السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احادیث کی روشنی میں رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت وہیت ۔ نیز مسند امام احمدؒ ج۴ میں حضرۃ وائل بن حجر کی روایت کی سند کی وضاحت فرمائیں ؟حدیث :
«حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ الْوَلِيْدِ حَدَّثَنِیْ سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ اَبِيْهِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِیَّ ﷺ حيْنَ کَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِذَآئَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ حِيْنَ رَکَعَ ثُمَّ حِيْنَ قَالَ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَه رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَأَيْتُهُ مُمْسِکًا يَمِيْنَهُ عَلٰی شِمَالِه فِی الصَّلٰوةِ فَلَمَّا جَلَسَ … إلٰی آخر الحديث» مسنداحمد؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جس حدیث کی سند کے متعلق دریافت فرمایا ہے اس کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں جن کے بعض شاگرد مثلاً عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ تو جملہ ’’ وَرَأَيْتُهُ مُمْسِکًا يَمِيْنَه عَلَی شِمَالِه فِی الصَّلٰوةِ‘‘ذکر نہیں کرتے (مسند احمد317/4، مصنف عبدالرزاق68/2۔2522/69)اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے (کیونکہ سفیان ثوری کے شاگرد عبداللہ بن ولید ثقہ ہیں اور وہ یہ جملہ بیان کرتے ہیں اور قاعدہ ہے ۔ ’’زِيَادَةُ الثِّقَةِ مَقْبُوْلَةٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِيَةٌ لِمَا هُوَ اَوْثَقُ‘‘ دیکھیں سفیان ثوری کے ساتھی اورعاصم بن کلیب کے دوسرے شاگرد اس جملہ کو اس محل پر ذکر نہیں کرتے جس محل پر سفیان ثوری ذکر کرتے ہیں چنانچہ
(۱) زائدہ کا بیان ہے :
’’ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَيْبٍ أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِیَّ أَخْبَرَهُ قَالَ: قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلٰی رَسُوْل اﷲِﷺکَيْفَ يُصَلِّیْ ؟ قَالَ : فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ قَامَ فَکَبَّرَ ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَيْهِ ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلٰی ظَهْرِ کَفِّهِ الْيُسْرٰی وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ‘‘۔ الحديث(مسند احمد318/4)
(۲) اور زہیر بن معاویہ کے لفظ ہیں:
’’عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ قَالَ : قُلْتُ : لَأَنْظُرَنَّ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِﷺکَيْفَ يُصَلِّیْ ؟ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَيْهِ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِيْنِهِ‘‘۔ الحديث (مسنداحمد4/318)
(۳) اور عبدالواحد کا سیاق ہے :
’’حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِیِّ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِیَّ ﷺ ، فَقُلْتُ : لَأَنْظُرَنَّ کَيْفَ يُصَلِّیْ ؟ قَالَ : فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتّٰی کَانَتَا حَذْ وَمَنْکبيْهِ قَالَ : ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِيْنِهِ‘‘۔ الحديث(مسند احمد4/316)
(۴) اور عبداللہ بن ادریس کی روایت ہے:
’’عن عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر قال: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِﷺ حِيْنَ کَبَّرَ أَخَذَ شِمَالَه بِيَمِيْنِه ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبه)
تو عاصم بن کلیب کے ان مذکور بالا چار شاگردوں اور دوسرے کئی شاگردوں کے الفاظ وسیاق سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہﷺ کو نماز میں ہاتھ باندھے دیکھا تو یہ انہوں نے آپ کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے ہاتھ باندھے دیکھا ۔
رہا سفیان ثوری کا سیاق تو اس میں ’’ وَرَأيْتُهُ مُمْسِکًا يَمِيْنَه إِلٰی شِمَالِهِ فِی الصَّلاَةِ‘‘ کا عطف ’’رَأَيْتُ النَّبِیَّﷺحِيْنَ کَبَّرَ‘‘ الخ پر ہے اور عطف بحر ف واو ہے اور معلوم ہے کہ واو ترتیب پر دلالت نہیں کرتی دیکھئے قرآن مجید میں ذبح بقرہ والا واقعہ پہلے بیان ہوا بعد میں ہے ﴿ وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا﴾ الآیۃ حالانکہ قتل نفس پہلے ہے ذبح بقرہ سے واقعے میں تو بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ واقعہ میں ایک چیز پہلے ہے مگر بیان میں آپ اسے بعد میں ذکر کرتے ہیں تو ترتیب بیان اور ترتیب واقع میں موافقت کوئی ضروری نہیں۔ اگر کہا جائے کہ واقعاتی ترتیب سفیان کے سیاق میں ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ اس سیاق میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو ہاتھ باندھنے کے بعد از رکوع ہونے پر دلالت کرتا ہو اور نہ ہی یہ چیز مفہوم سیاق سے نکلتی ہے۔
ہاں ان کے سیاق میں فی الصلاۃ کا لفظ عام ہے قبل الرکوع اور بعد الرکوع دونوں کو شامل ہے مگر عاصم بن کلیب کے دوسرے شاگردوں کے سیاق بتا رہے ہیں یہ عموم مراد نہیں ہے بلکہ اس سے خصوص تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے ہاتھ باندھنا مراد ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب