السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث بتیراء
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک اہل حدیث دوست کی عنایت سےکبھی کبھار ’’ الہدی،، دیکھنے کومل جاتاہے،اس کی اشاعت مورخہ یکم اکتوبر 1952 ءمیں ایک رکعت وتر کی بابت مولوی.......اعظم گڑھی کاایک مفصل فتوی نظر سے گزرا ، یہ مولوی صاحب افتاء کےاہل ہیں یانہیں؟اس کوتو وہ خود ہی خوب جانتےہوں گے! ہم نے تو ان کایہ فتوی پڑھ کریہ رائے قائم کی ہےکہ انہوں نےاپنے اس تنقیدی فتوی کےذریعہ اہل حدیث جماعت کی کوئی اچھی نمائندگی نہیں کی ہے۔
ادارہ ’’ الہدی ،، نےاگر اس تحریر کوبجائے فتوی کےایک مضمون کی حیثیت سےشائع کیاہوتا ،توچنداں مضائقہ نہیں ہوتاکہ مضمون نگار ہرقسم کےہوتےہیں ،اور رسالہ اخبار کی پوزیش اوراغراض ومقاصد سےبسا اوقات بےنیاز ہوکر،کیاکچھ نہیں لکھ ڈالتے حتی کہ اگر ادارہ ان پراعتماد کرکے ان کاہرمضمون شائع کردیا کرے، توانتخاب کےبعد بھی پورا مضمون جوں کوتوں کردیا کرے،توپھر اس رسالہ یااخبار کی خیرنہیں ۔
سطور ذیل میں مولوی صاحب موصوف کےاس فتوی پرسراسری نظرڈالنی مقصود ہے، اور امیدہے وہ آئندہ اخذ ونقل اورتنقید وکلام میں احتیاط سےکام لیں گے۔
مولوی صاحب موصوف نےسوال اس ڈھنگ سےبنایا ہےکہ اس سےصاف طورپریہ معلوم ہوتاہےکہ حنفیہ جوتین رکعت سےکم وترکےقائل نہیں ہیں ، اپنے مذہب پرصرف یہی ایک دلیل (حدیث بتیراء ) رکھتے ہیں اورفقط اسی ایک حدیث پران کےاعتماد ہے۔
حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ، یہ حدیث تومن جملہ ان کی متعدد دلائل کےایک دلیل ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہےکہ وہ اس کومحض تائیدا ً پیش کرتےہیں ،اور ان کااعتماد دراصل دلائل قویہ پرہے، جیسا کہ بدائع ،شرح معانی الآثار ، شروح ہدایہ وغیرہ سےظاہرہے۔
مولوی صاحب نے’’بتیرا ء ،، کےدوجواب دیے ہیں ۔
پہلا الزامی ، دوسرا تحقیقی ۔
الزامی جواب میں انہوں نےحدیث بتیرا حدیث بتیرا سےجوضعیف ہےایک رکعت وتر کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، توحدیث ابوہریرہ سےجوصحیح ہےمشابہ مغرب تین رکعت وتر کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔پس احناف کوچاہے کہ جیسے ایک رکعت وتر نہیں پڑہتے، تین رکعت بھی مشابہ مغرب کےوترنہ پڑھیں ۔ مطلب آپ کےاس لکھنے کایہ ہوا کہ اہل حدیث نے ایک ضعیف حدیث (حدیث بتیرا ء ) کاخلاف کیا ہے،توکیاہوا!حنفیہ نےتوصحیح حدیث (حدیث ابوہریرہ مذکور ) کاخلاف کیاہے۔
ادباً گزارش ہےکہ حضرت ابوہریرہ کی یہ حدیث مشترک الاالزام ہے۔اگربظاہر ہمارے حنفیہ کےخلاف ہےتواہل حدیث کےبھی خلاف ہے، کیونکہ علماء اہل حدیث تین رکعت وتر کوصرف جائز ہی نہیں بلکہ افضل کہتےہیں ، اگرچہ عوام اہل حدیث کاعمل ایک رکعت پرزیادہ ہے، اس لحاظ سےاہل حدیث پرڈبل الزام عائد ہوتا ہےیعنی:یہ کہ انہوں نےدوحدیث (حدیث بتیرا ء ، حدیث ابوہریرہ ) کی مخالفت کی ہے،رہ گیا مغرب کی مشابہت کامعاملہ تواس کا جواب آگے آرہا ہے۔
اس امر پرفریقین کااتفاق ہےکہ آنحضرت ﷺ اورصحابہ کرام سےتین رکعت وترقولا وعملا ثابت ہے، اورحضرت ابوہریرہ کی حدیث مذکور میں تین رکعت وترسےمنع کیاگیا ہے، اس لیے ہردوفریق اہل حدیث وحنفیہ ان احادیث کی توجیہ ان ان کےدرمیان تطبیق دینے پرمجبور ہیں اورچوں کہ تطبیق کی کوئی خاص نوعیت اورجہت متعین ومنصوص نہیں ہے۔ اس لیے ہرصاحب نظر وفکر احادیث متعارضہ کےالفاظ ونیز دیگر احادیث متلقہ کوسامنے رکھتےہوئےتطبیق دینے کامجاز ہے۔ ظاہرہےایسی صورت میں توفیق وتطبیق میں تعداد اورتنوع واختلاف غیرمستبعد بلکہ گزیرہے۔چنانچہ یہاں تطبیق کی حسب ذیل صورتیں نکالی گئی ہیں :
(1) منع والی حدیث ( حدیث ابوہریرہ ) کاموردوہ تین رکعت ہےجودوقعدہ اور
اورایک سلام کےساتھ ادا کی جائے ، کیونکہ اس صورت میں وتر ، مغرب کی نماز کےمشابہ ہوجائے گی ۔ اورجوازوالی حدیثیں محمول ہیں اس صورت پرکہ جس میں وتر کی تین رکعت ایک قعدہ اورایک سلام کےساتھ ادا کی جائے ، حافظ ابن حجر شافعی نےاسی طرح تطبیق دی ہے،اور امیر یمانی نےشرح بلوغ المرام میں اس کی تحسین کی ہے، اور علامہ نیموی کےجواب میں صاحب تحفۃ الاحوزی نےاس توجیہ کی تائید وتقویت کی ہے۔
(2) تین رکعت وتربہرحال دوقعدہ ایک سلام کےساتھ ہونی چاہیے ، منع کاتعلق اس صورت کےساتھ ہےجب کہ صرف وترپر اکتفاء کیا جائے یعنی :اس سے پہلے سنت یانقل نہ پڑھی جائے ، کیونکہ اس صورت میں وتر،مغرب کی فرض نماز کےمشابہ ہوجائے گی اس لیے کہ فرض مغرب سےپہلے سنت پڑھنا مندوب ومسنون نہیں ہے، اورنہ نہ اس پرامت کاتعامل ہےگومباح اورجائز ہے كما صرح به الشيخ ابن الهمام فى فتح القدير اور جواز والی احادیث
کا محمل وہ صورت ہےجب کہ وتر سےپہلے دورکعت سنت یانقل ادا کرلی جائے ۔یہ وجہ تطبیق ہمارے فقہاء حنفیہ ، امام طحاوی وغیرہ نےاختیار فرمائی ہے ۔
(3) نہی محمول ہےکراہت پر، اورثبوت والی احادیث محمول ہیں بیان جواز پر۔
پس احوط یہ ہے کہ تین رکعت پڑھی ہی نہ جائے نہ دوقعدہ اورایک سلام کےساتھ ،اورنہ ایک قعدہ وایک سلام کےساتھ ، کیوں کہ : ایک تشہد کےساتھ ادا کرنے میں بھی مغرب کی فرض کےساتھ فی الجملہ مشابہت موجود رہتی ہے۔ یہ توجیہ شوکانی نےختیار کی ہے۔
