السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ثعلبہ بن حاطب کےواقعہ کی تخریج
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث مسئؤ عنہ کی تخریج حافظ ابن کثیر (حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کی تخریج آیت کریمہ : ﴿و منهم عاهدالله لئن آتنا من فضله لنصدقن ولکنونن من الصالحین﴾ - ( التوبۃ 75) کےتحت کیا ہے .)نے کردی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ وقد ورد فيه حدیث ، رواہ ابن جریرهاهنا وابن ابی حاتم ( فی تفسیرهما ) من حدیث معان بن رفاعة عن علی بن یزید عن القاسم بن عبدالرحمن عن ابی اماماة ،، الخ اورسند کااتنا حصہ ذکرکے حدیث پر کلام بھی کردیا ہے۔
اس حدیث کوابن جریر اور ابن ابی حاتم کےعلاوہ مندرجہ ذیل مفسرین ومحدثین نےبھی روایت کیا ہے:
ابن المنذر ، ابو الشيخ العسكري في الامثال، الطبراني في الكبير ، ابن مندة ، البارودي ، ابونعيم الا صبهاني ، ابن مردويه، البيهقي ، ابن عساكر (الواحدي في اسباب النزول ص : 145)
یہ حدیث مختصر ا حضرت ابن عباس سےبھی مروی ہے: ’’ رواه ابن جرير وابن ابي حاتم وابن مردويه والبيهقي في الدلائل ،، ( تفسير القدير للشوكاني 3/ 385/ 386).د
ابوامامہ الباہلی کی یہ مسئول عنہ حدیث سند ا ضعیف ہے۔اس کادارومدار معان بن رفاعہ السلمی عن علی بن یزید الالہانی الخ پر ہے۔
اورمعان بن رفاعہ لین الحدیث اور علی بن یزید الالہانی ضعیف ومتروک ہیں۔حافظ الہیشمی مجمع الزوائد 7؍ 32 میں اس حدیث کےذکر کے بعد لکھتے ہیں :’’ رواہ الطبرانی ، وفیہ علی ابن یزید الالہانی وہو مترو ک ،،.
لیکن اس روایت کےمعاملہ میں تشدد کرنا میرے خیال میں زیادتی ہوگی ۔
علی بن یزید کواگرچہ جمہور ائمہ جرح وتعدیل نےضعیف یامنکر الحدیث یا متروک کہاہے ۔لیکن حافظ ذہبی نےان کےبارےمیں یہ بھی لکھا ہے:’’ وهو فی نفسه صالح ،، (میزان الاعتدال ( 5566) 3؍ 161) ، بعض لوگوں نےان کوعمل حدیث ( وضع حدیث) کے ساتھ اشارۃ متہم کیا ہے۔لیکن میرے خیال میں اس روایت کےبارے میں ان کے متعلق یہ شبہ کرنا غلو اورافراط او ربے جاتشدد ہوگا ۔ اس کاتعلق کسی حکم شرعی کے اثبات اور حلال وحرام سےنہیں ہے۔اس میں صرف سبب نزول کا بیان ہے۔ جس سےشخص مبہم کی تعیین اورآیت منزل فیہ کا بیان ہوجاتا ہےاوربس ۔یہ روایت کسی قرانی آیت یاصحیح حدیث یا اصل شرعی یا مجمع علیہ قاعدہ یا بداہتہ عقل کے خلاف نہیں ہے۔ونیز اس پر آیت کےمفہوم کاسمجھنا موقوف نہیں ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو ’’ ومنہم من عاہداللہ ،، الخ کےرجل مبہم کی تعیین میں ذکر نہ کیا جائے ۔یہی وجہ ہےکہ اس کوحافظ ابن کثیر اورشوکانی نےبغیر سخت ریمارک کے ذکر کیا ہے ۔اوراگر غو رکیا جائے توان دونوں نےسند کا مذکورہ ٹکڑا ذکر کرکرکے حدیث کی طرف اشارہ کردیاہے۔ان کے نزدیک علی ابن یزید الالہانی کامعاملہ ایسا کھلا ہوا کہ حدیث کےضعیف کےلیے محض ان کا نام ذکرکردینا کافی تھا ۔
عبیداللہ رحمانی 29؍4؍ 1964ء ( مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا محمدامین اثری ص : 70 ؍71)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب