السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کی نماز اور مرد کی نماز میں فرق کیوں ہے
حوالہ نمبر ۱ : آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اے ابن حجر جب تم نماز پڑھو تو کانوں کے برابر ہاتھ اٹھائو اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے ۔ (کنز العمال ص ۳۰۷ ج۷)
حوالہ نمبر ۲ : آنحضرت ﷺ نے فرمایا : کہ عورت جب نماز میں بیٹھے تو دایاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپناپیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے فرشتو ! گواہ ہو جائو میں نے اس عورت کو بخش دیا ہے۔(بیہقی ص ۲۲۳ ج۲)
حوالہ نمبر۳ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مردوں کو حکم دیا کرتے تھے خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب سمٹ کر سجدہ کریں ۔(بیہقی ص ۲۲۳ ج۲)
حوالہ نمبر ۴ : امام داود مراسیل میں روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہیں تھیں تو فرمایا جب تم دونوں سجدہ کرو تو اپنے جسم کو زمین کے ساتھ ملا دو بے شک عورت اس بارہ میں مرد کی طرح نہیں ہے۔(مراسیل ص ۵)
حوالہ نمبر ۵ : آخری خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو ملا لے ۔(ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱)
حوالہ نمبر۶ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا یعنی خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نماز پڑھیں۔(ابن ابی شیبہ ص ۷۰ ج۱)کوفہ میں امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں حضرت مجاہد اور بصریٰ میں امام حسن بصری رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے۔(ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱)
حوالہ نمبر۷ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ عورتیں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کس طرح نماز پڑھتی تھیں فرمایا کہ پہلے چوکڑی بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا خوب سمٹ کر بیٹھا کریں ۔(جامع المسانید امام اعظم ص ۴۰۶ ج۱)
حوالہ نمبر ۸ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تشہد میں دایاں پائوں کھڑا رکھیں اور بایاں پائوں بچھا کر اس پر بیٹھا کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے کہ سمٹ کر بیٹھیں۔(بیہقی ص ۲۳۲ ج۲)؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے مرد وعورت کے نماز میں رفع الیدین جلوس اور سجود میں فرق کے سلسلہ میں کچھ حوالہ جات ارسال فرمائے ہیں ترتیب وار ان پر کلام مندرجہ ذیل ہے بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ ۔
(۱) اس روایت کے متعلق مجمع الزوائد ص۱۰۳ ج۲ پر لکھا ہے ’’ قُلْتُ : لَہٗ فِی الصَّحِیْحِ وَغَیْرِہٖ فِیْ رَفْعِ الیَدَیْنِ غَیْرَ ہٰذَا الْحَدیْثِ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیْ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِیْ مَنَاقِبِ وَائِلٍ مِنْ طَرِیْقِ مَیْمُوْنَة بِنْتِ حُجْرٍ عَنْ عَمَّتِہَا أُمِّ یَحْیٰی بِنْتِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَلَمْ أَعْرِفْہَا وَبَقِیَّة رَجَالِہٖ ثِقَاتٌ‘‘ ۔ تو یہ روایت بوجہ مجہولیت راویہ کمزور ہے قابل احتجاج نہیں ۔
