سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) وضو میں پاؤں پر مسح کرنا

  • 1495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3189

سوال

(39) وضو میں پاؤں پر مسح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گذشتہ دنوں شیعہ حضرات کی طرف سے وضوء میں پاؤں پر مسح کرنے کے متعلق تحریر ملی کہ پاؤں دھونے کی بجائے مسح کرنا ضروری ہے۔ جس کے متعلق مختلف کتب سے دلائل دئیے گئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا حل ارسال فرمائیں گے۔ باقی تحریر آپ خود پڑھ لیں۔ اور اس کا جواب جلد از جلد ارسال فرما دیں؟

شیعہ حضرات کی تحریر

السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ فیاض کے بچے کی فوتیدگی پر جو محفل ہوئی تھی اس سلسلے میں جواب حاضر ہے ۔ آپ نے وضوء کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ آپ لوگ وضوء میں دونوں پائوں کے مسح کے خلاف اور پائوں دھونے کے قائل ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدۃ کی آیت وضوء پر گرامر کی بحث کرتے ہوئے یہ عذر کرتے ہیں کہ آیت وضوء میں بِرُؤُسِکُمْ میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے لیکن فخر الدین رازی نے اس عذر کو باطل قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ تفسیر کبیر مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۶۸ میں امام رازی لکھتے ہیں ہم کہتے ہیں یہ کئی وجوہ سے باطل ہے ۔ ایک وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ بِرُؤُسِکُمْ کی کسر باء کی وجہ سے ہے ۔ جوار کی جَر بلاشبہ ، حرف عطف چھوڑ کر ہوتی ہے اور حرف عطف کے ساتھ قوم عرب کے کلام میں ہر گز نہیں آتی اور رہی قرأت بالنصب یہ بھی مسح ہی واجب کرتی ہے ۔ مزید اطمینان کے لیے تفسیر خازن (لباب التاویل) مطبوعہ مطبعۃ المکتبۃ التجارتیہ الکبریٰ مصر الجزء الثانی ص ۱۶ پر دیکھیں ۔ فتوحات مکیہ مطبوعہ مصر جلد اول ص۴۴۸ شیخ محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ اَرْجُلَکُمْ  کے لام پر زَبر اس کو حکم مسح سے خارج نہیں کرتی ۔ پس تحقیق یہ وائو معیت کا قرار پائے گا اور معیت کا وائو نصب دیتا ہے جیسا کہ بولتے ہیں ’’قَامَ زَیْدٌ وَعَمْرًا‘‘ یعنی کھڑا ہوا زید ساتھ عمر کے اسی طرح اَرْجُلِکُمْ بِرُؤُسِکُمْ کے ساتھ حکم مسح میں آیا ہے۔ محمدﷺکے محبوب نواسے جنہوں نے اپنے نانا رسولﷺ سے قرآن سنا اور پڑھا رسولﷺ ہی سے وضوء سیکھا وہ قرآن کی آیت وضوء میں ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ پڑھتے تھے یعنی حسنین   علیہما السلام کی قرأت میں لام پر زبر نہیں بلکہ زیر ہے ۔ دیکھئے تفسیر ’’جامع البیان‘‘ علامہ ابن جریر مطبوعہ دار المعارف الجزء العاشر (صحابہ ﷢ بھی حسنین علیہما السلام کی  طرح مندرجہ بالا کے مطابق تھے) ۔ تفسیر ’’فتح البیان‘‘ علامہ اہل حدیث نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی مطبوعہ صدیقی بھوپال الجزء الاوّل تفسیر سورۃ المائدہ ص ۲۹۳--- علاوہ اسی سلسلہ میں اردو تفسیر ترجمان القرآن مطبوعہ صدیقی لاہور جلد ۳ ص ۸۴۲ --ــ- اور تفسیر کبیر فخر الدین رازی مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۶۸ میں صحابہ﷢ اور امام باقر ﷤ کے نزدیک پائوں کا مسح ہی واجب ہے ۔ حضرت رسول خدا  ﷺ نے پائوں کے مسح کا حکم دیا (نمبر۱) اصابہ۔ فی تمییز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مصر جلد اوّل ص ۱۹۲ ترجمہ تمیم بن زید (نمبر۲) تفسیر ابن جریر طبری مطبوعہ دار المعارف مصر جلد نمبر ۱۰ ص ۷۵ (نمبر۳) شرح معانی الآثار طحاوی مطبع الاسلامیہ لاہور ۔ جلد اول ص ۲۱ (نمبر۴) نیل الاوطار شوکانی جلد اول ص ۲۱۴ (نمبر۵) کنز العمال علامہ علی متقی بن حسام الدین مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن مسند تمیم بن زید حدیث نمبر ۲۱۹۳ ص ۱۰۲ ۔ (نمبر۶) کنز العمال مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن جلد ۵ ، مسند علی  u ص ۱۴۷ حدیث نمبر ۲۴۵۳ اور مسند امام احمد بن حنبل مطبوعہ مصر جلد اول ص ۱۱۶ ۔ مسح کا مزید ثبوت عمدۃ التفسیر حافظ ابن کثیر مطبوعہ دار المعارف مصر جلد ۴ ص ۹۷ اور تفسیر معالم التنزیل برحاشیہ تفسیر خازن مطبعۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر الجزء الثانی ص ۱۶ میں دیکھئے۔

ضروری گزارش : رفیع الدین محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن میں ’’دھوؤ‘‘ یا دھو لو کا لفظ ہر گز نہیں لکھا لیکن اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ ۔ ۶۷ء سے کم از کم چالیس برس پہلے کا چھپا ہوا ترجمہ رفیع الدین محدث دیکھا جائے ۔ خیال رہے اگر وضوء صحیح نہ کیا جائے نماز نہ ہو گی ۔ ایک بات یاد رہے کہ ہم پاؤں پہلے اس وقت دھوتے ہیں جب ہمیں شک ہو کہ ناپاک ہیں پھر خشک کر کے مسح کرتے ہیں ۔ یہ تو تھیں آپ لوگوں کی کتابیں اگر بھائی صاحب تسلی نہ ہو تو جواب ضرور دیں ۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد آپ مذہب حقہ امامیہ قبول فرمائیں گے۔ اور اپنی آخرت سنواریں گے۔ بھائی صاحب اگر آپ حق تلاش کر لیں تو میرے حق میں ضرور دعا کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

آپ نے جو تحریر ارسال فرمائی اس کا جواب مندرجہ ذیل ہے بتوفیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ وعونہ ۔

(۱) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’آپ لوگ وضوء میں دونوں پائوں کے مسح کے خلاف اور پائوں دھونے کے قائل ہیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت وضوء پر گرامر کی بحث کرتے ہوئے یہ عذر کرتے ہیں کہ آیت وضوء میں ’’بِرَؤُسِکُمْ ‘‘(یہ لفظ صاحب تحریر نے اسی طرح لکھا ہے) میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے لیکن فخر الدین رازی نے اس عذر کو باطل قرار دیا ہے ‘‘ الخ ۔

تو محترم آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ’’بِرؤوسکم میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے‘‘ والا عذر بالکل پیش نہیں کرتے اور نہ ہی فخر الدین رازی نے اس سین کے نیچے والی زیر کو جوار کی زیر سمجھا نہ کسی سے اس کو نقل کیا اور نہ ہی اس سین کے نیچے والی زیر کو باطل قرار دیا نہ ایک وجہ سے اور نہ ہی کئی وجوہ سے صاحب تحریر پر لازم ہے کہ فخر الدین رازی کی وہ عبارت پیش فرمائیں جس میں انہوں نے ’’بِرُئُ وْسِکُمْ میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے‘‘ والے عذر کو کئی وجوہ سے باطل قرار دیا ہے پھر تاکید ہے کہ فخر الدین رازی کی ایسی عبارت ضرور نقل کریں ۔

(۲) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’محمدﷺکے محبوب نواسے جنہوں نے اپنے نانا رسولﷺ سے قرآن سنا اور پڑھا رسولﷺ ہی سے وضوء سیکھا وہ قرآن کی آیت وضوء میں ’’ اَرْجُلِکُمْ‘ ‘ پڑھتے تھے یعنی حسنین  علیہما السلام  کی قرأت میں لام پر زبر نہیں بلکہ زیر ہے دیکھئے تفسیر ’’جامع البیان‘‘ علامہ ابن جریر‘‘ الخ ۔

تفسیر جامع البیان لابن جریر الطبری کو دیکھا تو اس میں لکھا ہے:

’’ حدثنی الحسین بن علی الصدائی ، قال : ثنا أبی ، عن حفص الغاضری ، عن عامر بن کلیب ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحمٰنِ ، قَالَ : قَرَأَ عَلَیَّ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ رِضْوَانُ اﷲِ عَلَیْہِمَا ، فَقَرَئَ ا (وَأَرْجُلِکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ)’’فَسَمِعَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ‘‘  ذٰلِکَ ، وَکَانَ یَقْضِیْ بَیْنَ النَّاسِ ، فَقَالَ : وَأَرْجُلَکُمْ، ہٰذَا مِنَ المُقَدَّمِ وَالْمُؤَخَّرِ مِنَ الْکَلاَمِ ۔ ۱ھ‘‘۔

صاحب تحریر نے ’’فَسَمِعَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ‘‘  ذٰلِکَ‘‘ الخ والے نہ تو لفظ ہی نقل کئے ہیں اور نہ ہی ان الفاظ کا ترجمہ ذکر کیا ہے ان الفاظ کا مطلب ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس کو (حسنین رضی اللہ عنہما کے أَرْجُلِکُمْ  کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھنے کو) سن لیا حالانکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما رہے تھے تو انہوں نے فرمایا : ’’وَأَرْجُلَکُمْ‘‘ (لام کی زبر کے ساتھ) یہ مقدم اور مؤخر کلام سے ہے (’’وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘ ’’وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ‘‘  پر مقدم ہے مؤخر ذکر ہوا ہے اور ’’وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ‘‘  ’’ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘ سے مؤخر ہے مقدم ذکر ہوا ہے)

تو علی رضی اللہ عنہ نے حسنین رضی اللہ عنہما کے زیر پڑھنے پر وَأَرْجُلَکُمْ  زبر کے ساتھ پڑھ کر لقمہ دیتے ہوئے ان کی اصلاح فرما دی اور مقدم مؤخر والی بات فرما کر واضح فرما دیا کہ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ  سے مراد پائوں کو دھونے کا حکم ہی ہے یاد رہے اس میں ابن عربی صوفی کی واو معیت والی بات کا بھی رد ہو گیا ہے کیونکہ واو معیت کی صورت میں مقدم مؤخر والی بات نہیں بن سکتی۔

اب صاحب تحریر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تحریر میں ’’فَسَمِعَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ‘‘  الخ کے الفاظ اور ان کے ترجمہ کو کیوں ذکر نہ فرمایا ؟

(۳) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’(صحابہ رضی اللہ عنہما بھی حسنین علیہما السلام کی طرح مندرجہ بالا کے مطابق تھے)‘‘

اس عبارت سے پہلے صاحب تحریر نے تفسیر جامع البیان علامہ ابن جریر اور اس عبارت کے بعد تفسیر فتح البیان علامہ اہل حدیث نواب صدیق حسن کا حوالہ دیا ہے لہٰذا صاحب تحریر سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ وہ مندرجہ بالا دونوں تفسیروں یا ان دونوں میں سے صرف کسی ایک ہی تفسیر سے وہ عبارت پیش فرمادیں جس میں ان کے دعویٰ ’’صحابہ رضی اللہ عنہما بھی حسنین علیہما السلام کی طرح مندرجہ بالا کے مطابق تھے ‘‘ کا ذکر ہو ۔

(۴) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’علاوہ اسی سلسلہ میں اردو تفسیر ترجمان القرآن مطبوعہ صدیقی لاہور جلد۳ ص ۸۴۲ اور تفسیر کبیر فخر الدین رازی مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۶۸ میں صحابہ رضی اللہ عنہما اور امام باقر علیہ السلام کے نزدیک پائوں کا مسح ہی واجب ہے‘‘۔

ان دونوں تفسیروں یا ان دونوں میں سے کسی ایک ہی تفسیر سے وہ عبارت پیش کی جائے جس میں یہ ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہما اور امام باقرعلیہ السلام کے نزدیک پائوں کا مسح ہی واجب ہے۔

(۵) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’حضرت رسول خدا ﷺ نے پائوں کے مسح کا حکم دیا‘‘ یہ دعویٰ درج کرنے کے بعد صاحب تحریر نے چھ نمبروں میں کتابوں کے حوالے لکھے ہیں ان سے درخواست ہے کہ ان چھ نمبروں میں درج شدہ تمام کتابوں سے یا ان میں سے کسی ایک ہی کتاب سے اپنے مندرجہ بالا دعویٰ ’’حضرت رسول  خداﷺنے پاؤں کے مسح کا حکم دیا‘‘ کا ثبوت پیش فرمائیں وہ عبارت باللفظ نقل فرمائیں جس میں ہو کہ ’’رسول اللہﷺ نے پائوں کے مسح کا حکم دیا‘‘ بڑی مہربانی ہو گی ۔

(۶) صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’رفیع الدین محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن میں ’’دھوؤ‘‘ یا ’’ دھو لو‘‘ کا لفظ ہر گز نہیں لکھا‘‘ الخ

تو گذارش ہے کہ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے ترجمہ قرآن میں جو لفظ لکھے ہیں وہ آپ ہی نقل فرما دیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

طہارت کے مسائل ج1ص 81

محدث فتویٰ

تبصرے