سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) داڑھی کا مسئلہ اور مصری علماء

  • 14623
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6329

سوال

(24) داڑھی کا مسئلہ اور مصری علماء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ مصری علماء کا ایک فتویٰ ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ڈاڑھی اپنی پسند کے مطابق رکھ سکتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض مصری علماء کا زیر فطوی قطعاً کتاب وسنت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ فتویٰ ان مصری علماء کے گروپ کا ہے جو احادیث کو عموماً دین کا حصہ اور حجت نہیں سمجھے۔ اس مصری علماء کو جن حضرات نے دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں اسلام اور اسلامی شعائر کا کس قدر احترام پایاجاتاہے؟ ان کی فکر و سوچ ہی نہیں ان کے طور و اطوار، بود و باش اور حرکت و عمل کا ہر زویہ اسلامی تشخص کی بجائے خالصتاً یورپی ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔یہ لوگ کلین شیو، جیسے صلیبی شعائر سے آراستہ ہوتے ہیں اور یورپے کے نقال بن کر اسلام کے بارے میں راہنمائی دیتے ہوئے ( من تشبه بقوم فھو منھم) ( ابو داؤد) کا مصداق ہو جاتے ہیں ۔ زیر نظر فتویٰ ان کے اسی فکر و عمل کا غماز ہے۔ جیسا کہ سائل نے جب ان سے پوچھا کہ وہ لوگ جو ڈاڑھی مسلسل منڈواتے یا کٹواتے ہیں یا اس کی لمبائی کی تحدید کے قائل ہیں کیا وہ گنہگار ہیں اور کیا وہ زنا اور چوری سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟
    جمہوریہ مصری کا مفتی اس کو جواب بھیجتا ہے اس کے چند اقتبا سات ملاحظہ فرمائیں۔
٭    ڈاڑھی کا چھوڑنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ڈاڑھی کی کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے تاکہ ڈاڑھی خوبصورت ہو جائے اور چہرے کے مناسب ہو جائے۔
    بعض فقہاء نے ان احادیث کو وجوب پر محمول کیا ہے جب اکثرعلماء نے ان کو سنت کہا ہے جس پر عمل کرنے سے تو ثواب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والے کو عذاب نہیں ہوتا اور جن لوگوں نے ڈاڑھی مونڈھنے کو حرام قرار دیا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ اب آخر میں فرماتے ہیں ۔
٭    بلکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسا شیو اپنائے جس کو اپنی شکل و شباہت کے لئے بہترسمجھے اور لوگ بھی اسے پسند کریں۔
    مندرجہ بال اقتبا سات سے مفتی مصر کی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عملی طور پر محبت اور علمی پوزیشن کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے حالانکہ شریعت سے معمولی واقفیت رکھنے والے عام آدبھی بھی جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وفات کے وقت تک مکمل ( پوری ) ڈاڑھی رکھی اور پوری زندگی اپنی ڈاڑھی کا ایک بھی بال کبھی نہیں کاٹا جبکہ مفتی مصر صاحب کہہ رہیں کہ دائیں ، بائیں سے اور اوپر سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ڈاڑھی کاٹتے تھے۔ نعوذباللہ ۔
    مفتی مصر نے اپنی ا س بودی دلیل کی بنیاد ترمذی شریف میں آنے والی صرف ایک روایت ( یا خذ من طولھا و عرضھا ) پر رکھی ہے ۔ یہ انتہائی کمزور اور ضعیف ہے لیکن اس کا ضعف معلوم ہونے کے باوجود اس سے استدلال کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر تہمت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی خوبصورت بنانی چاہئے اور چہرے کے مناسب ہونی چہائے۔ اگر سنت رسول کو اختیار کرنے کا معیار یہ قائم کیا جائے گا تو پھر لوگ ڈاڑھی اُسترے سے منڈوا کر دلیل پیش کریں گے اور کرتے ہیں کہ اب خوبصورت اور مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ تو کیا شریعت کی رو سے ایسا درست تسلیم کر لیا جائےگا؟ ہر گز نہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاڑھی بڑھانا عین فطرت ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ۔:

((قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ،))

    '' رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت سے ہیں ۔ ان میں سے مونچھ کا کاٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے ''۔(مسلم)
    بخاری میں صیغہ امر ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

((  خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ))بخارى

  جہاں تک خوبصورتی کا تعلق ہے ، اگر ڈاڑھی کے کاٹنے او رنہ ہونے یا کٹوا کر چھوٹے کرنے کو مفتی صاحب نے خوبصورت گر دانا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ڈاڑھی ہی مرد کی خوبصورتی اور حسن و جمال اور وجہات کی نشانی ہے ۔ شاید ان کی نظر سے مسلم شریف کی یہ روایت نہیں گزری کہ :

((كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ،))مسلم

    '' یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ڈاڑھی مبارک بہت گھنی تھی ''۔
    ڈاڑھی کے کاٹنے سے خوبصورت نہیں بلکہ عورتوں سے مشابہت پیدا ہوتی ہے جو کہ اسلام میں نا جائز ہے۔ ایسی صورت کے رد میں ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ :

((«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»))ابو داود
    '' یعنی اللہ تعالیٰ مردوں پر لعنت کرتا ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کرتا ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں ''۔
    دوسرے اقتباس میں ڈاڑھی کے مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے پہلے تو ڈاڑھی کو سنت کا درجہ دے رہے ہیں کہ فرض اور واجب نہیں ۔ پھریہ کہہ کر جن لوگوں نے داڑھی مونڈنے کو حرام قرارد یا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ( جو کہ بالکل غلط ہے ) اب یہ کہہ کر ڈاڑھی کاٹنے والوں کیلئے راستہ بالکل صاف کر دیا ہے کہ جس طرح چاہیں ڈاڑھی کاٹیں۔ لیکن اگر ڈاڑھی کے وجوب اور فرض ہونے پر مروی احادیث پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ڈاڑھی کے متعلق کتب احادیث میں موجود احادیث میں پانچ صیغے استعمال ہوئے ہیں اور پانچوں ہی امر کے ہیں۔ مثلاً:
    (واعفو ) ( داڑھی کو معاف کرو ) ( اوفوا ) ( داڑھی پوری کرو ) (وفروا ) (ڈاڑھی کافی مقدار میں رکھو ) (ارخو) اور  (ارجو)(ڈاڑھی کو لٹکاؤ)۔
    نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے احادیث میں وارد ہونے والے یہ سب کے سب صیغے امر کے ہیں جو کہ ڈاڑھی کے وجوب اور فرض ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔
    تیسری جگہ یہ کہہ کر بالکل حدیث انکاری ہی کر دیا کہ '' مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسا شیو اپنائے جس کو اپنی شکل و شباہت کیلئے بہتر سمجھے اور لوگ بھی اسے پسند کریں ''۔
    اسلام کے اصولوں پر عمل کا معیار دنیا والوں کی پسندیدگی یا نا پسندیدیگی میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور پسندیدگی میں ہے۔ اس طرح تو وہ تمام لوگ جو اپنی ڈاڑھی اُسترے اور بلیڈ سے منڈواتے ہیں اور اسی کو ہی اپنی شکل و شباہت کیلئے بہتر سمجھتے ہیں اور دین سے نا واقف اور بے بہرہ لوگ بھی ان کو اسی حالت میں پسند کرتے ہیں ۔ اس طرح تو ( ماننا پڑے گا ) کہ وہ تمام لوگ شریعت کی روشنی میں سب افعال سر انجام دے رہے ہیں جو کہ سر اسر شریعت سے مذاق ہے۔
    رہا مسئلہ زانی اور چور سے کس طرح بڑھ کر گناہ گار ہے تو یہ ایک سمجھنے کی بات ہے اور ایک بڑے نگاہ پر تسلسل قائم رہنے کا نتیجہ ہے۔ مثلاً چور تو کبھی کبھار یا ایک آدھ بار چور ی کرتا ہے، زانی سے بھی کبھی کبھار گناہ سرزد ہوتا ہے اور پھر وہ پشیمان بھی ہوتا ہے لیکن ڈاڑھی اور سنت رسول کو روزانہ تیز دھار اُسترے سے کاٹ کر گندگی میں پھینک دیتا ہے۔ اس طرح وہ روزانہ تسلسل سے ایک فرض کو قتل کر کے گناہ گار ہوتا ہے اور وہ ایسا کر کے پشیمان ہونے کے بجائے اس کو درست سمجھتا ہے اور آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھ کر اپنے اس قبیح عمل پر خوش ہوتا ہے جبکہ چور اور زانی کبھی کبھی گناہ کا ارتقاب کرتا ہے۔ اس بناء پر ایسا گنہا جس پر تسلسل سے مداومت اور ہمیشگی اختیار کر لی جائے وہ تمام گناہوں سے بڑھ کر سخت نگاہ بن جاتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے