بعض لوگ۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں ہدایت عطا فرمائے۔۔۔کسی شرعی عذر کے بغیر نماز باجماعت ادا نہیں کرتے کچھ لوگ اس سلسہ میں دنیوی کاموں کے عذر پیش کرتے ہیں۔اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ نماز اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ کسی کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
مسلمانوں کی ہمدردی وخیر خواہی اور منکر کا انکار کرنا تو اہم واجبات میں سے ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:
''اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست( مددگار ومعاون) ہیں نیکی اور بھلائی کے کام کرنے کا حکم دیتے ہیں۔اور بُری باتوں سے منع کرتے ہیں۔''
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد گرامی ہے:
''تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹادے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھائے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔''
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''دین ہمدردی اور خیر خواہی کا نام ہے''عرض کیا گیا ''یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لئے ہمدردی وخیر خواہی؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے مسلمان حکمرانوں کےلئے اور عام مسلمانوں کے لئے''
ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ''صحیح'' میں بیان فرمایا ہے:
بلاشک وشبہ بغیر کسی عذر کے نماز باجماعت ترک کرنا ان منکرات میں سے ہے۔جن سے منع کرنا ضروری ہے کیونکہ مردوں کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں اور یہ بہت سے دلائل سے ثابت ہے مثلا ً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
''جو شخص آذان سنے اور پھر نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔''
امام حاكم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔اور اس کی سند جید ہے اس طرح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک نابینا آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ''یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جائے تو کیا میرے لئے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟''تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا تم نماز کےلئے اذان سنتے ہو؟'' تو اس نے کہا ''جی ہاں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' پھر اذان کی آواز پر لبیک کہو۔''
(اس مفہوم کی اور بہت سی احادیث ہیں)
مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کاکوئی دوسرا مسلمان بھائی جب کسی بُرائی سے روکے تو ناراض نہ ہو۔بلکہ اچھے طریقے سے جواب دے۔بلکہ اس کا شکریہ اد اکرے۔اسے دعاء دے۔ کیونکہ اس نے اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی دعوت دی اور اس کا حق اسے یاد دلایا ہے۔ اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ داعی حق کے جواب میں تکبر کا اظہار کرے کیونکہ ایسا کرنے والے کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی اور اسے جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو غرور اس کو گناہوں میں پھنسا دیتا ہے۔سوایسے شخص کو جہنم کی سزا وار ہے۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''
ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب