سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) شرعی جواز کے بغیرکسی جج کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں

  • 14376
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2717

سوال

(276) شرعی جواز کے بغیرکسی جج کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین بابت اس مسئلہ کے کہ محمد اسلم ولد ولایت خان کا نکاح شریعت محمدی کے مطابق مسمات نسرین دختر مجرد خان کے ساتھ مورخہ  ۱۹۹۱-۶-۱۵ ہوا تھا ۔مسمات نسرین بی بی نے میرے  اوپر جھوٹا الزام لگا کر سول جج چونیاں ضلع قصور میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ کر دیا ، جس کا قطعی علم نہ تھا ۔اور اس نے میرے والد کانام بجائے ولایت خان کے  حشمل خان لکھا کر عدالت میں یک طرفہ فیصلہ مورخہ ۹۶-۱۰-۲۸ کو کروا لیا ۔ جس کا قطعی طور پر مجھے علم نہ تھا اورنہ ہی میں عدالت میں حاضر ہوا آیا یہ فسخ نکاح ازروئے شریعت جائز ہے یا نہیں ۔ علاوہ ازیں مسمات نسرین بی بی نے مورخہ ۱۹۹۷ -۲-۲۵ کو مسمی محمد اسحاق ولد ایدھے خاں سے نکاح ثانی کر لیا اب وہ اس کے گھر آباد ہے ۔کیا شریعت محمدی کے مطابق یہ نکاح جائز ہے یا نہیں ۔اور اگر یہ نکاح درست نہیں تو مسمات نسرین و اسحاق پر کونسا جرم عائدہوتاہے اس کی کیا سزا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل فتویٰ فرمائیے ۔ مطلقہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے ؟ (سائل محمد اسلم ولد ولایت خاں موضع کاہنہ نو تحصیل کینٹ ضلع لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ طلاق دینے کا حق صرف شوہر ہی کو حاصل ہے ۔ کوئی بھی دوسرا شخص طلاق دینےکا حق نہیں رکھتا  ، جیسا کہ قرآن مجید میں یہ امر مصرح ہے ۔فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ ... ٤٩﴾ ...الأحزاب

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ... ٢٣١﴾...البقرۃ

ان دونوں آیات مقدسہ میں نکاح وطلاق کی اسناد شوہر ہی کی طرف کی گئی ،لہٰذا ثابت ہوا طلاق کا اختیار صرف شوہر کو حاصل ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»(۱: سنن ابن ماجة:باب طلاق العبد ج۲ ص۵۲ ورواءالخلیل: ج۷ ص ۱۰۸ )

”ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے آقا نے میرا نکاح اپنی ایک لونڈی سے کر دیا تھا،اب وہ ہمارے درمیان تفریق کا ارادہ رکھتاہے تو رسول اللہ ﷺیہ سن کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: لوگو! فلاں آدمی بھی کیا عجیب شخص ہے کہ اپنے لونڈی کا غلام سے نکاح کرنے کے بعد اب اس جوڑے میں تفریق ،یعنی طلاق کا ارادہ باندھ بیٹھا ہے۔یاد رکھو وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا، کیونکہ طلاق دینےکا اختیار صرف شوہر کا ہے ۔

ان آیات کریمہ اور حدیث شریف کی بنیاد پر جمہور علمائے سلف وخلف اس طرف گئے ہیں کہ طلاق بدون گواہوں کی شہادت کے شرعاً واقع ہو جاتی ہے کیونکہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے کسی اور کا نہیں ۔چنانچہ السید  محمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں:

(ذهب جمهور الفقهاء من السلف والخلف إلى أن الطلاق يقع بدون إشهاد، لان الطلاق من حقوق الرجل) (۲: فقه السنة:ج۲ص ۲۲۰)

اس بحث سے ثابت ہوا کہ عام حالات میں طلاق دینے یا نہ دینے کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے کسی دوسرے کو کسے باشد ؟کوئی  حق  حاصل نہیں۔

عورت کے حقوق کا تحفظ

شوہر کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کے حقوق کی  پاسبانی کے پیش نظر شرعاً قاضی کو حسب ذیل پانچ صورتوں میں  بیوی کے مراقعہ پر تنسیخ نکاح کی  ڈگری جاری  کرنے کا اختیار ہے  بشرطیکہ قاضی (جج) شریعت کے قانون انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتاہو اور اپنے منصب رفیع اور اپنی شرعی ذمہ داریوں کا مکمل ادراک بھی رکھتا ہو ۔وہ پانچ صورتیں یہ ہیں ۔