(۲) اس روایت کو بیہقی ص ۲۲۳ ج نمبر۲ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے اور بیہقی کے اسی صفحہ ۲۲۳ پر اس روایت کو ضعیف قرار دیا گیا ہے چنانچہ امام بیہقی لکھتے ہیں ’’قَالَ أَبُوْ أَحَمَدَ : أَبُوْ مُطِیْعٍ بَیِّنُ الضُّعْفِ فِیْ أَحَادِیْثِہٖ ، وَعَامَّة مَا یَرْوِیْہٖ لاَ یُتَابَعْ عَلَیْہِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اﷲُ : وَقَدْ ضَعَّفَہٗ یَحْیٰی بْنُ مَعِیْنٍ وَغَیْرُہٗ‘‘۔ نیز امام بیہقی اس سے پچھلے ص ۲۲۲ پر لکھتے ہیں ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثَانِ ضَعِیْفَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِأَمْثَالِہِمَا‘‘ پھر دوسرے نمبر پر اس روایت کو بیان کرتے ہیں جو حوالہ نمبر ۲ میں نقل کی گئی ہے اب نامعلوم صاحب حوالہ جات نے حوالہ نمبر۲ میں امام بیہقی کے فیصلہ کو کیوں نظر انداز فرما دیا ۔
پھر اس روایت میں ہے ’’عورت جب نماز میں بیٹھے تو دایاں ران بائیں ران پر رکھے‘‘ جبکہ اس روایت کو بطور دلیل پیش کرنے والوں کی عورتیں بھی جب نماز میں بیٹھتی ہیں تو دائیں ران کو بائیں ران پر نہیں رکھتیں۔ ﴿ أَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ﴾ یاد رہے ترجمہ ’’دایاں ران بائیں ران پر رکھے‘‘ حوالہ جات پیش کرنے والوں نے کیا ہے یہ راقم تو محض ناقل ہے۔
(۳،۸) ان دونوں حوالوں میں مذکور روایت ایک ہی ہے جس کے کچھ حصہ کو نمبر۳ میں نقل کر کے ص ۲۲۳ کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۲ پر ہے اور کچھ حصہ کو نمبر۸ میں نقل کر کے حوالہ ص ۲۲۲ کا دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۳ پر ہے ایک روایت کے دو حصوں کو دو نمبروں میں ذکر کرنا تو سمجھ میں آتا ہے البتہ دونوں حصوں کے صفحات کی تبدیلی کم از کم میرے لیے تو ناقابل فہم ہے کہ اس سے تبدیلی کرنے والوں کا کیا مقصد ہے یا ویسے ہی ان سے بھول ہو گئی ہے ۔
پھر اس روایت کو بھی خود امام بیہقی نے ہی ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثَانِ ضَعِیْفَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِأَمْثَالِہِمَا‘‘ ان دو میں پہلی یہی حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں ذکر کردہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی روایت ہے نیز لکھتے ہیں : ’’وَاللَّفْظُ الْأَوَّلُ ، وَاللَّفْظُ الْآخِرُ مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَشْہُوْرَانِ عَنِ النَّبِیِّﷺ ، وَمَا بَیْنَہُمَا مُنْکَرٌ وَاﷲ اعلم‘‘ ۔ ’’ مَا بَیْنَہُمَا‘‘ سے اس روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے وہی دو حصے مراد ہیں جو حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں بیان ہوئے ۔
اس روایت کی سند میں عطاء بن عجلان نامی ایک راوی ہے جس کے متعلق خود امام بیہقی ہی لکھتے ہیں ’’وَکَذٰلِکَ عَطَائُ بْنُ عَجْلاَنَ ضَعِیْفٌ‘‘ ص ۲۲۳ ج۶ اور تقریب التہذیب ص ۲۳۹ میں ہے ’’ عَطَائُ بْنُ الْعَجْلاَنِ الْحَنْفِیُّ أَبُوْ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِی الْعَطَّارُ مَتْرُوْکٌ ، بَلْ أَطْلَقَ عَلَیْہِ ابْنُ مَعِیْنٍ وَالْفَلاَّسُ ، وَغَیْرُہُمَا الْکَذِبَ مِنَ الْخَامِسَةِ‘‘ ۔
نیز صاحب حوالہ جات نمبر۸ میں ’’وَیَأْمُرُ النِّسَائَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ یا مطلب بیان کرتے ہیں ’’اور عورتوں کو حکم دیا کرتے کہ سمٹ کر بیٹھیں‘‘ معلوم نہیں اس مقام پر انہوں نے ایسا کیوں کیا جبکہ خود انہوں نے اسی لفظ ’’یَتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ ومطلب حوالہ نمبر۷ میں ’’چوکڑی بیٹھتی تھی‘‘ کیا ہے۔
پھر اس روایت کے مطابق عورتوں کو تشہد میں چوکڑی بیٹھنے کا حکم ہے جبکہ معلوم ہے کہ حنفیوں کی عورتیں بھی تشہد میں چوکڑی نہیں بیٹھتیں ۔﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ﴾ چوکڑی بیٹھنے کو منسوخ قرار دینے والی روایت نہ صحیح اور نہ ہی حسن جیسا کہ تفصیل آ رہی ہے ان شاء اللہ ۔
(۴) یہ روایت مرسل ہے یزید بن ابی حبیب اس کو رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں جبکہ یزید بن ابی حبیب کی رسول اللہﷺ سے ملاقات نہیں اور نہ ہی انہوں نے رسول اللہﷺ کا زمانہ پایا ہے اس لیے یہ روایت قابل احتجاج واستدلال نہیں اور اس کا مرسل ومنقطع ہونا امام ابو داود کے اس کو مراسیل میں بیان کرنے سے ہی واضح ہے۔
پھر امام بیہقی نے سنن کبریٰ ص ۲۲۳ ج۲ میں اسی مرسل روایت کے بارہ میں لکھا ہے ’’وَرُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثٌ مُنْقطِعٌ ، وَہُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُوْلِیْنَ قَبْلَہٗ‘‘ پھر ابوداود والی سند کے ساتھ اس مرسل روایت کو بیان کیا۔ علامہ علاؤ الدین مار دینی حنفی حاشیہ بیہقی میں لکھتے ہیں ’’ظَاہِرُ کَلاَمِہٖ أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ إِلاَّ الْاِنْقِطَاع، وَسَالِمٌ مَتْرُوْکٌ حَکَاہُ صَاحِبُ الْمِیْزَانِ عَنِ الدَّارقُطْنِی‘‘ ۔
تو علامہ ماردینی حنفی کے بیان کے مطابق اس روایت میں انقطاع والے نقص کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں سالم بن غیلان کے متروک ہونے والا نقص بھی موجود ہے لہٰذا اس مقام پر ’’ہمارے نزدیک مرسل حجت ہے‘‘ والا اصول بھی نہیں چل سکتا کیونکہ حنفیوں کا یہ اصول اس مرسل کے متعلق ہے جس مرسل کی سند صحیح یا حسن ہو اور اس مرسل کی سند نہ صحیح ہے اور نہ حسن کیونکہ اس کی سند میں سالم بن غیلان متروک راوی موجود ہے ۔
چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ مرسل روایت اسنادی اعتبار سے حنفیوں کے نزدیک حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے پھر بھی ان کے نزدیک قابل احتجاج واستدلال نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مرسل روایت اس وقت حجت ہوتی ہے جب ارسال کرنے والے تابعی کی عادت معلوم ہو کہ وہ صرف ثقات ہی کو حذف کرتا ہے دیکھئے شرح نخبہ اور یہ چیز یزید بن ابی حبیب میں معلوم نہیں ہو سکی ورنہ ان کی اس عادت کو دلائل سے ثابت کیا جائے پھر ان کی مرسل روایت کو حجت بنایا جائے ۔
حوالہ نمبر۴ میں لکھا گیا ہے ’’امام داود مراسیل میں روایت ‘‘ الخ یہ امام داود نہیں امام ابوداود ہیں ۔
(۵) اس روایت کی سند میں ’’الحارث‘‘ نامی راوی ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے ’’وَقَالَ مُفَضَّلُ بْنُ مُہَلْہَلٍ عَنْ مُغِیْرَۃَ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ الْحَارِثُ وَأَشْہَدُ أَنَّہٗ أَحَدُ الْکَذَّابِیْنَ ۔ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ شَیْبَة الضَّبِیُّ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ : زَعَمَ الْحَارِثُ الْأَعْوُرُ وَکَانَ کَذَّابًا‘‘ ص ۴۳۶ ج۱ میزان الاعتدال میں اسی مقام پر ہے ’’جَرِیْرٌ عَنْ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ قَالَ : سَمِعَ مُرَّۃُ الْہَمْدَانِیْ مِنَ الْحَارِثِ أَمْرًا فَأَنْکَرَہٗ فَقَالَ لَہٗ : اُقْعُدْ حَتّٰی أَخْرُجَ إِلَیْکَ ۔ فَدَخَلَ مُرَّۃُ فَاشْتَمَلَ عَلٰی سَیْفِہٖ ، فَأَحَسَّ الْحَارِثُ بِالشَّرِّ فَذَہَبَ ۔ وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: کَانَ الْحَارِثُ غَالِیًا فِی التَّشَیُّعِ وَاہِیًا فِی الْحَدِیْثِ‘‘ ۔
(۶) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی موقوف روایت کی سند میں سعید بن ایوب اور یزید بن حبیب دو راوی ہیں جن کے حالات مجھے ابھی تک نہیں ملے اس لیے حوالہ دینے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں کا ثقہ ہونا ثابت کریں ۔ پھر صحابہ والی مقطوع روایت کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے جس کے متعلق تقریب التہذیب میں لکھا ہے ’’صُدُوْقٌ اِخْتَلَطَ أَخِیْرًا وَلَمْ یُتَمَیَّزْ حَدِیْثُہٗ فَتُرِکَ‘‘ نیز مصنف ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱ میں امام ابراہیم کے ساتھ ان کے کوفہ میں فتویٰ ۔ امام مجاہد کے ساتھ ان کے ’’مدینہ منورہ میں فتویٰ‘‘ اور امام حسن کے ساتھ ان کے ’’بصرہ میں فتویٰ‘‘ دینے کا کوئی ذکر نہیں۔
اصول شاشی ، نور الانوار ، حسامی ، مسلم الثبوت ، تلویح توضیح اور دیگر اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے ’’شرع کے اصول ودلائل چار ہیں ۔ (۱) کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ ۔ (۲) رسول اللہﷺ کی سنت ثابتہ ۔ (۳)اجماع امت ۔ (۴) قیاس صحیح ‘‘ اور معلوم ہے کہ مذکور بالا تین تابعین کے مذکور بالا آثار کتاب اللہ ہیں ، نہ ہی سنت رسول اللہ r نہ ہی اجماع اور نہ ہی قیاس صحیح ۔
پھر اس قسم کے آثار دوسری طرف بھی موجود ہیں مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ ص۲۷۰ ج۱ میں ہے : ’’ أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَائِ کَانَتْ تَجْلِسُ فِی الصَّلاَۃِ کَجِلْسَۃِ الرَّجُلِ‘‘ اور محولہ بالا اسی مقام پر ہے ’’عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِی الصَّلاَۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ‘‘ سجود کے سلسلہ میں ابراہیم نخعی کے قول کو لے لینا اور جلوس وقعود کے سلسلہ میں ان کے قول کو نہ لینا سراسر ناانصافی ہے نیز اسی محولہ بالا مقام پر ہے ’’ أَنَّ صَفِیَّة کَانَتْ تُصَلِّیْ وَہِیَ مُتَرَبِّعَة‘‘ پھر اسی مقام پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَرَبَّع‘‘ اور ص ۲۷۱ج۱ پر ہے ’’عَنْ شُعْبَة قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنْ قُعُوْدِ الْمَرْأَۃِ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ : تَقْعُدُ کَیْفَ شَائَ تْ‘‘۔
(۷) یہ روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد نافع کے شاگرد کی وجہ سے ضعیف ہے آپ ان کے حالات تفصیلاً دیکھنا چاہتے ہیں تو ’’سلسلة الأحادیث الضعیفة‘‘ جلد اول حدیث ۴۵۸ از ص ۴۶۳ تا ص ۴۶۹ پڑھ لیں ۔
پھر اگر اسی قسم کی روایات پر اعتماد کرنا ہے تو مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ص ۲۷۰ پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ کُنَّ نِسَائُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِی الصَّلاَۃِ‘‘ پھر نافع ہی فرماتے ہیں ’’عورت چوکڑی بیٹھتی ہے‘‘ اور کئی حنفی لکھتے ہیں ’’راوی کا عمل یا قول اس کی روایت کے خلاف ہو تو عمل راوی کے قول یا عمل پر ہو گا نہ کہ اس کی روایت پر‘‘۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب