصرف نہیں ٹھہرایا  ہے لیکن روایات حدیثیہ سے  ثابت ہے کہ عہد نبوت میں جواشخاص اس قسم کےکاموں کوانجام دیتےتھے ان کو بھی رسول اﷺ  ان کے کاموں کی اجرت عنایت فرماتےتھے۔ ابوداور میں بریدہ سےمرفوعا روایت ہے:

وَعَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «مَنْ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدُ فَهُوَ غُلُولٌ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد) قال الشو كانى: فيه دليل على انه لايحل للعامل زيادة على مافرض له  من استعمله وما اخذه بعد ذلك فهو من الغلول وذلك بناء على أنه اجارة ولكنها فاسدة يلزم فيها اجره المثل الى آخر ما قال(نيل الاوطار:4/33)

پس حکومت اسلامی کے دیگر عاملین مثل قضاۃ وغیرہ بوجہ اشتراک فی العلۃ حکم سعاۃ میں داخل ہیں۔ اس کےعلاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی دیگر عاملین کی اجرت بلکہ خود  حاکم کی اجرت مال مسلمین سےدیا جانا ثابت ہےاور انہی وجوہ سےخلف وسلف کی ایک بڑی جماعت  اس جانب گئی ہے۔

قال الطبرى :ذهب الجمهور الى جواز اخذ القاضى الاجرة على الحكم لكونه يشتغله الحكم من القيام بمصالحه(عمدة القارى للعينى وفتح البارى13/150)

واحتج ابوعبده على جواز ذلك بما فرض الله للعاملين على الصدقة جعل لهم حقا منها لقيامهم وسعيهم الى قوله وقال ابن االمنذر:حديث ابن االسعدى حجة فى جوارزاق القضاة من وجوهها(فتح البارى13/154) وقال القارى فى المرقات فى شرح الحديث :وغيره جائز اخذ العوض من بيت المال على العمل العام وان كان فرضا كالقضاء والحسبه والتدريس بل يجب على الامام كفاية هولاء ومن فى معنا هم فى بيت المال انتهى وقال المولوى عبدالحي لكهنوي عى عمدة الرعاية: وكل من فرغ نفسه بعمل من امور المسلمين يستحق على ذلك رزقا كالقاضى الخ

پس ایسامدرسہ جو مصالح مسلمین پر مشتمل ہے اس کےمدرسین کو مد زکوۃ سے تنخواہ دینی کیوں درست نہیں؟ ساتھ ہی اس کےاس زمانہ میں مدارس دینیہ کےقیام وبقا کی جوضروت ہےوہ ومخفی نہیں۔ وہ بھی ظاہر ہےکہ تاوقتیکہ مدارس کی امداد مد زکوۃ سے نہ ہوگی کوئی مدرسہ چل نہیں سکتا ۔پس سائلین  صدقات کےساتھ دوسرے عاملین ملحق ہیں اور عاملین صدقات کےلئے بحالت ان کے غنی  ہونےکےبھی زکوۃ سے اجرت لینی درست ہےتو مد زکوۃ سے مدرسین کو تنخواہ معین غیرمعین دونوں طرح لینا ان کے غنی ہونے کی صورت میں بھی جائز اور درست ہوگا جیساکہ حضرت ابوبکر کےواقعہ سےثابت ہے

اخرج ابن سعج عن ميمون  قال: المااستخلف ابوبكر جعلو اله الفين فقال :زيدوالى فان عيالا وقداشتغلتمونى عن التجارة فزادوه خمس مائة(تاريخ الخلفاء)

علماء حنیفہ کےنزدیک مد زکوۃ سےمدرسین وملازمین مدرسہ کوبصورت ان کےغنی ہونےکے تنخواہ نہیں ادا کی جاسکتی اور نہ انکےلئے لینا جائز ہے۔وہ کہتےہیں : زکوۃ ایک فریضہ الہی ہے جس کی ذمہ داری مالک نصاب پر عائد ہوتی ہے ۔اورچونکہ وہ حج روزہ نماز کی طر ح ایک عبادت ہے اس لئے مالک نصاب کو مقرر ہ شروط وقیود کالحاظ رکھتےہوئے مال کا ایک معین حصہ اس کےمصارف میں بطور تملیک اس طرح ادا کرنا ضروری ہےکہ اس کی ادائیگی میں بجز امتثال امر الہی شخص مودی الیہ سےکسی قسم کوئی غرض حصول نفع کی خاطر نہ ہو(تنویر الابصار)اس لئے وہ ان لوگوں پر بھی اس کو صرف نہیں  کرسکتا کہ جن  کےدینے میں حصول نفع کااحتمال ہو۔

كما قال فى رد المختار:فلايدفع لاصله اى وان علاء ولفرعه اى وان سفل وكذا الزروجته وزرجها وعبده وكاتبه لانه بالدفع اليهم لم تنقطع المنفعة عن الملك اى المزكى من كلا وجه-

اور اسی بنا پر اجرت معاوضہ ہےان کے عمل کا اورزکوۃ میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا۔حنفیہ کہتے ہیں کہ عاملین صدقات کے ساتھ اغنیاء مدرسن کو ملحق کرناصحیح نہیں۔کیونکہ ان کوجوکچھ ملتاہے وہ بطریق عمالہ ہے اور چونکہ یہ بقدر کفاف یعنی: ان کےاور ان کے اعوان کی ضرورت اور حاجت کے مطابق دیا جاتاہےاس لئے اس کواجرت ومعاوضہ سمجھنا غلط ہےکیونکہ وہ مقدار جو اس کواوراس کےاعوان کوکافی  ہوسکے وہ مجہول اورغیر معلوم ہے۔اوراحد العوضین کی جہالت جواز اجارہ سےمانع ہےپس معلوم ہواکہ عامل صدقہ کااستحقاق بطور اجرت ومعاوضہ کےنہیں ہےبلکہ بطریق کفایہ ہے بنا بریں مدرسین وملازمین مدرسہ کوعاملین صدقات کےساتھ ملحق کرناغلط ہے۔

حنفیہ کہتے ہیں دیر عاملین کےعمالہ  سےجوان کوبیت المال سےملتا تھا مدرسن کے مد زکوۃ سےتنخواہ دینے کےجواز پر استدالا صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ بیت المال دراصل اسلامی خزانہ کانام ہےجس ایک جنس غنائم وغیرہ جمع ہوتےتھے اور اس آیت وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ الخ کے بموجب صرف کیا جاتا تھا۔دوسرا شعبہ بیت الصدقات تھا۔ جس میں عشر وزکوۃ فطر کےاموال جمع ہوتےتھے اور اس کومصارف منصوصہ ثمانیہ میں صرف کیاجاتا تھا۔نیز ایک شعبہ خراج الارض والجزیہ تھا جس میں زمینوں کاخراج اورجزیہ  وغیرہ کامال جمع رہتا ۔اس شعبہ سےقاضی مفتی اور علماء وغیرہ کوبقدر کفاف ملاتا تھا۔چوتھا شعبہ لاورث لوگوں کےترکہ اورلقطات کاتھا جس کوضوائع کہتے تھے۔ اس سے عام مصالح مسلمین میں امدار ملتی تھی(عالمگیری وغیرہ) پس یہ ثابت کرکے کہ علماء وقضاۃ اورعمال کو بیت المال سےتنخواہ ملتی یہ ثابت کرناکہ مد زکوۃ سےمدرسین تنخواہیں پاسکتےہیں صحیح نہیں ۔مالی آخرہ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 70

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