۱: التطلیق لعدم النفقۃ:

فامسک بمعروف اوتسریح باحسان ” کی روشنی میں امام مالک ، امام شافعی  اور امام احمد اس طرف گئےہیں کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کے نان ونفقہ کی ادائیگی میں عمداً کوتاہی  کر رہا ہو یا بوجہ غربت و افلاس کے نفقہ ادا کرنے سے عاجز ہو اور اس کی بیوی ان حالات میں اس کے ساتھ نبھا کے لئے تیار نہ ہو۔

نوٹ: امام ابو حنیفہ کہتےہیں کہ اگر غربت و افلاس کی وجہ سے  خاوند نان و نفقہ سے قاصر ہو تو پھر قاضی کو تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کا حق نہیں ۔

۲: التطلیق للضرر:

امام مالک فرماتے ہیں کہ جب خاوند اپنی بیوی پر ظلم و تعددی کا مرتکب ہو اور اس کو ایسی تکلیف پہنچا رہا ہو جو عورت کی برداشت سے باہر ہو یا اس کو کسی غیر اخلاقی قول و فعل ،یعنی گانا بجانا اور گناہ کے دھندہ پر مجبور کر رہا ہو اور عورت اپنے دعویٰ کے ثبوت میں قابل اطمینان شہادت پیش کردے یا شوہر اقبال جرم کر لے۔اور بیوی ان حالات میں رشتہ ازدواج بحال رکھنے پر تیار نہ ہو۔

۳: التطلیق الضیۃ الزوج

امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے مذہب کے مطابق خاوند اگر گھر سے غائب رہتا ہے (۲) خاوند کی اس غیوبت سے عورت کو تکلیف پہنچتی ہے (۳) خاوند بیوی کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے ۔(۴) بیوی کے شہر میں رہتا ہے ، مگر بیوی کے پاس آنا جانا موقوف کر رکھا ہے اور(۵) اس قطع تعلقی پر ایک عرصہ گزر چکاہے اور بیوی اپنے شوہر کے اس رویہ کی تاب نہیں رکھتی۔

۴:التطلیق لحبس الزوج:

اگر خاوند کسی جرم کے ارتکاب پر تین سال کے لئے جیل چلا گیاہے اور یہ فیصلہ عدالت مجاز کا آخری فیصلہ اور خاوند کوقید ہوئے ایک برس ہوگیا ہے اور اس کی بیوی تنہائی کی زندگی میں تکلیف محسوس کرتی ہے توامام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک وہ عورت تنسیخ نکاح کی ڈگری کے لئے عدالت مجاز میں مرافعہ کر سکتی ہے۔اور قاضی پوری دیانت داری اور غیر جانب داری کے ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور مدعیہ کے شوہر کو سچ مچ با خبر رکھتے ہوئے اور منصب کی جملہ ذمہ داریوں کےادراک کے ساتھ اور قانون  شہادت اور نصاب شہادت کی پابندی میں اور کسی قسم کی ترغیب و تحریص ،رشوت اور انتقامی جذبہ کو تھوکتے ہوئے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر سکتا ہے ۔ان پانچ صورتوں کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے جج کو شریعت اسلامیہ اور اس کا پیش کردہ الہٰی قانون و انصاف اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ وہ لوگوں کی بیویوں کو جھوٹے سچے اور پکے کچے گواہوں کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگریاں جاری کرتاہے ۔یا رشوت لےکر خاوند کی اطلاع بغیر تنسیخ نکاح کی ڈگریاں فروخت کرتا پھرے ایساکرنے والا جج اگر مسلمان ہے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو پھلانگنے والا ہے ،اپنے اوپر ظلم کرنےوالا ہے ، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا باغی ہے مزید برآں بدکاری اور زنا کاری کو فروغ دینے والا ہے اور اس قماش کے جج کی سزا سب کو معلوم ہے،مفتی کی وضاحت کی محتاج نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں  اگر اس فاضل جج نے اسلامی قانون عدل و انصاف کی پوری پابندی کے ساتھ اور محمد اسلم ولد ولایت خان کو سچ مچ باخبر کر کے اور قانون شہادت اور نصاب شہادت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تنسیخ نکاح کی یہ ڈگری جاری کی ہے تو بلا شبہ عنداللہ ماجور بھی ہے بصورت دیگر عند اللہ علی رؤس الخلائق جواب دہی کےلئے تیار رہے۔اور رہا اس کا یہ یک طرفہ اور خاوند کی بے خبری میں کیا ہوا فیصلہ یا تنسیخ نکاح کی یک طرفہ ڈگری تو سائل اپنے اس سوال میں دروغ گوئی اور کذب بیانی کا مرتکب نہیں تو یہ ڈگری عنداللہ و عندالرسول ﷺ ہرگز نافذ نہ ہے لہٰذا نکاح سابق بحال اور قائم ہے کیونکہ خلاف شرع فیصلہ ازروئے قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ مردود ہے ،جیساکہ صحیح بخار ی میں ہے  ام  المومنین حضرت  ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:

(«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ، فَأَقْضِيَ لَهُ بِذَلِكَ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ فَلْيَتْرُكْهَا»بَابُ مَنْ قُضِيَ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ يُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ يُحَرِّمُ حَلاَلًا)(ج 2 ص ۱۰۶۴ و ۱۰۶۵)

کہ میں بھی بہرحال بشر ہوں ، میرے پاس مقدمہ آتا ہے مدعی اور مدعی علیہ میں سے ایک فریق چرب لسان اور تیز طرار ہوتاہے ، میں اس کی چرب لسانی کی وجہ سے اس کو سچا قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہوں ، پس جس کی مرضی ہو تو اس کو لے لے اور چاہے تو اس کو چھوڑ دے ، یعنی میرے اس فیصلہ سے حرام چیز حلال اور حلال چیز حرام نہیں ہو تی ۔

لہٰذا اگر یہ فیصلہ واقعی سائل کی بے خبری اور اس کا موقف سنے بغیر یک طرفہ ہے تو پھر یہ دوسرا نکاح شرعاًنکاح نہیں بلکہ سفاح اور زنا ہے کیونکہ اس صورت میں سائل کا نکاح ازروئے شرع بحال اور قائم ہے اور نکاح پر نکاح قرآن کی نص جلی کے مطابق حرام ہے ،چنانچہ پانچویں پارہ کی پہلی آیت میں فرمایا:

﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ ... ٢٤﴾...النساء

”اور  (حرام کی گئیں ) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیے ہیں“

تفسیر ابن کثیر میں ہے :

(أَيْ: وَحُرِّمَ عَلَيْكُمُ الْأَجْنَبِيَّاتُ الْمُحْصَنَاتُ وهي الْمُزَوَّجَاتُ {إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ}(تفسیر ابن کثیر :ج ۱ ص۵۱۶ )

یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں۔

اس آیت کریمہ کی وجہ سے چونکہ نکاح پر نکاح حرام ٹھہرا یعنی منعقد ہی نہیں ہوا لہٰذا بالفرض  و التسلیم اگر یہ فیصلہ واقعی سائل کی بے خبری میں سنایا گیا ہے   یعنی سچ مچ اس کو اطلاع دے کر عدالت میں حاضر ہو کر اپنا   مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیاتو اس ڈگری کی بنیاد پر دوسرا نکاح محض زنا کاری ہے اور زنا کی سزا اگر زانی اور زانیہ کنوارے ہوں تو ہر ایک کو سو ، سو کوڑے ہیں اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو دونوں کو رجم کیا جاتا ہے اگر ایک فریق کنوارہ اور دوسرا شادی شدہ ہے تو کنوارے کو سو کوڑے اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا جیساکہ بخاری ج۲ کتاب الحدود میں ہے ۔اور جج بھی گناہ میں معاونہ ہونے کی وجہ سے مجرم ہوگااور فاضل جج نے سائل کی طلبی کے نوٹس جاری کئے سمن بھیجے مگر مدعیہ نے عدالت کے اہل کا ر ان کے ساتھ ملی بھگت کر کے سائل کو بے خبر اور جج کو اندھیرے میں رکھا ہے تو اس صورت میں جج عنداللہ بری اور بے گناہ ہے یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ،  جو محض ایک شرعی سوال کا شرعی جواب محض ہے کسی فریق پر فرد جرم عائد کرنا اور توہین عدالت ہرگز  مقصود نہیں۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص699

محدث فتویٰ

تبصرے