سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159)آمین بالجہر کا مسئلہ

  • 17181
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1382

سوال

(159)آمین بالجہر کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال جماعت اہل حدیث  :ایک مسجد میں اہل حدیث نماز آمین بالجہر کہہ کرادا کرتےہیں  ، لیکن حنفی صاحبان بلند آمین   سےنماز پڑھنے پرروکتے ہیں ۔ چوں کہ اہل  حدیث بلند آمین کہنے کوفعل  نبی یعنی : سنت سمجھتے ہیں اورروکنے پرآیت: ’’ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيهااسمه،، الخ  پیش کرتےہیں اورکہتےہیں کہ روکنے والے اسی آیت کےمطابق گنہگارہوں گے، اس کی محالفت  میں حنفی صاحبات ایک آیت :’’ وإما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعدالذكري مع القوم الظالمين ،، اورحديث مسلم شريف : ’’ إياكم وإياهم لايضلونكم ولا يفتنونكم ،، ادهوراٹکڑا ،  اورابن حبان کی حدیث کااتنا ٹکڑا کہ ’’لاتصلوامعھم،، اور’’ درمختار ،، جلد اول ص 489 کاحوالہ کہ ’’ويمنع منه ( اى من المسجد ) كل موذ ولوبلسانه ،، مسجد میں آنے دینے کےلیے دلیل  میں پیش کرتےہیں۔اگرچہ ان احناف کے حوالہ جات مذکورمیں کہیں بھی آمین کاذکر نہیں ہےاورغیرمکمل ٹکڑے ہیں چونکہ  مسلم شریف وغیرہ ودیگر کتب احادیث میں خود بلندآمین  کہنے کی حدیثیں بہت موجودہیں ۔ تاہم دریافت طلب یہ سوال یہ ہے : مذکورہ آیت سےکون لوگ مراد ہیں ؟

مسلم شریف کی روایت ’’لایضلونکم ،،  سےکون لوگ مراد ہیں ؟ کیوں کہ صاحب مسلم شریف خودبلند آمین کہاکرتےتھے ؟

ابن حبان  کےٹکڑے ’’لاتصلوا معھم ،، سےکیامراد ہے؟اورکیا حدیث ہے؟

درمختار  ’’ ويمنع منه اى من المسجد كل موذولوبلسانه ،، سےکون ایذاء مرادہے؟ ، کیوں کہ اس میں بلند آمین کا  قطعی ذکر نہیں ، تاہم ان مذکورہ حوالہ جات کےصحیح مطالب کیاہیں  اوربلند کہنے کی مخالفت میں یہ آسکتے ہیں یا نہیں  ؟  سائل الہی بخش از رتلام 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مفتی بریلی نےاہل حدیثوں کومسجد سےروکنے اورمنع کرنے پریہ دلیل پیش کی ہےکہ اہل  حدیث  اہل السنۃ والجماعت  نہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں  کہ : اہل السنہ کےعلاوہ جتنے فرقے ہیں سب گمراہ ہیں بددین ہیں  جن کی بددینی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔،،خلاصہ یہ ہواکہ صرف بریلوی حنفی اہل سنت والجماعت ہیں باقی تمام  مسلمان بددین وگمراہ ،بلکہ ان  کےمشہور اورچلتے ہوئے فتویٰ کےمطابق کافرہیں ۔اب عقل وانصاف،علم ودیانت کی روشنی میں غورکرنا ہےکہ اہل السنہ والجماعہ کس کوکہتےہیں اور اس کاصحیح مصداق کون ہے ؟ یعنی : اس کی صحیح تعریف کیاہےاوروہ کس پرصادق آتی ہے؟تعریف  ومصداق متعین ہوجانے کےبعد خودبخود واضح ہوجائے گاکہ بریلوی حنفیوں  پراہل سنت والجماعت کی تعریف صادق آتی ہے یانہیں ؟ اس کےمتعلق ہم اپنی  طرف سے کچھ نہیں کہنا چاہتے بلکہ حنفی مذہب کی معتبر کتاب اورحضرت پیران پیر کےقول اورپیغمبراسلام ﷺ کی حدیث صحیح  سےاس کی تعریف ومصداق واضح کریں گے۔

واضح ہوکہ اہل السنہ والجماعۃ میں تین الفاظ ہیں اہل، السنہ ، والجماعۃ ، ہل کےمعنی ہیں :والا۔ جیسے : اہل مال: مال والا ، اہل علم : علم  والا ، اہل خانہ : گھر والا ،السنہ کےمعنی ہیں: طریقہ کے۔ اس سےمراد طریقہ رسول ہے،یہ ایک مشہور اورکھلی ہوئی بات ہے۔الجماعۃ کےمعنی ہیں : گروہ کے۔

اب رہی یہ بات کہ اس جماعت سےکون سی جماعت مراد ہے ؟ پس معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے وہی جماعت مراد ہےجوسنت (طریقہ رسول )  کےقائم ہونے کےساتھ قائم ہوئی ہو ،یعنی جب سے سنت قائم ہواس وقت سےیہ جماعت بھی قائم ہوئی اوریہ ایک کھلی  ہوئی حقیقت ہےکہ اس وقت اسلام میں جماعت صحابہ کےسوا دوسری جماعت قائم نہیں ہوئی تھی ۔ لہذا جماعت سےمراد صحابہ رسول کےسوا دوسری جماعت مراد ہی  نہیں ہوسکتی ۔پس خود اہل سنت والجماعت  کےالفاظ نےاپنی تعریف اوراپنا سچا مصداق بتادیاکہ اہل سنت والجماعت وہ ہےجوسنت (طریقہ رسول )کاپابند ہواور جماعت صحابہ کاپیروہو ۔اب غور سےسنناچاہیے کہ حنفی مذہب کی معتبر اورچوٹی کی کتاب  ’’ توضیح  تلویح ،، میں لکھا ہےکہ : أهل السنة والجماعة ، وهم الذين طريقتهم طريقة الرسول عليه السلام وأصحابه ،،  یعنی : اہل سنت والجماعت وہی  ہیں  جن کاطریقہ وہی ہے۔جوطریقہ  کہ رسول ﷺ  اوران کےاصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین کاتھا،،۔

حضرت  شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی کتاب ’’ عنیۃ الطالبین ،، میں فرماتےہیں کہ :’’  السنة ، ماسنه رسول الله صلى الله عليه وسلم  والجماعة : مااتفق  عليه اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ،، یعنی :سنت سےمراد آں حضور  ﷺ کامقرر کردہ فعل وحکم  ہےاورجماعت سےمراد  وہ امر ہےجس پرصحابہ  کی جماعت نےاتفاق کیاہو ۔

اب اس  کوثبوت صحیح حدیث سنئے۔ جب آں حضرت ﷺ نےفرمایا کہ : بہتر فرقےجہنم میں جائیں گے اورایک فرقہ جنت میں ، توصحابہ کرام نےعرض کیا:وہ ایک جنتی فرقہ کون ہے ؟ آپ نےارشاد فرمایا :’’ ماأنا عليه وصحابى  (الترمذى كتا ب الأيمان باب ماجاء فى افتراق هذه الأمة (2641)5/26 ) .  ،، یعنی : اس طریقہ والے جس پرمیں ہوں اورمیرے اصحاب ۔غور کیجئے حدیث شریف کےاس جملہ سےبھی یہی تعریف نکلتی ہےجسے حضرت پیران پیر  شیخ عبدالقادر  جیلانی ﷫ نےبتایا  تھا۔ ’’ ما انا علیہ ،، سےاہل السنہ کےمعنی ادا ہوتے ہیں یعنی :وہ طریقہ  جس پرمیں ہوں ۔ اور’’ اصحابی ،، سےجماعت کےمعنی ادا ہوتےہیں ۔یعنی : وہ طریقہ جس پرمیرے صحابہ کی جماعت  متفق ہو۔ خلاصہ یہ کہ ’’اہل السنہ والجماعت ،،  وہ ہیں  جومیرے طریقہ اورمیرے صحابہ کےطریقہ پرہوں ۔

یعنی : اہل سنت والجماعت  کاصرف  ایک ہی نام ہےاورکوئی نام نہیں ،وہ نام اہل حدیث ہے۔ بدعتی  انہیں کچھ بھی کہیں ، اس سےان کاکچھ نہیں بگڑتا پھر بڑے پیرصاحب نےاسی فرقہ ’’ اہل سنت والجماعت ،،(اہل حدیث ) کوناجی بتلایا ہےفرماتےہیں :’’ وأما الفرقة الناجية فهى أهل السنة والجماعة ،، یعنی :  نجات پانے والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہےکہ فرقہ ناجیہ ’’اہل سنت والجماعت ،، کامصداق  صرف اہل حدیث ہے۔ اوربریلوی حنفی توآں حضرت ﷺ اورآپ کےصحابہ کےطریقہ کےخلاف ،  بدعات ورسوم شرکیہ ، عقائد کفریہ اعمال کےارتکاب کی وجہ سے اس لقب کےمصداق ہرگز نہیں ہوسکتے، اس لیے وہ بےدین وگمراہ ہیں ۔ پس مفتی بریلی نےاہل حدیثوں کومسجد سےروکنے پرجودلیل پیش کی ہے اس کی رو سے  وہ خود اس لائق ہیں کہ ان کومسجد سےروک دیا جائے ۔

اورمسجد سےاہل حدیثوں کوکیوں کرروکا جاسکتاہے جب کہ مسجد میں ذکرالہی سےمنع کرنے والوں کواس آیت کےاندر ظالم قراردیا گیا ہے۔ارشاد ہے:’’ ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه ،،  اورجبکہ   قرآن کریم نےمسجد پرکسی کی ملکیت  نہیں رکھی نہ متولی کی ، نہ بانی  کی ، نہ اہل محلّہ  کی بلکہ فرماتا ہے :’’  وان المساجد للہ ،، (الجن :18)یعنی: مسجدیں  صرف اللہ کی ملکیت ہیں اورجبکہ مسجد میں ذکرالہی ، نماز ، روزہ  وغیرہ عبادات سےروکنا ابتداء اسلام میں کفار مکہ کافعل تھا،  چنانچہ ارشاد ہے: ’’هم الذين  كفروا وصدوكم عن المسجد الحرام والهدى معكوفا أن يبلغ محله ،، (الفتح :24 ) اور ارشاد ہے: ’’ولايجرمنكم شنان قوم ان صدوكم عن المسجد الحرام أن تعتدوا ،، (سوره مائده : 6 )  یعنی : افسوص  ہےابتداء اسلام میں مسجد سےروکنا کافروں کاشیوہ تھا ۔ اورآج ان کافروں کی نیابت اس بارے میں وہ جماعت کررہی ہے، جوبزعم باطل اپنے کومسلمان ہی نہیں بلکہ بقول کی برعکس  نہند نام زندگی کافورا اپنے تیئں ’’ اہل السنہ والجماعت ،، کہلاتی ہے۔ اورجب کہ آں حضرت ﷺ نےنجران کےعیسائی وفد کوباوجود صحابہ کےعرض معروض کرنےکےمسجد نبوی میں ان کےاپنے مذہب کےمطابق  نماز پڑھنے کی اجازت دی اورانہوں نےآپ ﷺ کےسامنے آپ کی موجودگی میں مسجد نبوی میں نماز پڑھی ۔ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ابن جریر ،تفسیرمظہری ، تفسیر خازن وغیرہ ۔

افسوس جس پیغمبر کےیہ اخلاق ہوں جس کی یہ رواداری ہو، آج اس کی امت کی یہ حالت ہے۔ کہ فروعی اور وہ بھی  صرف خیالی اختلاف کی بنا پر کلمہ گو، موحد ، متبع سنت جماعت کوخدا کےگھروں میں خدا کاذکر کرنےسے ،قبلہ کی منہ کرکے نمازپڑھنے سےروکے۔ اورجبکہ حنفی مذہب کی معبر کتاب ہدایہ مطبوعہ مجتبائی جلد 2 کتاب الوقف ص :625 میں ہے : ’’ لان السمجد مالا يكون لأحد  فيه حق المنع،، یعنی : مسجد وہی ہےجس میں عبادت کرنے سےکسی کوروکنے کاحق نہ ہو،، ۔ اورفتاویٰ خانیہ برحاشیہ عالمگیری مطبوعہ میمنیہ  مصر جلد ثالث کتاب الوقف ص 321 کی آخر سطر میں ہے : ’’ لأن السمجد حق الله تعالى وحق عامة المسلمين ،،یعنی : مسجد اللہ تعالی کاحق ہے۔اورعام مسلمانوں کا،،۔

کتب تاریح میں ہےکہ حضرت علی ﷜ نے خارجیوں سےکہا کہ : ’’  لانمنعكم مساجد الله أن  تذكروا فيها اسم الله ، ، يعنى: ’’ ہم تم کو مسجدوں سےنہیں روکتے کہ تم اس میں اللہ کا ذکر کرو،، ۔بجز الرائق مصری 2؍ 36 میں ہے : ’’ لايجوز لأحدأن يمنع مؤمنا من عبادة يأتى بها فى ا لمسجد،، یعنی : ہرگز ہرگز  کسی شخص کوکسی وقت جائز نہیں کہ کسی مسلمان کوکسی قسم کی عبادت سےمسجد میں روکے ،،۔ پھرمفتی بریلوی  نےلکھاہے :’’ ان بددینوں  کی نسبت اللہ تعالیٰ نےقرآن شریف میں فرمایا ہے: ’’ وإما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعدالزكرى مع القوم الظالمين ،، پھر تفسیرات احمدیہ سےیہ عبارت نقل کی ہے :’’وان القوم الظالمين يعم المبتدع والفاسق والكافر، والقعود مع كلهم ممتنع ،، تمام مفسرين  متفق  ہیں کہ اس امر پرکہ یہ آیت  مشرکین کےبارےمیں نازل ہوئی ہے،اورآیت کےسیاق وسباق سےبھی یہی ظاہرہوتاہے۔چنانچہ ارشاد ہوتاہے:’’ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ، وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (69) وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ،، الآية (الانعام : 68/69/ 70 )  .

علامہ خازن اپنی تفسیر میں لکھتےہیں :’’ الخطاب (وإذا رأيت للنبي صلى الله عليه وسلم والمعنى وإذا رأيت يا محمد هؤلاء المشركين الذين يخوضون في آياتنا يعني القرآن الذي أنزلناه إليك والخوض في اللغة هو الشروع في الماء والعبور فيه، ويستعار للأخذ في الحديث والشروع فيه. يقال: تخاوضوا في الحديث وتفاوضوا فيه، لكن أكثر ما يستعمل الخوض في الحديث على وجه اللعب والعبث وما يذم عليه ومنه قوله وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخائِضِينَ وقيل: الخطاب في وإذا رأيت لكل فرد من الناس. والمعنى: وإذا رأيت أيها الإنسان الذين يخوضون في آياتنا وذلك أن المشركين كانوا إذا جالسوا المؤمنين وقعوا في الاستهزاء بالقرآن وبمن أنزله وبمن أنزل عليه، فنهاهم الله أن يقعدوا معهم في وقت الاستهزاء بقوله فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ يعني فاتركهم ولا تجالسهم حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ يعني حتى يكون خوضهم في غير القرآن والاستهزاء به وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطانُ يعني فقعدت معهم فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرى يعني إذا ذكرت فقم عنهم ولا تقعد مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ يعني المشركين قوله تعالى: وَما عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ قال ابن عباس: لما نزلت هذه الآية وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ قال المسلمون: كيف نقعد في المسجد الحرام ونطوفبالبيت وهم يخوضون أبدا؟ وفي رواية، قال المسلمون: إنا نخاف الإثم حين نتركهم ولا ننهاهم فأنزل الله هذه الآية وَما عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ يعني يتقون الشرك والاستهزاء من حسابهم من حساب المشركين من شيء يعني ليس عليهم شيء من حسابهم ولا آثامهم ،، الخ (تفسير خازن ) .

اور علامہ ابوالبرکات احمد بن محمود النسفی اپنی تفسیر  کے2؍ 28 میں لکھتےہیں :’’   وإذا رأيت  الذين يخوضون فى آياتنا ) اى القرآن يعنى : يخوضون فى الإستهزاء بها والطعن فيها، وكانت قريش فى اذيتهم يفعلون ذلك ، قال وروى أن المسلمين قالوا: لئن كنا نقوم كلما استهزاء وابالقرآن ، لم نستطع أن نجلس فى المسجد الحرام وأن نطوف فرخص لهم ،،(تفسير) . 

اس مضمون کی دوسری آیت بھی اس بات پردلالت کرتی ہےکہ یہ آیت قریش ومشرکین کےبارےمیں نازل ہوئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہے:’’  وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ،،(سورة النساء : 140)علامہ زمخشری حنفی لکھتےہیں :’’ والمنزل عليهم في الكتاب: هو ما نزل عليهم بمكة من قوله: (وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ) وذلك أن المشركين كانوا يخوضون في ذكر القرآن في مجالسهم فيستهزءون به، فنهى المسلمون عن القعود معهم ما داموا خائضين فيه. وكان أحبار اليهود بالمدينة يفعلون نحو فعل المشركين، فنهوا أن يقعدوا معهم كما نهوا عن مجالسة المشركين بمكة. وكان الذين يقاعدون الخائضين في القرآن من الأحبار هم المنافقون، ، (كشاف 1/232 ) .

پس ایسی حالت میں جبکہ تمام مفسرین کےاقوال اورآیت کاسیاق وسباق ،اوراس مضمون کی دوسری آیت اس بات پرمتفق ہوں کہ آیت مبحوثہ  عنہا کہ مصداق وہ مشرکین مکہ اورعلماء یہود ہیں جوقرآن کی تکذیب اوراس کےساتھ استہزاء کرتےتھے ،تواس کواہل حدیثوں  کومسجدوں سےروکنے کےدلیل میں پیش کرنا، عقل وخرد کےکھودینے کی بین دلیل ہے،ایسے ہی لوگوں کےبارےمیں میں حضرت عبداللہ بن عمر نےفرمایا ہے:’’انهم انطلقوا لى آيات أنزلت فى الكفار ، فجعلوها على المومنين ،، (بخارى شريف:كتاب استتابة المرتدين باب قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحد عليهم 8/51)- اوراگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ یہ آیت فاسق ومبتدع کوبھی شامل ہے،تب بھی اہل حدیث اس کامصداق  نہیں بن سکتے۔اوپرثابت کیا جاچکا ہےکہ طریقہ رسولﷺ اورطریقہ صحابہ ﷢  پرچلنے والے صرف اہل حدیث ہیں ۔جن کےایک ہاتھ میں قرآن ہےاوردوسرے ہاتھ  میں حدیث  رسول اورپس، اور یہ بھی لکھا جاچکاہے کہ دنیا  کی تمام بدعتوں اورشرکیہ رسموں میں مبتلا بریلوی حنفی ہیں۔پس ملاجیون مرحوم کی عبارت میں مبتدع اورفاسق سےمراد یہی بریلوی حنفی ہیں،جنہوں نےدین میں ہزارہا بدعتیں  نکال رکھیں ہیں ۔ بنابرین  آیت کامطلب یہ ہواکہ ان مبتدعین  (بریلوی جنفیوں  ودیگر اہل بدع ) کےساتھ مجالست نہ کرو ،چنانچہ  تفسیر فتح البیان ن میں (3؍176 ) پر مذکورہے ’’  وفى هذه الآية موعظة ، لمن يستمع بمجالسة المبتدعة ، الذين يحرفون  كلام الله ، ويتلاعبون  بكتبه وسنة رسوله ،  ويردون ذلك إلى اهوائهم المضلة، وتقليداتهم الفاسدة وبدعتهم الكاسدة ، ، الخ.

ونیز کسی بریلوی نےاہل حدیث کومبتدع اس وجہ سے لکھاہےکہ وہ آمین ،رفع یدین وغیرہ  کرتےہیں ، اور یہی اصل وجہ ہے ان  کومسجد سےروکنےکی ۔آمین زورسےکہنا احادیث صحیحہ سےثابت ہے،اجماع صحابہ سےثابت ہےامام شافعی اورامام احمداس کےقائل ہیں ، حضرت پیران اس کوسنت بتاتے ہیں : ’’  والجهر بالقراة وآمين ،،  (غنية الطالبين ص: 10 ) اورعلامہ ابن الہمام حنفی لکھتےہیں:’’ وَلَوْ كَانَ إلَيَّ فِي هَذَا شَيْءٌ لَوَفَّقْت بِأَنَّ رِوَايَةَ الْخَفْضِ يُرَادُ بِهَا عَدَمُ الْقَرْعِ الْعَنِيفِ، وَرِوَايَةَ الْجَهْرِ بِمَعْنَى قَوْلِهَا فِي زِبْرِ الصَّوْتِ وَذَيْلِهِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا مَا فِي ابْنِ مَاجَهْ «كَانَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] قَالَ آمِينَ حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ،، (فتح القدير : 1/ 207) اس بارےمیں اگرمجھ سےپوچھاجائے  تومیں  دونوں  روایتوں میں تطبیق دےسکتا ہوں کہ آہستہ سےآمین کہنے والی روایت سےیہ مرادہےکہ  بہت  زور کی آواز نہ ہو ،اور جہرکی  روایت سےیہ مراد ہےکہ گونجی ہوئی   آواز ہو،، بہرصورت آواز ہی سے کہناثابت ہوا ۔ اور مولانا عبدالحق  محدث دہلوی لکھتے ہیں : ’’  والظاهرالحمل على العملين ،،’’جہروسردونوں جائز ہیں،، ۔معلوم ہواحنفی مذہب میں بھی بلندآواز سےآمین کہنا جائز ہے۔اورمولوی عبدالحئی حنفی فرنگی محلی لکھتے ہیں :’’ والإنصاف  أن الجهر قوى من حيث الدليل ،،(التعليق  الممجد ص : 82 ) یعنی : ’’ انصاف یہ ہےکہ اونچی آواز سےآمین کاثبوت پختہ ہے،، ۔ اسی طرح سےرفع الیدین متواتراحادیث سےثابت ہے، صحابہ برابراس  پر عمل کرتےرہے ۔ چاروں اماموں سےتین امام شافعی، احمد، مالک اس کےقائل ہیں۔خود پیران پیر ﷫ اس کوسنت بتاتےہیں : ’’ رفع اليدين عندالإ فتتاح فى الركوع والرفع منه ،، (عنية الطالبين ص : 10 ) یعنی :’’ نماز میں پہلی تکبیر کےوقت اوررکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھنےکےوقت رفع الیدین کرناچائیے ‘‘،  اسی ﷾طر ح بہت سےحنفی علماء اس کوجائز کہتےہیں ، پس ایسے فعل کوجوسنت ہو اورجس کےچاروں اماموں سے اکثر قائل وفاعل  ہوں بلکہ خود علماء حنفیہ بھی اس کوجائز سمجھتے ہوں ، اور سنت مانتے   ہوں ، بدعت کہنا اوراس کےکرنے والے کوبدعتی کہنا سخت گناہ ہے،کیونکہ سنت کوبدعت کہنےاورصحابہ  اورائمہ دین کو بلکہ اپنے علماء حنفیہ  کوبھی بدعتی بنانے کےبعد کون ہے جوغیر مبتدع رہ جائے گاپس ایسا کہنے والا شخص شرعا سخت مجرم بلکہ  فاسق  ، گمراہ  وبددین ہے۔

خلاصہ یہ ہےکہ اس آیت میں اگر مبتدع شامل ہیں تومبتدع سےمراد وہ لوگ ہیں ،جودین اسلام میں ایسی باتیں نکالتے ہیں جوقرآن وحدیث وصحابہ کےطریقہ کےخلاف ہیں ، اورجن کاوجود خیرالقرون میں نہ تھا ، جن کوہم شروع جواب میں مختصراًگناہ چکےہیں ۔ بنابریں ملاجیون کی عبارت کےمصداق  یہی بریلوی حنفی ہیں ۔نہ کہ اہل حدیث  جوکہ طریقہ رسول  واصحاب رسول پرگامزن ہیں ۔آخر میں اتنا اورعرض ہےکہ اس آیت میں مسجد سےروکنے کاحکم قطعاً موجود نہیں نہ صراحۃً نہ اشارۃ ً ۔

مفتی بریلوی نےاہل حدیثوں کومسجد سےروکنے کی دوسری دلیل پیش کی ہے’’اسی طرح اس کی  نسبت حدیث میں آیا ہے ’’إياكم و إياهم  لايضلونكم ولا يفتنوكم ،،یعنی :’’ اپنے کوان سے دور رکھو اور ان کواپنے سے دوررکھوکہیں ایسا نہ ہووہ تمہیں گمراہ کردیں اورفتنہ میں ڈال دیں ۔ ،،  یہ حدیث مسلم شریف ( باب النهى  عن الرواية عن الضعفاء والاحتياط فى تحملها 1/12 ) میں مطولا مروی ہےجس کومفتی بریلی نےاپنے مطلب کےلیے ادھوری نقل کی ہے۔ ہم پوری حدیث لکھ  کرمختصراً بحث کریں گےتاکہ اس کےاستدلال کی حقیقت واضح ہوجائے ’’ عن ابى  هُرَيْرَةَ، قالُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ» (مسلم شریف) ملاعلی قاری حنقی شرح مشکوۃ میں 1؍190 میں اس حدیث کی شرح میں لکھتےہیں :’’ (يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ) ، أَيْ: آخِرِ زَمَانِ هَذِهِ الْأُمَّةِ (دَجَّالُونَ) : أَيِ: الْخَدَّاعُونَ. يَعْنِي: سَيَكُونُ جَمَاعَةٌ يَقُولُونَ لِلنَّاسِ: نَحْنُ عُلَمَاءُ وَمَشَايِخٌ نَدْعُوكُمْ إِلَى الدِّينِ وَهُمْ (كَذَّابُونَ) : فِي ذَلِكَ (يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ) ، أَيْ: يَتَحَدَّثُونَ بِالْأَحَادِيثِ الْكَاذِبَةِ وَيَبْتَدِعُونَ أَحْكَامًا بَاطِلَةً وَاعْتِقَادَاتٍ فَاسِدَةً اهـ. كَلَامُ الْمُظْهِرِ. وَيَجُوزُ أَنْ تُحْمَلَ الْأَحَادِيثُ عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ الْمُحَدِّثِينَ، فَيَكُونَ الْمُرَادُ بِهَا الْمَوْضُوعَاتِ، وَأَنْ يُرَادَ مَا بَيْنَ النَّاسِ أَيْ يُحَدِّثُونَكُمْ بِالَّذِي مَا سَمِعْتُمْ عَنِ السَّلَفِ مِنْ عِلْمِ الْكَلَامِ. (فَإِيَّاكُمْ) ، أَيْ: أَبْعِدُوا أَنْفُسَكُمْ عَنْهُمْ (وَإِيَّاهُمْ) ، أَيْ: بَعِّدُوهُمْ عَنْكُمْ (لَا يُضِلُّونَكُمْ ولا يفتنونكم ) أى لايوقعونكم فى الفتنة ، وهى الشرك، قال الله تعالى : والفتنة أشد من القتل ،، أو يراد بها عذاب الآخرة ، قال تعالى : ’’ ذوقوا فتنتكم ،، انتهى مختصراً ۔

اورمولوی عبدالحق محدث دہلوی اس حدیث کےترجمہ میں لکھتے ہیں ( يكون فى آخرهذاالزمان دجالون كذابون ) ’’ می باشنددرآخرالزمان تلبیس کنندگان درویج دہندومردم رابمذاہب باطلہ وآرائے فاسدہ بخوانند( يأتونكم من الأحاديث بمالم تسمعوأنتم والاآباءكم ) می آرندشماراازاحادیث آنچہ نشنیدہ ایدشمانہ پدران شمایعنی بہ بہتانوافتراء مرادحادیث یااحادیث پیغمبراست ﷺ یاعام ازان شامل اخبارمردم۔(فإياكم وإياهم لا يضلونكم ولايفتنونكم ) گمراہ مگردانندایشاں شماراودرفتنہ بلانیندازند شمارا مقصودتحفظ واحتیاط است درگرفتن دین واحتراز وپرہیزازصحبت ارباب بدعت ومخالطت ایشاں خصوصا آنہاکہ دعوت کنندوتلبیس نمایند(اشعہ اللمعات 1؍140 ) یہ پوری فارسی عبارت تقریبا ترجمہ ہےملاعلی قاری کی شرح کا،جس کاخلاصہ یہ ہےکہ آخرزمانہ میں میری امت میں ایسی مکار اورعیار جماعت پیدا ہوگی جواپنے کوعلماء ،مشائخ ، پیروں ، زاہدوں ، عابدوں ، درویشوں ، خدارسیدہ لوگوں کی صورت میں ظاہرکرےگی اپنے کومسلمان کاخیرخواہ بتائےگی ، تاکہ اپنی غلط وباطل باتیں  اورفاسد عقیدے پھیلائے اوررائج کرسکے ۔ یہ لوگ تم سےآں حضرتﷺ پرافتراوبہتان کرکے جھوٹی گھڑی ہوئی حدیثیں بیان کریں گےیا ایسی باتیں بیان کریں گےجن کانہ سرہوگا نہ پیر ، یعنی : بےاصل یانئے نئے مسئلے اورنئے عقیدے ایجاد کریں گے۔پس تم ان ارباب بدعت کی مخالفت ومجالست سےپرہیزکرنا ، ایسا نہ ہووہ تم کو کواپنے شرکیہ عقائد میں مبتلا کردیں یا اپنی گمراہیوں میں پھنسا کرتم کوعذاب آخرت کامستحق بنادیں۔اب آپ اپنے دل میں خدا کاخوف رکھ کرغورکیجیے  کہ اس حدیث کامصداق وہ اہل حدیث ہیں جولوگوں کوقرآن وحدیث یعنی : نتھری ہوئی توحید اوراتباع سنت کی دعوت دیتےہیں یاوہ خانقا ہی عیار مشائخ وپیروصوفیہ ہیں جو یاوجود جاہل ہونےکےاپنے کوعالم ظاہرکرتےہیں اورسال میں اٹھ کر مریدوں میں گشت کرتےہیں ، گلےمیں بڑے بڑے دانوں کاگٹرمالا، اورگیروکی کفنی سرپررنگارنگ عمامہ ، جوگیوں کی سی لٹ بڑھا کر مثنوی ، ٹھمری ،دوہے۔اپنے پیروں کی جھوٹی کرامات بیان کرتےہیں ۔مریدوں کوشفاعت کی امید دلاکراپنی پیریت وبیعت ونجات کامدار بتاکر جنت وجہنم کاٹھیکہ لےلیتےہیں ، اور تمام بدعتوں کی جن کا اوپر ذکر ہواترغیب دلاتے ہیں ۔ان کےثبوت میں جھوٹی گھڑی ہوئی حدیثیں پیش کرتےہیں ۔آں حضرت ﷺکےفضائل میں قرآن وحدیث  بیان کرنے کی بحائے جھوٹے قصے باطل روایات سناتےہیں ۔اور اگرکسی عاشق  توحید وسنت نےٹوک دیا توجھٹ وہابی کہہ کر مریدوں سےاس کو پٹواتےہیں ۔جو شخص بھی ان خانقا ہی پیروں کےحالات اوروعظ کی مجلسوں سےواقف ہوگا ، وہ یقیناً اس حدیث کامصداق انہیں بریلوی عقیدہ رکھنے والے مکار مشائخ اورپیروں کویقین کرےگا ۔اسی لیے علامہ سنوسی فرماتےہیں : ’’  علماء السوء والرهبان ، غيرأهل السنة كلهم داخلون فى هذا لمعنى ، وما أكثرهم فى زماننا ، نسأل الله سبحانه تعالى السلامة من شرهذا الزمان ، شرأهله ،، ( فتح الملهم 1/127 ) ۔

مفتی بریلوی نےاہل حدیثوں کومسجد سےروکنے کی تیسری دلیل اس طرح لکھی ہےاور این حبان کی حدیث میں آیاہےکہ حضور اقدس ﷺ  فرماتےہیں :’’ لاتضلوا معهم ،،مفتی نےپوری حدیث نقل نہیں کی تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس جملہ کاسیاق وسباق کیا ہے ؟ اوریہ ارشاد کس کےبارےمیں ہے؟ کتاب وصفحہ کاحوالہ بھی نہ دیل !!، اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آں حضرت ﷺ کی حدیث بھی ہےیانہیں ۔پس جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ فلاں معتبر کتاب میں یہ روایت موجود ہے اورجب تک سا کےتمام الفاظ سامنے نہ آجائیں ، اس ادھورے جملہ سےمخالف کےسامنے مسئلہ شرعیہ پراستدلال کرناجہل ہے۔ تعجب ہے ان بریلوی حنفیوں پر!!؟۔    (مصباح بستی جون 1945 ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 246

محدث فتویٰ

تبصرے