السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوره ﴿ سبح اسم ربك الأعلى ﴾ کےبعد ’’ سحان ربى الاعلى ،، کہا جاتا ہے۔سورہ التین کےآخری میں ’’ بلى وأنا على ذلك من الشاهدين،، اسی طرح اورسورتوں میں بھی عام طورسے امام اورمقتدی دونوں کہتےہیں ۔ دریافت طلب امریہ ہےکہ صرف امام کوکہناچاہیے ۔یاامام ومقتدی دونوں کہہ سکتےہین افضل کیا ہے ؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی حدیث میں صراحتہ سامع کےلیے ’’ بلى وأنا على ذلك من الشاهدين ،،وغیرہ کہنے کاذکر نہیں ۔ قال شيخنا فى شرح الترمذى 4/215 فى تفسير سورة التين : ’’ والحديث يدل على أن من يقرأ هذه الآيات يستحب له أن يقول تلك الكلمات ، سواء كان فى الصلاة أو خارجا ، وأما قولها اللمقتدى خلف الإمام فلم أقف على حديث يدل عليه ،،انتهى –شافعیہ سامع کےلیے جواب دینے کومستحب کہتے ہیں خواہ وہ نماز میں ہو یانماز سےباہر كما صرح به المناوى فى ’’ التيسير شرح الجامع الصغير ،، والنووى فى ’’ شرح مسلم ،، وفى ’’كتاب الاذكار ،، آنحضرت ﷺ کےسورہ رحمٰن کی تلاوت کےوقت صحابہ نے﴿فباى آلاء ربكما تكذبان﴾(الرحمن : 13 ) کےجواب سے سکوت فرمایا توآپ نےان کی خاموشی پراعتراض کیااور جنات کےجوا ب دینے کوبطور مدح کےےذکر فرمایا ،اس واقعہ سےمعلوم ہوتا ہےکہ آپ نے جن آیتوں کوپڑھ کر جواب دیا ہے،یا پڑھنے والے کوجواب دینے کاحکم دیا ہے،ان کامعنی اورمفہوم اورمحل ہی ایسا ہےکہ جب وہ پڑھی جائیں توپڑھنے والا اورسننے والا ہرشخص ان کا مناسب جواب جواحادیث سےثابت ہودے ۔ اس استنباط کی روسےمیرے نزدیک سامع کابھی جواب دینا اچھا ہے۔ (محدث دہلی ج : 2ش : 10 صفر 1361 ھ ؍ جنوری 1947ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب