میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا اور کوئی متبرک چیز مثلاً غلافِ کعبہ کا ٹکڑا کفن پر باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
: میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا کتاب الٰہی، سنت رسول الہﷺ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور قیاسِ مجتہدین سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔ جو فعل ان چاروں میں سے کسی سے بھی ثابت نہ ہو، وہ کام کرنا منع ہے اور اسی طرح کفن پر کوئی چیز لکھنا یا کسی متبرک چیز کا رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ فقہ کی بعض کتابوں سے لکھنا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ فقیہ محمد بن محمد بزازی نے ’’ فتاویٰ بزازیہ‘‘ میں کہا ہے:
’’ وذکر الإمام الصفاء لو کتب علی جبھۃ المیت أو علی عمامتہ أو کفنہ عھد نامہ، یرجی أن یغفر اللہ تعالی للمیت، ویجعلہ آمنا من عذاب القبر۔‘‘ انتھی
’’ امام صفا نے لکھا ہے کہ اگر میت کی پیشانی یا پگڑی یا کفن پر عہد نامہ لکھا جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیں گے اور اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھیں گے۔‘‘
اور ’’ فتاویٰ تاتارخانیہ‘‘ میں کہا:
’’ حکی بعض أنه أوصی ابنه إذا مت، وغسلت، فاکتب فى جبھتى وصدرى: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال : ففعلت، ثم رأیت فى المنام وسألت عن حاله، فقال لما وضعت فى القبر جاءتنى ملائکة العذاب، فلما رأوا مکتوبا علی جبھتى وصدرى ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ قالوا: أمنت من العذاب‘‘ انتھی’’ کسی نے اپنے بیٹے کو کہا کہ میں مر جاؤں اور مجھے غسل دے دیا جائے تو میری پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ دینا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر خواب میں باپ کو دیکھا اور اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا: جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو عذاب کے فرشتے آئے۔ جب انہوں نے میری پیشانی اور سینے پر بسم اللہ لکھی دیکھی تو کہنے لگے تو عذاب سے بچ گیا۔‘‘
اور ابراہیم حلبی صغیری شرح منیہ میں کہتے ہیں:
’’ وذکر البزازى عن الصفاء لو کتب علی جبھته أو عمامته أو کفنه عھد نامه، یرجی أن یغفر اللہ تعالی سبحانه … إلی أن قال : وعن بعض المتقدمین أنه أوصی أن یکتب فى جبھة وصدره بسم اللہ الرحمن الرحیم … الخ‘‘’’ اور بزازی نے صفا سے بیان کیا ہے کہ اگر میت کی پیشانی یا اس کے عمامے یا اس کے کفن پر عہد نامہ لکھ دیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے بخش دے گا … حتی کہ اس نے کہا: متقدمین میں سے کسی سے مروی ہے کہ اس نے وصیت کی کہ اس کی پیشانی اور سینے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جائے۔‘‘
اور علاؤ الدین حصکفی نے درمختار میں کہا:
’’ کتب علی جبھة المیت أو عمامته أو کفنه عھد نامه، یرجی أن یغفر اللہ للمیت، وأوصی بعضھم أن یکتب فى جبھته وفى صدره ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ففعل ثم رئى فى المنام، فسئل فقال : لما وضعت فى القبر جاء تنى ملائکة العذاب، فلما رأوا مکتوبا علی جبھتى ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ قالوا: أمنت من عذاب اللہ۔‘‘ انتھی (الدرالمختار ۲ ؍ ۲۴۶)’’ میت کی پیشانی یا اس کے عمامے یا اس کے کفن پر عہد نامہ تحریر کرنے سے امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میت کو معاف کردے گا اور کسی نے یہ وصیت کی کہ اس کی پیشانی اور سینے پر ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا جائے تو اس کے فوت ہونے کے بعد ایسے ہی کیا گیا، پھر اسے خواب میں دیکھا گیا اور اس سے پوچھا گیا (تیرے ساتھ قبر میں کیا معاملہ کیا گیا) تو اس نے جواب دیا: جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو میرے پاس عذاب والے فرشتے آئے، مگر جب انھوں نے میری پیشانی پر ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو انھوں نے (مجھے) کہا: تو اللہ کے عذاب سے بچا لیا گیا ہے۔‘‘
اور ابن عابدین نے ’’ ردالمختار‘‘ میں کہا:
’’ قوله : یرجی … الخ مفاده الإباحة أو الندب، وفى البزازية قبیل کتاب الجنایات : وذکر الإمام الصفاء لو کتب علی جبھته المیت أو علی عمامته وکفنه عھد نامه، یرجی یغفر اللہ تعالی للمیت، ویجعله آمنا من العذاب، قال نصیر : ھذہ روایة فى تجویز ذلک، وإن الفقیه ابن عجیل کان یأمر به ، ثم أفتی بجواز کتابته قیاسا علی کتابة ’’للہ‘‘ فى إبل الزکوٰة ، وأقرہ بعضھم ‘‘ انتھی مختصرا ( ردالمختار ۲ ؍ ۲۴۶)’’ ( درمختار کے مصنف کا) یہ قول ’’ یُرْجٰی ‘‘ اس سے زیادہ سے زیادہ اس عمل کے مباح یا مندوب ہونے کا پتا چلتا ہے اور بزازیہ میں کتاب الجنایات سے تھوڑا پہلے مرقوم ہے: امام صفا کا یہ ذکر کرنا کہ اگر میت کی پیشانی پر یا اس کے عمامے پر اور کفن پر عہد نامہ تحریر کیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میت کو بخش دے گا اور اسے عذابِ قبر سے محفوظ فرما لے گا۔ نصیر نے کہا: اس روایت سے مذکورہ عمل کے جائز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ فقیہ ابن عجیل اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھر انھوں نے زکوٰۃ کے اونٹ پر ’’ للہ‘‘ لکھنے پر قیاس کرتے ہوئے میت پر عہد نامہ لکھنے کےجواز کا فتویٰ دیا اور بعض نے اس کو درست کہا۔‘‘
اور بھی ’’ ردالمختار‘‘ میں کہا:
’’ نقل بعض المحشین عن فوائد الشرجى أن مما یکتب علی جبھة المیت بغیر مداد بالأصبع المسبحة ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ وعلی الصدر ’’ لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ وذلک بعد الغسل قبل التکفین ‘‘ انتھی ( ردالمحتار ۲ ؍ ۲۴۷)’’ بعض حاشیہ نگاروں نے فوائد شرجی سے نقل کیا ہے کہ میت کی پیشانی پر بغیر روشنائی کے انگشتِ شہادت کے ساتھ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا جائے اور سینے پر ’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا جائے۔ یہ عمل میت کو غسل دینے کے بعد اور کفن پہنانے سے پہلے کیا جائے۔ ‘‘
اور مولانا محمد اسحق کی ’’ مائۃ مسائل‘‘ میں مذکور ہے:
’’ اور کتاب درہم الکیس فارسی میں لکھا ہے: بغیر روشنائی کے صرف انگلی سے لکھا جائے۔ اسی طرح مفتاح الجنان اور کفایہ شعبی میں بھی ہے۔ پس ان روایات سے ثابت ہوا کہ میت کی پیشانی پر بغیر سیاہی یا سیاہی کے ذریعے بسم اللہ لکھنا اور سینہ و کفن پر بھی لکھنا جائز ہے اور میت کی نجات کا سبب ہے۔‘‘
میں بفضل اللہ العلام کہتا ہوں:
ادلہ اربعہ میں سے کوئی دلیل بھی مذکورہ کتابوں میں نقل نہیں کی گئی، اس کی بنا صرف قیاس فاسد پر ہے یا پھر خواب پر۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعائیں اور اذکار اور ان کو ادا کرنے کا طریقہ توقیفی ہے۔ لہٰذا شارع سے ثابت شدہ صورت کے علاوہ کسی طرح ان کو ادا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اسی طرح اس پر اجر کا حکم اللہ و رسول ﷺ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ اس کا فیصلہ کرے۔
شیخ جلال الدین سیوطی اپنے فتوے میں کہتے ہیں:
’’ الأذکار توقیفیة ، وترتب الأجر علیھا و مقدارہ توقیفى، فمن أتی بذکر أو دعاء لم یرد فلیس لأحد أن یحکم علیه بشىء من الأجر بمقدار معین، لأن ذلک مرجعه إلی النبىﷺ وحدہ‘‘ انتھی’’ اذکارتوقیفی ہیں اور ان کے پڑھنے سے اجر و ثواب ملتا ہے اور ثواب کتنا ملتا ہے، اس کی مقدار بھی توقیفی امر ہے، لہٰذا جس شخص نے غیر ثابت شدہ ذکر کیا یا دعا کی تو کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس پر کسی قسم کے معین مقدار میں اجر و ثواب کے ملنے کا فیصلہ صادر فرمائے، کیونکہ اس پر اجر کا حکم صرف نبی ﷺ کی طرف سے ہوتا ہے۔‘‘
اور ’’ ردالمختار‘‘ میں فرمایا:
’’ والقول بأنه یطلب فعله مردود، لأن مثل ذلک لا یحتج به إلا إذا صح عن النبىﷺ طلب ذلک، ولیس کذلک‘‘ انتھی ما فى کتاب الجنائز فى مطلب فیما یکتب علی کفن المیت‘‘ (ردالمختار ۲؍ ۲۴۶)’’ یہ قول کہ ’’ اس (میت کے کفن پر لکھنے) کا فعل مطلوب و مرغوب‘‘ مردود ہے، کیونکہ اس طرح کی چیزوں کو اس وقت تک حجت بنانا جائز نہیں ہے، جب تک نبی اکرمﷺ سے اس کا طلب کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہ ہو، جبکہ آپﷺ سے مذکورہ طلب ثابت نہیں ہے۔‘‘
بعض چیزیں بہ ظاہر دیکھنے میں عبادت و موجب اجر معلوم ہوتی ہیں، لیکن چونکہ وہ منقول نہیں ہیں، لہٰذا منع ہیں۔ چنانچہ علامہ فقیہ برہان الدین مرغینانی ’’ ہدایہ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’ یکرہ أن یتنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من رکعتى الفجر، لأنه علیه السلام لم یزد علیھا مع حرصه علی الصلاۃ‘‘ انتھی ( الھدایة للمرغیناني ، ص : ۴۲)’’ طلوعِ فجر کے بعد فجر کی دو رکعت (سنتوں) سے زیادہ نفل ادا کرنا مکروہ ہے، کیونکہ آپﷺ نے نماز کی حرص اور لالچ کے باوجود اس وقت میں ان دو رکعتوں سے زیادہ نفل ادا نہیں کیے۔‘‘
صبح طلوع ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ سے صرف دو رکعت سنت ثابت ہیں۔ اب اگر کوئی زیادہ پڑھے تو ناجائز ہوگا، حالانکہ نماز فی نفسہٖ بہت اچھی چیز ہے۔
اور بھی اس میں فرمایا:
’’ لا یتنفل فى المصلی قبل صلاة العید، لأنه علیه السلام لم یفعل ذلک مع حرصه علی الصلاة‘‘ انتھی ( الھدایة للمرغیناني، ص: ۸۴)عید گاہ میں نفل چونکہ آنحضرتﷺ سے ثابت نہیں ہیں اگر وہاں نفل پڑھے تو جائز نہ ہوگا۔
اور فتاویٰ عالمگیر ی میں لکھا ہے:
’’ قراءة الکافرون إلی الآخر مع الجمع مکروھة، لأنھا بدعة، لم ینقل ذلک عن الصحابة والتابعین، کذافى المحیط۔‘‘ انتھی (الفتاویٰ الھندیة [فتاوی عالمگیری] ، ۵؍ ۳۱۷)’’ سورت ’’ قل یا أیھا الکفرون‘ ‘ سے لے کر آخر تک ایک ہی رکعت میں نہ پڑھے کیوں کہ یہ بدعت ہے اور صحابہ و تابعین سے ثابت نہیں۔‘‘
صدقے کے اونٹوں پر قیاس کرکے لکھنا قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے، وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہ تبرک اور نجات کے لیے لکھا جاتا ہے۔ پھر وہاں بے ادبی کا امکان نہیں اور یہاں پیپ وغیرہ میں ملوث ہونے کا یقین ہے۔
ابن عابدین نے ’’ رد المختار‘‘ میں کہا ہے:
’’ والقیاس المذکور ممنوع بأن القصد ثم التمیز، وھھنا التبرک، فالأسماء المعظمة باقیة علی حالھا فلا یجوز تعرضھا للنجاسة۔‘‘ انتھی ( ردالمختار ۲ ؍ ۲۴۶)’’ ( اور اونٹوں پر قیاس کرکے لکھنے والا) مذکورہ قیاس ممنوع (قیاس مع الفارق) ہے، کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے اور یہاں جو لکھا جاتا ہے وہ تبرک کے لیے لکھا جاتا ہے۔ ( پھر اونٹوں پر لکھنے سے بے ادبی کا امکان نہیں جبکہ یہاں) اسمائے معظمہ اپنی حالت پر لکھے ہوئے باقی رہتے ہیں، لہٰذا ان کو نجاست سے ملوث ہونے کے لیے باقی چھوڑنا جائز نہیں ہے۔‘‘
پھر یہ بھی دیکھیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کانوں میں اذان کہتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی کی ابتدا تھی۔ اسی پر انتہا کو قیاس کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دفن کے وقت بھی اذان کہنا شروع کردیا تو اکثر فقہا نے اس اذان کو دین میں بدعت قرار دیا۔
چنانچہ ابن عابدین نے ’’ ردالمختار‘‘ میں کہا ہے:
’’ لا یسن الأذان عند إدخال المیت فى قبره کما ھو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر فى فتاویه ببدعته، وقال : من ظن أنه سنة ، قیاسا علی ندبھما للمولود، إلحاقا لخاتمة الأمر بابتدائه ، فلم صیب۔‘‘ انتھی ( ردالمختار ۲ ؍ ۲۵۵)’’ میت کو اس کی قبر میں اتارتے وقت اذان کہنا مسنون عمل نہیں ہے، جیسے کہ اب لوگوں میں یہ عمل متداول ہے۔ ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں اس عمل کے بدعت ہونے کی صراحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس شخص نے نومولود کے کانوں میں اذان و اقامت کہنے کے مندوب ہونے پر قیاس کرتے ہوئے اور انسان کے خاتمے کو اس کی ابتدا سے جوڑتے ہوئے اس اذان کے مسنون ہونے کا گمان کیا ہے، اس کا یہ گمان درست نہیں ہے۔‘‘
نیز لکھتے ہیں:
’’ وقد صرح بعض علمائنا وغیرھم بکراھة المصافحة المعتادة عقب الصلوة، مع أن المصافحة سنة، وما ذلک إلا لکونھا لم تؤثر فى خصوص ھذا الموضع، فالمواظبة علیھا فیه توھم العوام بأنھا سنة فیه، ولذا منعوا عن الاجتماع لصلوٰة الرغائب التى أحدثھا بعض المبتدعین، لأنھا لم تؤثر علی ھذه الکیفیة فى تلک اللیالى المخصوصة، وإن کانت الصلوٰة خیر موضوع‘‘ انتھی ( ردالمحتار ۲ ؍ ۲۳۵)’’ ہمارے بعض علمائے کرام وغیرہ نے مصافحے کے مسنون ہونے کے باوجود نماز کے بعد مروجہ مصافحے کے مکروہ ہونے کی صراحت کی ہے، کیونکہ اس خاص موقع پر مصافحہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اگر یہ کام مستقل طور پر کیا جائے تو عوام کو یہ خیال ہوگا کہ یہ عمل مسنون ہے۔ اسی لیے علما نے اس ’’ صلوۃ رغائب‘‘ پڑھنے کے لیے جمع ہونے سے منع فرمایا ہے، جسے بعض بدعتیوں نے ایجاد کیا ہے، کیونکہ ان مخصوص راتوں میں اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرنا شریعت میں ثابت نہیں ہے، اگرچہ نماز پڑھنا ایک اچھا عمل ہے۔‘‘
اسی طرح عمدۃ المحدثین استاذ الاساتذہ مولانا محمد اسحاق دہلوی نے ’’ مائۃ مسائل‘‘ میں تصریح فرمائی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ انبیا کے علاوہ کسی کا خواب شرع میں حجت نہیں ہے اور اس سے احکام شرعیہ ثابت نہیں ہوتے۔
شیخ الاسلام جمال المسلمین علامہ شمس الدین کرمانی نے ’’ کواکب الداري شرح صحیح البخاري‘‘ میں حدیث : ’’ قال عروة وثویبة مولاة لأبى لھب : کان أبو لھب أعتقھا، أرضعت النبىﷺ فلما مات أبو لھب، رآه بعض أھله … الخ‘‘ کے تحت فرمایا:
’’ فإن قلت : فیه دلیل علی أن الکافر ینفعه العمل العمل، فقد قال اللہ تعالی : ﴿ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء … الآیة ﴾قلت : لا ، إذا الرؤیا لیست بدلیل۔‘‘ انتھی ( الکواکب الدراري للکرماني ۱۹؍ ۷۹)’’ اگر تم کہو کہ مذکور حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کافر کو اس کا (نیک) عمل فائدہ دیتا ہے، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء … الآیۃ ﴾ تو میں کہوں گا کہ نہیں اسے اس کا فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ (لوگوں کا) خواب دلیل نہیں بنتا ہے۔‘‘
حجۃ الاسلام حافظ ابن حجر نے ’’ فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں کہا ہے:
’’ وفى الحدیث دلالة علی أن الکافر قد ینفعه العمل الصالح فى الآخرة، لکنه مخالف لظاھر القرآن، قال اللہ تعالی : ﴿ وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوراً ﴾ وأجیب أولا بأن الخبر مرسل، أرسله عروة، ولم یذکر من حدثه؟ وعلی تقدیر أن یکون موصولاً فالذى فى الخبر رؤیا منام فلا حجة فیه۔‘‘ انتھی ( فتح الباري لابن حجر ۹ ؍ ۱۴۵)’’ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کافر کو آخرت میں نیک عمل کا فائدہ ہوگا، مگر یہ بات قرآن مجید کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوراً﴾سب سے پہلے اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ خبر مرسل ہے جسے عروہ نے مرسل بیان کیا ہے اور انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ انھیں یہ خبر کس نے بیان کی ہے؟ اگر مذکورہ خبر کا موصول ہونا مان بھی لیا جائے تو اس خبر میں زیادہ سے زیادہ نیند میں ایک خواب دیکھنے کا ذکر ہے جو حجت نہیں ہے۔‘‘
علامہ قسطلانی نے ’’ إرشاد السارى‘‘ میں کہا ہے:
’’ استدل بھذا علی أن الکافر قد ینفعه العمل الصالح فى الآخرة ، وھو مردود بظاھر قوله : ﴿ وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوراً ﴾ لا سیما والخبر مرسل، أرسلہ عروة، ولم یذکر من حدثه به، وعلی تقدیر أن یکون موصولًا فلا یحتج به، إذ ھو رؤیا منام، لا یثبت به حکم شرعى۔‘‘ انتھی ( إرشاد السارى للقسطلانى ۸ ؍ ۳۱)’’ اس روایت سےیہ استدلال کیا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کو اس کا نیک عمل فائدے دے گا، جبکہ یہ استدلال مندرجہ ذیل فرمانِ باری تعالیٰ کے ظاہری مفہوم کے ساتھ مردود ہے: ﴿ وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوراً﴾ خصوصاً جبکہ مذکورہ روایت مرسل ہے، جسے عروہ نے مرسل بیان کیا ہے اور انھوں نے یہ ذکر ہی نہیں کیا کہ انھیں یہ روایت کس نے بیان کی ہے۔ بالفرض یہ روایت موصول بھی ہو، پھر بھی اس سے مذکورہ استدلال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت محض ایک خواب ہے اور اس کے ساتھ شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا۔‘‘
اور مندرجہ بالا تشریحات میں ’’ شرح منار النسفى‘‘ میں کہا ہے:
’’ ولا اعتبار بإلھام غیر النبى ورؤیاه‘‘ انتھی’’ غیر نبی کے الہام اور خواب کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔‘‘
مذکورہ تمام افراد جو جواز کو نقل کرنے والے ہیں، مثلاً ابراہیم حلبی و علاؤ الدین حصکفی و صاحب تاتار خانیہ و صاحب فوائد الشرجی و صاحب درہم الکیس وغیرہ رحمہم اللہ، یہ سب فتاوی بزازیہ سے نقل کرتے ہیں، جو خود محتاج دلیل ہے۔ جب کہ وہ ادلہ اربعہ سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ فلا یلتفت إلیہ۔
اور جزائے خیر ملے علامہ حافظ عثمان بن عبدالرحمن الشہیر بابن الصلاح کو، کہ انھوں نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ ’’ ردالمحتار‘‘ میں ہے :
’’ وقد أفتی ابن الصلاح بأنه لا یجوز أن یکتب علی الکفن یٰسین والکھف ونحوھما، خوفا من صدید المیت۔‘‘ انتھی ( ردالمحتار ۲ ؍ ۲۴۶)’’ اور ابن الصلاح نے فتویٰ دیا ہے کہ میت کے کفن پر سورت یٰسین، سورت کہف اور ان جیسی دیگر سورتیں لکھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ان کے میت کی پیپ وغیرہ میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘
اور ردمحتار میں یہ بھی ہے:
’’ وقدمنا قبیل باب المیاه عن الفتح أنه تکره کتابة القرآن وأسماء اللہ تعالی علی الدراھم والمحاریب والجدران وما یفرش، وما ذاک إلا لا حترامه وخشیة وطئه ونحوه، مما فیه إھانته ، فالمنع ھھنا بالأولی ما لم یثبت عن المجتھد أو ینقل فیه حدیث ثابت۔‘‘ انتھی ( ردالمحتار ۲ ؍ ۲۴۶)’’ اور ہم نے باب المیاہ سے تھوڑا پہلے یہ ذکر کیا ہے کہ درہموں، عمارتوں، دیواروں اور بچھائی جانے والی چیزوں پر قرآنی آیات اور اللہ تعالیٰ کے نام لکھنا مکروہ ہے، اس لیے کہ ان کے احترام کا یہی تقاضا ہے کہ انھیں اس طرح کی چیزوں اور جگہوں میں نہ لکھا جائے، کیونکہ خدشہ ہوتا ہے کہ انھیں روندھا جائے اور ایسا کرنے میں ان کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ لہٰذا کفن پر ان کو لکھنا بالاولیٰ منع ہے، کیونکہ ایسا کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی مجتہد سے منقول ہے۔‘‘
اور طحطاوی نے درالمختار کے حاشیہ میں کہا:
’’ قوله : کتب علی جبھته … الخ أخذ من ذلک جواز الکتابة ولو بالقرآن، ولم یعتبروا کون مآله إلی التنجس بما یسیل من المیت، وانظر ھذا مع کراھتھم الکتابة علی المراوح وجدر المساجد۔‘‘’’ یہ قول : میت کی پیشانی پر کچھ لکھنا … الخ اس سے لکھنے کے جواز کو لیا گیا ہے خواہ وہ قرآن ہی لکھا جائے۔ اور انھوں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے کہ ایسا کرنے سے میت سے نکلنے والی پیپ وغیرہ سے ان لکھی ہوئی آیاتِ قرآنیہ وغیرہ کے ملوث ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ پنکھوں اور مساجد کی دیواروں پر آیات وغیرہ لکھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔‘‘
اسی طرح فوائد الفوائد میں بھی عدم جواز کی تصریح ہے۔ پس ہمارے مدعا یعنی پیشانی، سینے اور کفن پر لکھنے کے عدم جواز کے اثبات کے لیے ابن عابدین کا قول : ’’ فالمنع ھھنا بالأوی مالم یثبت عن المجتھد أو ینقل فیہ حدیث ثابت ‘‘ کافی ہے، اگرچہ ابن عابدین نے اس عبارت کو سیاہی سے کتابت کی صورت میں کہا ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ دین سے متعلق جو بھی عمل ہو، شرع سے اس کی اجازت ہونی چاہیے، ورنہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ بہ ظاہر وہ کتنا ہی اچھا عمل لگتا ہو، یہی اس مسئلے میں انتہائی تحقیق ہے اور اللہ تعالیٰ ہی حقیقتِ حال کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔
صورت ثانیہ کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ روایات سے معلوم ہوگیا کہ کعبہ کے پردہ کا وجود خلفائے راشدین کے دور میں تھا اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں ’’ باب کسوۃ الکعبۃ‘‘ کے تحت کہا:
’’ قلت : لعل الکعبة کانت مکسوة وقت جلوس عمر، فحیث لم ینکره، وقررھا، دل علی جوازھا۔‘‘ انتھی ( الکواکب الدارى للکرمانى ۸؍ ۱۱۵)’’ میں کہتا ہوں: شاید عمر رضی اللہ عنہ کے تختِ خلافت پر بیٹھنے کے وقت کعبہ کو غلاف پہنایا گیا تو انھوں نے اس کا انکار نہیں کیا، بلکہ اسے برقرار رکھا تو ان کا ایسا کرنا اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح عینی کی آنے والی روایت سے معلوم ہوگا، مگر کعبے کے پردہ کا خریدنا، بیچنا، کاٹنا، لے جانا، اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کے جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔
چنانچہ علامہ بدر الدین عینی نے ’’ عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں اس باب سے متعلق فرمایا ہے:
’’ قا صاحب التلخیص : لا یجوز بیع أستار الکعبة المشرفة، وکذا قال أبو الفضل بن عدلان : لا یجوز قطع أستارھا ، ولا قطع شى ء من ذلک، ولا یجوز نقله وبیعه ولا شراؤه ، وما یفعله العامة یشترونه من بنى شیبة لزمه رده، ووافقه علی ذلک الرافعى ، وقال ابن الصلاح : الأمر فیھا إلی الإمام ، یصرفه فى مصارف بیت المال بیعا وعطاء ، واحتج بما ذکرہ الأزرقى أن عمر کان ینزع کسوة الکعبة کل سنة فیقسمھا علی الحجاج، وعند الأزرقى عن ابن عباس وعائشة رضی اللہ عنھا أنھما قالا : ولا بأس أن یلبس کسوتھا من صارت إلیه من حائض وجنب وغیرھما۔‘‘ انتھی ( عمدة القارى للعینى ۹؍ ۲۳۷)’’ صاحبِ تلخیص نے کہا ہے کہ کعبہ شریف کے پردے اور غلاف کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی ابوالفضل بن عدلان نے کہا ہے کہ کعبہ کے پردے کو کاٹنا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کے کسی حصے کو مت کاٹا جائے اور نہ ہی اسے کہیں لے جانا، بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔ یہ جو عوام الناس بنو شیبہ سے اسے خریدتے ہیں، ضروری ہے کہ اسے ممنوع قرار دیا جائے۔ رافعی نے بھی اس موقف میں ان کی موافقت کی ہے اور ابن الصلاح نے کہا ہے: اس کا معاملہ امام وقت کے سپرد کیا جائے، وہ بیت المال کے مصارف میں اس کی فروخت اور عطیے میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ انھوں نے ازرقی کے ذکر کردہ اس عمل سے دلیل لی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ہر سال کعبہ کا پردہ اور غلاف اتار کر حجاج کرام میں تقسیم کردیتے تھے۔ ازرقی کے ہاں ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا: کعبے کا غلاف ہر اس فرد کے لیے پہننے میں کوئی حرج نہیں، جسے بھی وہ نصیب ہو جائے، خواہ وہ حائضہ عورت اور جنبی وغیرہ ہوں۔‘‘
جو لوگ کعبہ کے پردے کی خرید و فروخت کے قائل ہیں، وہ اس کو تبرک کے لیے میت کے کفن کے لیے بھی جائز سمجھتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ رسول ﷺ کے کپڑے میں تبرک کے لیے کفن دیا جانا ثابت ہے۔ حافظ الحدیث حجۃ اللہ فی الارض امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں خود روایت فرمایا:
’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عبداللہ بن اُبی فوت ہوگیا تو اس کا بیٹا (جو مسلمان تھا) نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی: (اے اللہ کے رسولﷺ ! ) مجھے اپنی قمیص عطا کیجیے، تاکہ میں اس میں اپنے باپ کو کفن دوں اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھا دیجیے اور اس کے لیے استغفار کیجیے، تو آپﷺ نے اسے اپنی قمیص عطا کردی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
’’ سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس ایسی چادر لائی جس کے کناروں پر حاشیہ بنا ہوا تھا (راوی حدیث سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا) جانتے ہوئے ’’ بردہ‘‘ کسے کہتے ہیں، شاگردوں نے کہا: چادر کو کہتے ہیں۔ فرمانے لگے: ہاں! اس عورت نے عرض کی: میں نے یہ چادر اپنے ہاتھ سے بُنی ہے اور میں آپﷺ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریمﷺ کو اس کی ضرورت تھی، سو آپﷺ نے وہ لے لی اور اسی کو بطور تہبند پہن کر باہر نکلے۔ کسی صحابی نے اس کی تحسین و تعریف کی اور کہا: کیا عمدہ چادر ہے (یا رسول اللہﷺ!) یہ مجھے عنایت کردیجیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے کہا: نبی اکرمﷺ نے یہ چادر پہنی اس حال میں کہ آپﷺ کو اس کی ضرورت تھی، لہٰذا تُو نے اچھا نہیں کیا، جو آپﷺ سے یہ چادر مانگی اور تم جانتے بھی ہو کہ آپﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ چادر اس لیے تھوڑے مانگی ہے کہ میں اسے پہنوں۔ میں نے تو صرف اس لیے مانگی ہے کہ یہ میرا کفن بنے۔ سو وہ چادر اس کا کفن بنائی گئی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
’’ عمرو نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، فرماتے تھے: رسول اللہﷺ عبداللہ بن اُبی کے پاس اس وقت تشریف لائے جب اس کی لاش قبر میں رکھ دی گئی تھی، آپﷺ نے اسے نکالنے کا حکم دیا، سو اسے نکالا گیا، آپﷺ نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اس پر اپنا تھوک ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
’’ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیﷺ کی ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا تو نبیﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے بیری (ڈال کر پانی) سے طاق مرتبہ غسل دو۔ تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے ساتھ اور آخر میں کافور یا تھوڑا سا کافور شامل کردو۔ جب تم غسل دے چکو تو مجھے اطلاع کردینا۔ جب ہم اس کے غسل سے فارغ ہوچکے تو ہم نے آپﷺ کو اطلاع دی، آپﷺ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا (تاکہ ہم اس کے ساتھ کفن دیں) ہم نے ان کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر ان کی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیں۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
البتہ کفن مسنون سے ایک ٹکڑا بھی زیادہ کرنا خلاف سنت ہے۔ اس لیے تو علماء نے میت کے لیے عمامہ کو مکروہ کہا ہے کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ بخاری عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں:
’’ رسول اللہﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ ان میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔‘‘
قاضی حسین بن منصور نے ’’ فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں کہا ہے:
’’ أکثر ما یکفن فیه الرجل ثلاثة أثواب، لیس فیھا عمامة عندنا‘‘ انتھی (دیکھیں: فتاویٰ قاضی خان ۱ ؍ ۱۶۰)
’’ کفن میں تین کپڑے ہیں، جن میں ہمارے مذہب کے مطابق پگڑی نہیں ہے۔‘‘
اور علامہ زین بن نجیم نے ’’ بحر الرقائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں کہا:
’’ وفى المجتبٰی : وتکرہ العمامة فى الأصح ‘‘ انتھی ( البحر الرائق ۲ ؍ ۱۸۹)’’ اور مجتبیٰ میں ہے: کفن میں پگڑی کا ہونا اصح قول کے مطابق مکروہ ہے۔‘‘
اور محمد بن عبداللہ الغزی نے ’’ تنویر الابصار‘‘ میں کہا:
’’ وتکرہ العمامة لمیت فى الأصح ‘‘ ( تنویر الأبصار ، لوح : ۴۵، مخطوط)’’ اصح قول کے مطابق میت کے لیے پگڑی مکروہ ہے۔‘‘
اور قہستانی نے ’’ جامع الرموز‘‘ میں کہا:
’’ والأصح أنه یکرہ العمامة کما فى الزاھدى‘‘ انتھی ( جامع الرموز (شرح مختصر الوقایة المسمی بالنقایة) للقھستانى ، ص: ۱۵۷)’’ اور اصح موقف یہ ہے کہ کفن میں پگڑی مکروہ ہے، جیسا کہ زاہدی میں ہے۔‘‘
کعبہ کے پردے کا ٹکڑہ میت کے کفن میں رکھنا جائز نہیں، اس لیے کہ میت کے ساتھ قبر میں سوائے کفن کے کچھ بھی نہ رکھنا سنت ہے اور یہ ٹکڑا رکھنا سنت کو ختم کردیتا ہے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔ اسی طرح مشائخِ تصوف جو قبر میں میت کے ساتھ پودا وغیرہ رکھتے ہیں ، یہ بھی مذکورہ دلیل کی وجہ سے بدعت ہے۔
نیز حدیث شریف میں آیا ہے:
’’ عن غضیف بن الحارث الثمالى قال قال رسول اللہ ﷺ : ما أحدث قوم بدعة إلا رفع مثلھا من السنة ، فتمسک السنة خیر من إحداث بدعة۔‘‘ رواہ أحمد۔ ( مسند أحمد ۴ ؍ ۱۰۵۔ اس کی سند میں ’’ ابوبکر بن ابی مریم‘‘ راوی ضعیف ہے)
’’ غضیف بن حارث ثمالی سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو لوگ کوئی بدعت اختیار کرتے ہیں تو ان سے اسی قدر سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو تھامنا بدعت اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
دونوں جوابوں کا خلاصہ یہ نکلا کہ میت کی پیشانی یا کفن پر بسم اللہ وغیرہ لکھنا، انگلی یا سیاہی سے، اور کعبے کے پردے کا ٹکڑہ کفن میں رکھنا بدعت ہے۔ مسلمان اسے اسلام سے ثابت شدہ سمجھ کر کرتے ہیں، حالانکہ یہ ثابت شدہ نہیں ہے۔
امامان حافظان بخاری و مسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں:
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں نہیں ہے، وہ کام اللہ کے ہاں مردود ہے۔ اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کی بنیاد شریعت میں نہیں وہ کام مردود ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