(4) جواز کاتعلق دوسلام والی صورت کےساتھ ہےاور نہی کاتعلق ایک سلام
والی صورت کےساتھ ، خواہ دوقعدہ کےساتھ ہویا ایک قعدہ کےساتھ ، یہ طریق مختار ہےمحمد نصر مروزی ، یہ کہتے ہیں کہ : ایک سلام کےساتھ تین رکعت وتر آنحضرتﷺ سےثابت نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک تیسری اورچوتھی تطبیق کی طرح پہلی وجہ تطبیق بھی مخدوش ہے۔اس لیے کہ حدیث ابوہریرہ دولفظوں کے ساتھ مروی ہے:
1۔ ’’ لا توترو ابثلات تشبهوا بالمغرب ، ولكن أوتروا بخمس أو بسبع أو تسع أوبإحدى عشرركعة ، او أكثرمن ذلك ،، (بيهقى 3/ 31، كتاب الوتر للمروزى ص : 125، طحاوى 1/192 ،مسند رك للحاكم 1/304 ) .
1- ,, لا توتر وا بثلاث ، أوتروا بخمس أوسبع ، ولا تشبهوا بصلاة المغرب ، ، (دارقطنى 2/25-26 )
پہلی روایت کامطلب یہ ہےکہ تین رکعت وتر نہ پڑھواگر تین رکعت پڑھوگےتواس کومغرب کی نماز کےمشابہ کردوگے، پانچ رکعت وتر پڑھو، یاسات رکعت ، یانورکعت ،یاگیارہ ، یا اس سےبھی زیادہ ، معلوم ہواکہ نہی کامحط اورمنع کامورد تشبیہ بمغرب نہیں ہے، بل کہ تین کاعدد ہےاوراس کاتشبہ بمغر ب لازم ہےجب بھی تین رکعت پڑھی جائے اورجس ہئیت کےساتھ بھی پڑھی جائے گی مشابہت بمغرب محقق ہوجائے گی۔اس مشابہت کےرفع کاطریقہ خوداسی حدیث کےآگے جملہ میں مذکورہے، ارشادہے: ’’ ولكن أوتروا بخمس ،،الخ معلوم ہوا کہ وتر تین رکعت کےبجائے پانچ یاسات یانویاگیارہ اداکرنا چاہیے اس طرح پرکہ تین رکعت ( وتر) سےپہلے دو چار یا چھ یا آٹھ رکعت نفل ادا کرلی جائے ، ظاہر ہےکہ حافظ کی ذکر کردہ وجہ تطبیق سےدونوں حدیثوں ( حدیث منع ، وحدیث جواز ) کااختلاف دورنہیں ہوا کیوں کہ حضرت ابوہریرہ کی اس روایت میں مطلقا تین رکعت وتر سے منع کردیاگیا ہےاورتین رکعت پڑھنے پرمغرب کی مشابہ ہونے کاحکم لگایا گیاہے، اورتین کےبجائے پانچ ، سات ،نوگیارہ ، پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ حافظ کی نظر سےروایت کےیہ الفاظ گزرے نہیں یا گرزے تولیکن انہوں نے قابل التفات نہیں سمجھا ۔
دوسری روایت میں مستقل طور پردوچیزوں سےمنع کیا گیا ہے:
1۔ إيتار بالثلث اورتشبيه بصلاة المغرب اب اگرتین رکعت پڑھنا ہی تشبیہ بمغرب ہے، تو وہی سابق اشکال یہاں بھی بعینہ پیدا ہوجائے گا اور اگرتشبیہ سےمقصود کسی خاص مثبت سےادا کرناہے، تواس خاص صفت اورہئیت کی تعین پرکوئی قرینہ ہونا چاہیے، جواس امر پردلالت کرےکہ اگراس مخصوص صفت کےساتھ تین رکعت ادا کی جائے تومغرب کےساتھ مشابہت ہوجائے گی ، اوراگر اس ہئیت کےعلاوہ دوسری ہئیت پرادا کی جائے تومشابہت نہیں ہوگی ، اور معلوم ہے کہ حافظ کی ذکر کردہ ہیئت (ایک قعدہ اورایک سلام والی تین رکعت ) پراس قسم کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے،علاوہ بریں اس تطبیق کےروسے’’لاتشبهوا،، پرتوبظاہر عمل ہوجاتاہےلیکن دوسرے جملہ کا’’ لاتوتروا بثلاث ،، پرعمل نہیں ہوتایعنی : اس نہی کی حافظ نےکوئی توجیہ بیان نہیں کی ۔ ف فيه إعمال كلمة واهمال كلمة أخرى ، ونيز یہ توجیہ جملہ ’’ اوتروابخمس ،،الخ سےبھی صرف نظر کرلینے پردلالت کرتی ہے، اونیز یہ تطبیق اس صحیح حدیث کےخلاف ہےجس کوابن حزم نےالمحلی 3؍47، نسائی 3؍235، طحاوی 1؍280۔285، حاکم 1؍304، بیہقی 3؍31 ، دارقطنی 2؍ 33 محمد بن نصر اللیل ص:122نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےبایں لفظ روایت کیا ہے:’’كان لايسلم فى ركعتى الوتر، وفى رواية: لا يسلم فى الركعتين الأوليين من الوتر ،، وفى رواية : ’كان يوتربثلاث لا يسلم الا فى آخرهن ،، اس حدیث میں وتر کی دوسری رکعت پرصرف سلام کی نفی کرنا اس امر کی دلیل ہےکہ آنحضرت ﷺ وترکی دوسری رکعت کےبعد قعدہ تشہد کیاکرتےتھے،کیونکہ اگر سلام اورقعدہ تشہد دونوں کی نفی مقصود ہوتی تولایقعد یا لایتشھد کہنا کافی تھا ۔ اس لیے کہ قعدہ تشھد فی الصلوۃ کی نفی سلام،تحلیل صلوۃ کی نفی کومستلزم ہے، اورسلام کی نفی قعدہ تشہد کی نفی کومستلز م نہیں ہےكمالا يخفى ، اسی لیے بیہقی شافعی نےاس حدیث پریہ باب منعقد کیاہے :’’ باب من اوتربثلاث موصولات بتشهدين وتسليم ،، (السنن الكبري 3/31) اورابن حزم نے محلی 3؍47 میں وتر کی ان تمام صورتوں کوجوآنحضرت ﷺ سےثابت ہیں بالتفصیل بیان کرتےہوئے بارہویں صورت اس طرح تحریر کی ہے:’’ والثانى عشر: ان ايصلى ثلاث ركعات ،يجلس فى الثانية ، ثم يقوم دون التسليم ، ويأتى بالثالثة، ثم يجلس ، ويتشهد كصلاة المغرب ، وهو اختيار أبى حنيفة ،، انتهى ، پھر اپنی سندسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مذکورباین لفظ روایت کی ہے:’’ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كا ن لايسلم فى ركعتى الوتر، ، (محلي 3/ 47 )
معلوم هواکہ بیہقی شافعی اورابن حزم ظاہری نےبھی اس روایت سےیہی سمجھا ہےکہ آنحضرت ﷺتین رکعت وتر دوتشہد اورایک سلام کےساتھ ادا فرماتے تھے،پس حافظ کی تطبیق (ایک قعد ہ اورایک سلام ) بلاشبہ اس صحیح حدیث کےخلاف ہے۔اوراگر ان تمام امور سےقطع نظر کرکےغورکیا جائے تویہ وجہ تطبیق ہمارے لیے مضربھی نہیں ، کیونکہ اس کاحاصل اسی قدرتوہے کہ دونوں نمازوں (وتر اورمغرب)میں سےایک نماز میں ایک عمل کی زیادت اوردوسری نماز میں اس کی کمی سےمشابہت بمغرب مرتفع ہوجائے گی ۔اورظارہےکہ دوقعدہ اورایک سلام کےساتھ تین رکعت وتر میں دعاء قنوت کی زیادت سےنماز وتر مغرب کی مشابہ باقی نہیں رہتی ، اور شوکانی کی ذکرکردہ تطبیق اس لیے صحیح نہیں کہ آنحضرتﷺسےاورصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سےاکثر تین رکعت وترپڑھنامروی ہے، پس اس کومکروہ کہنا صحیح نہیں ۔اکثریت دلیل ہےاس کی افضلیت واولیت کی ، بیا ن جواز کےلیے کبھی کبھار کرلینا کافی ہے۔
اورمحمد بن نصر مروزی کی توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہےکہ فصل بالسلام کی وجہ سےتیسری رکعت نئی تحریمہ سےشروع ہوئی تواصل وہی رکعت وتر ہوئی اورپہلی دورکعتیں دورکعتیں اس سے الگ رہیں ، پھر تین رکعت وترنہیں ہوئی بلکہ صرف ایک رکعت ہوئی ۔اورآں حضرت ﷺ سے بقول ابن الصلاح کےوتر ایک رکعت فردثابت ہی نہیں ۔نیز بتیراء سےآپ ﷺ نےمنع فرمایا ہے،لہذا صحیح توجیہ وتطبیق وہی ہے جوہمارے علماء حنفیہ نےاختیار کی ہےامام طحاوی شرح معانی الآثار1؍185میں فرماتے ہیں :’’ كره إفراد الوتر حتى يكون معه شفع ،، انتهى اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاقول : ’’ كان الوتر سبعا اورخمسا، والثلاث بتيراء ،،روايت كرنےکےبعد لکھتے ہیں :
’’ فكرهت أن يجعل الوتر ثلاثا، لم يتقدمهن شئي حتى يكون قبلهن غيرهن ،، انتهى ،مقصود یہ ہےکہ آپ نےوترسےپہلے نفل پڑھ لینے پرابھارا ہے۔ اگریہ نفل دورکعت ہوتو مجموعہ پانچ ہوگا اوراگر چاررکعت ہوتومجموعہ سات ہوگا ۔وهكذا –
پس حدیث ابوہریرہ میں وتر سےصرف وتر اصطلاحی مراد نہیں ہےبلکہ معنی اعم مراد ہے جوصلوۃ اللیل اوروتر مصطلح دونوں کوشامل ہے۔ ابوداؤد 1؍127، اورطحاوی 1؍ 185 ’’ عن عبدالله بن قيس قال: قلت لعائشة بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر؟قالت : يوتر باربع وثلاث ، وست وثلاث ، وثمان وثلاث ، وعشروثلاث الخ،،تفصیل جامع الترمذی ’’ باب الوتر بسبع ،، 2؍ 319 ملاحظہ ہو۔
حنفیہ کےاس قول کی کہ حدیث ابوہریرہ میں تین رکعت وتر سےپہلے شفع پڑھنے کی تاکید مقصود ہے، تائید وتقویت آثار ذیل سےبھی ہوتی ہے:
(1) عن ابن عباس : الوتر سبع او خمس ولا نحب ثلاثا بترا،، وفى رواية : ’’إنى لأكره أن يكون ثلاثا بترا ، ولكن سبع أو خمس ،،(شرح معانى الآثار1/286)-
(2)’’ وعن عائشة : ’’ الوتر سبع أوخمس ، وإنى لأكره أن يكون ثلاثا بترا،،.وفى لفظ:’’أدنى الوتر خمس ،، .
یہ آثار صاف طورسے دلالت کرتےہیں کہ اس امر پرکہ حضرت عائشہ ھ، وابن عباس کےنزدیک وتر تین رکعت ہے ، لیکن صرف تین رکعت پراکتفاکرنایعنی :اس سےپہلے نفل نہ پڑھنا مکروہ ہے۔ جیسے کوئی یہ کہےکہ میں فجر کی نماز صرف دورکعت اچھا نہیں سمجھتا ہوں ۔ ظاہر ہےکہ اس کامطلب بجز اس کےاورکچھ نہیں کہ فجر کی سنت کےبغیر صرف دورکعت فرض پراکتفا کرنےکومکروہ سمجھتا ہوں ۔
ہماری اس تفصیل سےصاحب تحفۃ الاحوزی کےاس الزام واعتراض کاجواب بھی ظاہرہوگیا جوانہوں نے علامہ شوکانی نیموی مرحوم کی تردید میں بایں الفاظ ذکرکیا ہے:’’یلزم منه (اي مما ذکرہ علماء نالحنفیة من وجه الجمع بين الحديثين ) أن يكون التطوع قبل الإيثار بثلاث واجبا ووللازم باطل ،فالملزوم مثله ،، انتهى- اس اعتراض کاجواب یہ ہےکہ ہماری توجیہ کی رو سے تین رکعت وتر سےپہلے ترک تطوع مکروہ ہےحرام نہیں ہے ، جیساکہ امام طحاوی کےقول : کرہ افراد الوتر سےظاہر ہے،ہاں اہل حدیث کوچاہیے کہ ایک رکعت وتر نہ پڑھیں کیونکہ حدیث ابوہریرہ میں وتر پانچ یاسات یانویاگیارہ پڑھنے کاحکم دیا گیا ہےاورایک رکعت وتر لاشئ سمجھ کرچھوڑدی گئی ۔
مولوی .......... صاحب نےحدیث بتیرا ء کاتحقیق جواب کئی طرح دیا ہے:
(1) پہلا جواب یہ ہےکہ حدیث آخر میں بتیرا ء کی تفسیر سےمتعلق الفاظ(أن يصلى الرجل واحد يوتربها ) کا مرفوع ہونا یقینی نہیں ۔احتمال ہےکہ یہ تفسیر
کسی راوی نےکی ہواور اور راوی کافہم حجت نہیں ۔ پھر مولوی صاحب نےاپنی تائید کےلیے ’’درایہ ،، 1؍192 سے ایک عبارت نقل کی ہےلیکن حقیقت اورواقعہ یہ ہےکہ وہ عبارت مولوی صاحب کی تائید کی بجائے ان کےجواب بالا کی تغلیط وتر دیدکرتی ہےحافظ ابن حجر لکھتے ہیں :’’ وتعقب بأن فى حديث أبى سعيد نفسه ،أن يصلى الرجل واحدة يوتربها، وهذا مرفوع ، أو من تفسيرالراوى ، وهو أعلم روى ،، انتهى.
مولوي صاحب نے حافظ کےاس کلام کوسمجھا ہی نہیں ورنہ اس کواپنی تائید میں ہرگزنہ ذکرکرتے۔ مولوی صاحب نےکتب اصول حدیث میں مدرج کی بحث پڑھی ہوگی جس میں یہ مرقوم ہےکہ :’’ ويدرك ذلك (أى إلا دراج ) بوروده منفصلا فى رواية أخرى ، أوبالتنصيص على ذلك من الراوى ، أوبعض الأئمة المطلعين ، أو بإستحالة كونه صلى الله عليه وسلم قال ذلك ،، (تدريب الراوي 1/ 267 )، ’’ ولا يسوغ الحكم بالإدراج إلا إذا وجد مايدل عليه ،، الخ ( توجيه النظر ص : 172 ) اور ادراج سے متعلق حافظ کایہ کلام بھی نظر سےگزرا ہوگا ۔ ’’ إن الاصل عدم الإدراج ، حتى يثبت التفصيل فهما مضموضا إلى الحديث فهو منه ،، ( فتح البارى )
مولوی صاحب بتلائیں یہاں اس تفسیر کےمدرج ہونے پر کون سی دلیل ہے؟اورجب کوئی ادراج کی نہیں ہےتواس کےمرفوع ہونےمیں شک کرنا کیوں کردرست ہوسکتا ہے؟ اوراگر بالفرض یہ تفسیر کسی صحابی یانیچے کےکسی راوی کوہوتو پھر بھی یہ بہرحال معتبر ہوگی ۔لأن الراوى أعلم بما روى كما قال الحافظ ، ولأن تفسير راوى الحديث ، مقدم على تفسير غيره كما قال الزيلعي ، یہاں فہم راوی کی حجیت وعدم حجیبت کی بحث بےمحل ہے، راوی کےفہم کا حجت نہ ہونا اورچیز ہےاوراس کی اپنی روایت کردہ حدیث کی تفسیر وترجمانی کامقدم ومعتبر ہونا شئ دیگر ہے۔
مولوی صاحب نےحدیث بتیرا کادوسرا جواب یہ دیا ہے:’’ حضرت ابن عمر نےبتیراء کی یہ تفسیر کی ہےکہ دوسری رکعت ناقص رکوع وسجود کےساتھ ادا کی جائے ۔اس تفسیر کی بناء پرحدیث بتیراء سےایک رکعت وتر پڑھنے کی ممانعت نہیں ثابت ہوتی ،، ۔
مولوی صاحب سنئے ! اسی جواب پرحافظ نےتعقب مذکوربالا وارد کیا ہے دوبارہ پڑھیے :’’ وتعقب ، بأن فى حديث ابى سعيد نفسه ،ان يصلى الرجل ، واحدة يوتربها ، وهذا مرفوع ، أو من تفسرالراوى ، وهو أعلم بماروى ،، اورحافظ زيلعى نصب الرايه (2/120 ، 172 ) میں ابن عمر رضی اللہ عنما سےمروی تفسیر بتیراء والی حدیث کےبعد لکھتے ہیں :’’ وهذ ا إن صح عن ابن عمر ففى حديث النهى مايرده ، وتفسيره راوى الحديث مقدم على تفسيره غير ه ، بل ظاهر اللفظ انه من كلام النبى صلى الله عليه وسلم ، ، انتهى .
(3)تيسرا جواب مولوى صاحب موصوف نےیہ دیا ہےکہ حدیث بتیراء ضعیف ہےاس کی سند میں عثمان بن محمد بن ربیعہ واقع ہیں اوروہ ضعیف ہیں ۔ عبدالحق اشبیلی نے’’الاحکام ،، میں اور ابن القطان نے’’ الوهم والا يهما ،، میں لکھا ہے :’’ الغالب على حديث عثمان بن محمد الوهم ،، .
علامہ ابن الرکمانی اس کایہ جواب دیتےہیں :’’ هذا الكلام خفيف ، وقد أخرج له الحاكم فىاالمستدرك ،، (الجوهرالنقى مع السنن الكبرى 2/ 73 ) علاوه بریں یہ معلوم ہےکہ ابن القطان الفاسی متعنت ومتشد د ہیں ، ذہبی لکھتے ہیں :’’ طالعت كتابه المسمى بالوهم والإيهام ، الذى على الأحكام الكبرى لعبد الحق ، يدل على حفظه وقوة فهمه ، لكنه تعنت فى احوال رجال فما انصف ، بحيث أنه أخذ يلين هشام بن عروة ونحوه ، ، انتهى ( تذكرة الحافظ 4/1407) بہرکیف عثمان بن محمد ایسے راوی ہیں کہ ان کی روایت قابل احتجاج ولائق استناد نہ ہو۔
تنبیہات
(1) مولوی صاحب موصوف نے لکھا ہےکہ حدیث بتیراء بالاتفاق ضعیف ومرسل ہےاس پرعرض ہےکہ اس حدیث کےدوطریق ہیں :
1۔ ابن عبدالبر کا ’’ تمہید ،، میں روایت کردہ طریق ۔
2۔ محمد بن کعب قرظی کاطریق ، جس کونووی نے’’خلاصۃ ،، میں بغیر کسی مخرج کی طرف منسوب کئےہوئے ذکرکیا ہے۔
پہلا طریق مرسل نہیں ، بلکہ موصول ہےاوراس کی صرف عقیلی ، ابن القطان، عبدالحق ، حافظ ابن حجر نے تضعیف کی ہے۔ اس تضعیف کی وجہ مع جواب کےگزرچکی ہے، پس اس حدیث کوبالاتفاق ضعیف ومرسل کہنا غلط ومردود ہے
البتہ دوسرا طریق مرسل ہے اور اسی طریق کونووی ،اورعراقی نے’’ مرسل ضعیف ،،کہاہے اورابن حزم نے ’’ غیر صحیح ،،لکھا ہے۔ لیکن یہ معلوم ہےکہ حدیث مرسل جمہور اصولیین وائمہ کےنزدیک حجت ہے لاسیما إذا اعتضد بالموصول –بہرحال حدیث بتیراء کومطلقا ضعیف ، مرسل کہنا غلط اورباطل ہے۔
(2) مولوی صاحب لکھتےہیں ’’ احکام الاحکام شرع عمدۃ الاحکام ،، میں ہے:’’ذهبت الهادوية ، وبعض الحنفية إلى أنه لايجوز الإيتار بركعة ،، الخ
افسوس ہےکہ آپ ’’ احکام ،،اور اس کی تعلیق میں فرق وامتیاز نہ کرسکے ، عبارت منقولہ احکام الاحکام کی نہیں ہےبلکہ حاشیہ کی ہےجس کامنصف نہ جانے کون ہے؟ اوراس نےیہ عبارت نیل الاوطار سے 2؍ 278 سےلی ہے۔کاش آپ نے’’نیل الاوطار ،، ملاحظہ کرلیا ہوتا۔
(3)مولوی صاحب نےبذل المجہود کی عبارت ادھوری نقل کی ہے، پوری عبارت درج ذیل ہےاوراس میں آپ کی تردید بھی موجود ہے:’قال القارى:وقد ورد النهى عن البتيراء ولوكان مرسلا ، إذ المرسل حجة عندالجمهور انتهى ،قال النوو ى فى الخلاصة :’’حديث محمد بن كعب القرظى فى النهى عن البتيراء مرسل وضعيف ،، ( بذل 2/324 9 ) ۔
یہ گزرچکا ہےکہ ہمارا اعتماد وصرف اس مرسل پرنہیں ہےاگرچہ وہ عندالجمہور حجت شرعی ہے۔
(4) آپ نے ’’لسان المیزان 4؍ 152 سےابن القطان کا پورا کلام نہ جانے کیوں نقل نہیں کیا ؟ ان کا بقیہ کلام یہ ہےکہ ’’ مالم يعرف عدالتهم ، وليس دون الدراوردى (عبدالعزيز بن محمد ، شيخ عثمان بن محمد ) من يغمض عنك، قلت (قائله الحافظ ) : يريد بذلك عثمان وحده ، ولإفباقى الإسناد ثقات مع احتمال أن يخفى على ابن القطان حال بعضهم ،، انتهى.
اس حدیث کوشاذ کہنے کی کوئی وجہ نہیں اس لیے کہ لسان سےابن القطان کاادھوراکلام نقل کرنا مولوی صاحب کےلیے کچھ مفید نہیں ۔
عبیداللہ رحمانی مباکپوری
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب