تشہد میں انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں دو طرح کی احادیث آتی ہیں ایک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دیتے تھے۔ دوسری میں ہے ، نہیں دیتے تھے۔ ان احادیث کی وضاحت کریں اور یہ بھی بتلائیں کہ تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دینی ہے؟
تشہد میں سبابہ انگلی کو حرکت دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے جیسا کے وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث میں یہ لفظ ہیں:
کہ میں دیکھا نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایاپھر اس کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے ''۔
(صحیح سنن النسائی ،ج١، ص۱۹۴)
مولوی سلام اللہ حنفی شرح موطا میں لکھتے ہیں :
" و فيه تحريكها دائما إذا الدعاء بعد التشهد" '' کہ اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا ہے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے''۔
علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
' ' اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری ر ہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے''۔(صفۃ صلوۃ النبی/۱۵۸)
اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا یا اشھد ان الا الہ الا اللہ پر اٹھانا ، اس کے بار ے میں صحیح احادیث کی کوئی لدیل نہیں ملتی جبکہ یہ عمل مذکورہ ہے حدیث کے منافی ہے ۔ جس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔ کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن الزبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے۔ اس کے عالوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عدباللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں لایحر کھا کا لفظ نہیں ہے۔معلوم ہوا یہ لفظ شاذ ہے۔ امام مسلم نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے اسی روایت کو ذکر کیا ہے اس میں بھی لا یحر کھا کا لفظ نہیں ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وائل بن حجر والی روایت کو ابن المقلن، ابن القیم، امام نودی کے علاوہ علامہ ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ صرف اہلدایہ فی تخریج احادیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یحر کھا والے لفظ صرف زائدہ بن قدامہ عاصم بیان کرتا ہے زائد کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد یشیر بیدہ کا لفظ ذکر کتے ہیں ۔ لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔
پہلی بات تویہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشاری والی حدیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بیٹح کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے" فا شار الیھم ان اجلسو ا" ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ تفق علیہ ۔
اس حدیث سے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دیان نہیں تھا جیسا کہ سلام کے جواب میں کرتے تھے۔ بلکہ اشارہ تھا جس میں سمجھ آتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ یہ اشارہ حرکت کے بغر ہو ہی نہیں سکتا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہو گیا کہ ا شارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخلاف قرار دیان درست نہیں ہے۔ اس طرح بعداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ :