سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) شبينہ کی حقیقت

  • 14257
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2235

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک علمی تعاقب کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مھققین اور محدیثین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز تراویں کے بعد باجماعت نوافل پڑھانے شریعت محمدیہﷺ کی رو سے جائز ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی عالم دین رمضان المبارک کی راتوں میں اہتمام کے ساتھ با جماعت نوافل پڑھاتا ہے تو کیا وہ نبی اکرمﷺ کی سنت کی کلاف ورزی کرتا ہے؟ کیا وہ بدعت کرتا ہے یا نہیں؟ شریعت محمدی کی رو سے بدعتی کہلائے گا یا نہیں؟ (سائل: عبدالحفیظ چوک برف خانہ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 صورت مسئولہ میں واضح ہو کر یہاں دو باتیں قابل لحاط ہیں: اول یہ کہ نفل باجماعت ادا کرنا۔ دوسرے یہ کہ نفل نماز کی جماعت کا اہتمام اور اس پر دوام اور اصرار، یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام اور اس پر دوام واصرار۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو یہ بلاشبہ رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری (ص۸۷ج۱) میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ محترمہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا تو جب تہجد کے لئے رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے تو ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ اور اسی طرح صحیح بخاری میں س ۵۸ باب صلوة النوافل جماعة ج ۵۸۱ الخ میں جناب محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے حضرت عتبان بن مالک کا واقعہ منقول ہے۔ ان دونوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نوافل کی جماعت بلا ریب جائز ہے۔ مگر یہ اتفاقی امر ہے جس کی صورت مثلاً یہ ہے کہ ایک آدمی نفل نماز پڑھ رہا ہے اتنے میں ایک دوسرا آدمی دیکھتا ہے کہ مولوی صاحب یا حافظ صاحب نفل نماز پڑھ رہے ہیں وہ بھی شامل ہو جائے تو یہ تو درست ہے۔ لیکن اس کا اہتمام کرنا، اعلانات اور دوسری تشویقات اور ترغیبات کے ذریعہ مردوں اور عورتوں کو اکھٹا کر کے نوافل کوبا جماعت بالدوام ادا کرنانہ صرف جائز نہیں، بلکہ بدعت ہے اور اسی طرح وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے بھی ثابت ہیں۔ صحیح مسلم کے نامور شارح امام نوویؒ نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ آپﷺ نے ان دو نفلوں پر ہمیشگی نہیں فرمائی۔ یعنی یہ آپﷺ کی عادت مستمرہ نہ تھی۔ (صحیح مسلم باب الصلوة اللیل وعدد الرکعات ج۱ص۲۵۴: ج۱ وقفه السنة: ج۱ ص۱۶۴)

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اتفاقی طور پر نوافل باجماعت جائز ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وتر نماز کے بعد دو رکعت نمااز نفل پڑھنے بھی جائز ہیں مگر دوام کے ساتھ نہیں بلکہ کبھی کبھار اور بس۔

اب لیجئے مسئلہ کی دوسری شق، یعنی اس مطلق جواز کے ہونے پر دوام اور ہمیشگی اور وہ بھی مہینی اور وقت کے تعین کے ساتھ پڑھی جانے والے نماز نفل کی باجماعت تکرار تو یہ بلاشبہ جائز نہیں، بلکہ اس پر دوام اور اصرار شائبہ بدعت سے خالی نہیں۔ کیونکہ یہ تقیدات مع اہتمام اس مطلق جواز کو بدعت میں بدل دیتے ہیں۔ جیسا کہ نماز چاشت بلا ریب صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریمﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی پابندی کی وصیت بھی فرمائی تھی۔(ملاحظہ ہو صحیح بخاری: ج۱ص۱۵۷) مگر اس وصیت کے با وصف حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نماز چاشت کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت مجاہد تابعی کا اظہار ہے میں اور عروہ بن زبیر دونوں مسجد میں داخل ہوئے۔

فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَإِذَا النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ صَلَاةَ الضُّحَى، قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ۔ (بخاری: باب کم اعتمی النبیﷺ ج۱ص۲۳۸ وصحیح مسلم مع النووی: ج۱ص۴۰۹)

’’مجاہد کہتے ہیں کہ جب ہم مسجد نبویﷺ میں داخل ہوئے تو جناب عبداللہ بن عمر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کےحجرہ کے پاس تشریف فرما تھے۔ اور اس وقت کچھ لوگ مسجد میں چاشت پڑھ رہے تھے۔ ہم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ان کی اس نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔‘‘

جب کہ یہ نماز متعدد اسانید صحیحہ قویہ سے مروی ہ جیسا کہ اوپر بخاری شریف کے حوالہ سے آپ پڑھ چکے ہیں۔ بایں ہمہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس کو بدعت کیوں کہا۔ بدعت اس لئے کہا کہ نبی کریمﷺ کے عہد سعادت معہد میں اس نماز کو با جماعت ادا کرنے کا دستور نہ تھا۔ جب کہ یہ لوگ اس کو باجماعت ادا کر رہے تھے۔ چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں:

مراده أن اظھارھا والاجتماع لھا بدعة لا أن صلوة الضحی بدعة۔ (صحیح مسلم ج۱ص۴۰۹)

’’حضرت عبداللہ بن عم رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ نماز چاشت کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لئے اجتماع اور اہتمام کرنا بدعت ہے نہ یہ کہ نماز چاشت ہی سرے سے بدعت ہے۔‘‘

امام ابو بکر محمد بن ولید الطرطوشی مالکی لکھتے ہیں:

فَحَمَلَهُ عِنْدَنَا عَلَى أَحَدِ وَجْهَيْنِ: إِمَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَهَا جَمَاعَةً، وَامَّا أَنَّھُمْ یُصَلُّونَھَا مَعَا أَفْذَاذًا عَلَى هَيْئَةِ النَّوَافِلِ فِي أَعْقَابِ الْفَرَائِضِ۔ (کتاب الحودت والبدع: ص۴۰)

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی اس نماز کو یا تو اس لئے بدعت کہا کہ وہ اسے باجماعت پڑھ رہے تھے یا اکیلے اکیلے پڑھ رہے تھے، مگر اس طرح سے جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت تمام نمازی حضرات سنن رواتب کرتے ہیں۔‘‘

(۲) سبحان اللہ۔ اللہ اکبر:

لا الٰہ الااللہ کا وظیفہ اپنے اندر بڑے فضائل رکھتا ہے اور مفسرین نے اس کو باقیات صالحات میں شمار کیا ہے۔ خصوصاً لاالٰہ الااللہ کے وظیفہ کو احادیث میں افضل ذکر قرار دیا گیا ہے۔ جو اضافہ احسان اور بلندی درجات کا مضبوط ترین باعث اور نجات اخروی کا کامیاب ترین ذریعہ ہے۔ مگر اس کے باوصف جب اس وظیفہ کو خاص تقیدات اور تکلفات والتزامات کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہی وظیفہ ہلاکت اور خسران کا ذریعہ قرار پائے گا، جیسا کہ سن دارمی میں بسند صحیح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ کچھ لوگ کوفہ شہر کی مسجد میں سحری کے وقت حلقہ بنا کر کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر اور لاالٰه الااللہ سو سو مرتبہ پڑھ رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا تھا:

فقال فعدوا من سیاتکم فانا ضامن ان لا یضیع من حسناتکم شئی ویحکم یا امة محمدﷺ ما اسرع ھلکتکم ھولاء صحابة نبیکمﷺ متوافرون وھذا ثیابهﷺ لم تبل وانیته لم تکسر وانتم مفتحی باب ضلالة۔ (مسند دارمی بسند صحیح۔ ج۱ باب کراھبة اخذ الرای ص۶)

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الدین کے بعد فرمایا تم اپنی ان کنکریوں پر اپنے گناہوں کو شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہو گی۔ افسوس ہے تم پر اے امت محمدﷺ تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم صحابہ رسولﷺ بکثرت زندہ موجود ہیں۔ ابھی تو رسول اللہﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے، اور آپﷺ کے استعمال میں آنے والے برتن بھی نہیں ٹوٹے۔ کیا تم(اتنی جلدی) ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔‘‘

اور اس طرح اور بھی بہت سے واقعات منقول ہیں مگر لعل کفاية کفاية لمن به ادنی درابة۔

اس ساری گفتگو سے ثابت ہوا کہ عبادت اور طاعت شرع میں جس طرح منقول ہواس کو اسی انداز میں ادا کرناچاہیے۔ یعنی اس کو اس کی اسی ہیئت پر قائم رکھنا چاہیے جس ہیئت میں منقول ہو اگر اس مطلق عبادت اور نیک عمل کوکسی خاص قید کے ساتھ مقید کیا جائے گا ی اس غیر موقت کو موقت بنایا جائےا گا یا اس غیر معین کو معین کیا جائے گا تو وہ لامحالہ بدعت بن جائے گی۔ چنانچہ یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے نماز چاشت کی جماعت کو بدعت قرار دیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے حلقہ باندھ کر اللہ اکبر، سبحان اللہ اور لاالٰہ الااللہ کے ذکر کو بدعت اور گمراہی اور ہلاکت قرار دیا ہے۔

(۳) حضرت امام ابو اسحاق شاطبی غرناطی بدعات کی تعیین اور ان کا رد کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

ومنھا التزام الکیفیات بھيئة الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم وولادة النبیﷺ عیدا وما أشبه ذلک ومنھا التزام العبادات المعينة فی أوقات معينة لم یوھد لھا ذلک التیین فی الشريعة کالتزام یوم نصف من شعبان وقیام ليلة۔ (کتاب الاعتصام للشاطبی: ج۱ص۲۰۰)

’’من جملہ بدعات کے یہ بھی بدعت ہے کہ کسی نیک عمل کی ادائیگی کے لئے کیفیات محصوصہ اور ہیئات معینہ کا التزام کیا جائے۔ جیسا کہ ہیئت اجتماع کے ساتھ ایک آواز میں ذکر کرنا۔ اور حضرت نبی کریمﷺ کے یوم ولادت باسعادت کو عید منانا وغیرہ اور انہی بدعات میں سے ایک یہ بدعت بھی ہے کہ اوقات خاص کے اندر ایسی عبادت معینہ کا التزام کر لینا جن کی ادائیگی کے لئے شریعت نے وہ اوقات معین نہیں کئے۔ جیسے پندرہ شعبان کا روزہ اور اس کی شب کا عبادت کا التزام ہے:

حضرت موصوف ایک دوسرے مقام پر مزید تفصیل کے ساتھ رقم طراز ہیں:

فَإِذَا نَدَبَ الشَّرْعُ مَثَلًا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ، فَالْتَزَمَ قَوْمٌ الِاجْتِمَاعَ عَلَيْهِ عَلَى لِسَانٍ وَاحِدٍ وَبِصَوْتٍ، أَوْ فِي وَقْتٍ مَعْلُومٍ مَخْصُوصٍ عَنْ سَائِرِ الْأَوْقَاتِ؛ لَمْ يَكُنْ فِي نَدْبِ الشَّرْعِ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا التَّخْصِيصِ الْمُلْتَزَمِ، بَلْ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلَافِهِ؛ لِأَنَّ الْتِزَامَ الْأُمُورِ غَيْرِ اللَّازِمَةِ شَرْعًا شَأْنُهَا أَنَّ تُفْهِمَ التَّشْرِيعَ، وَخُصُوصًا مَعَ مَنْ يُقْتَدَى بِهِ فِي مَجَامِعِ النَّاسِ كَالْمَسَاجِدِ؛ فَإِنَّهَا إِذَا ظَهَرَتْ هَذَا الْإِظْهَارَ وَوُضِعَتْ فِي الْمَسَاجِدِ كَسَائِرِ الشَّعَائِرِ الَّتِي وَضَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسَاجِدِ وَمَا أَشْبَهَهَا كَالْأَذَانِ وَصَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَالِاسْتِسْقَاءِ وَالْكُسُوفِ ـ؛ فُهِمَ مِنْهَا بِلَا شَكٍّ أَنَّهَا سُنَنٌ، إِذَا لَمْ تُفْهَمْ مِنْهَا الْفَرْضِيَّةُ، فَأَحْرَى أَنْ لَا يَتَنَاوَلَهَا الدَّلِيلُ الْمُسْتَدَلُّ بِهِ، فَصَارَتْ مِنْ هَذِهِ الْجِهَةِ بِدَعًا مُحْدَثَةً بِذَلِكَ. (الإعتصام ج۱ص۲۲۰)

’’جب شریعت نے کسی چیز کومندوب قرار دیا ہو۔ جیسے مثلاً: اللہ کا ذکر۔ اگر ایک قوم اس کا التزام کرے کہ ایک زبان ہو کر ایک ہی آواز سے ذکر کرنے لگ جاتی ہے یا دیگر اوقات کے علاوہ کسی معلوم اور مخصوص وقت کی پابندی کے ساتھ وہ ذکر کرتی ہے تو شریعت کی ترغیب اس معین تخصیص اور التزام پر ہرگز دلیل نہ ہوگی۔ بلکہ شریعت اس کے خلاف ہو گی۔ کیونکہ جو امور شرعاً لازم نہیں ان کا التزام کرنا دراصل شریعت سازی کا حکم رکھتا ہے (جبکہ شریعت سازی کا حق غیر نبی کو قطعاً حاصل نہیں) بالخصوص جب کہ ان غیر لازم امور کا التزام مساجد کے نامی گرامی ائمہ کرام اپنی مساجد میں شروع کر دیں تو لا محالہ وہ غیر ثابت امور عوام الناس میں کم ازکم  سنت کا درجہ ضرور حاصل کر لیں گے، لہٰذا اس جہت سے یہ امور بلا شبہ قرار پاتے ہیں۔‘‘

امام ممدوح ایک تیسرے مقام پر لکھتے ہیں:

فَإِذَا اجْتَمَعَ فِي النَّافِلَةِ أَنْ يَلْتَزِمَ السُّنَنَ الرَّوَاتِبَ إِمَّا دَائِمًا وَإِمَّا فِي أَوْقَاتٍ مَحْدُودَةٍ وَعَلَى وَجْهٍ مَحْدُودٍ، وَأُقِيمَتْ فِي الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسَاجِدِ الَّتِي تُقَامُ فِيهَا الْفَرَائِضُ، أَوِ الْمَوَاضِعِ الَّتِي تُقَامُ فِيهَا السُّنَنُ الرَّوَاتِبُ؛ فَذَلِكَ ابْتِدَاعٌ.

وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَنْ أَصْحَابِهِ وَلَا عَنِ التَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ فِعْلُ هَذَا الْمَجْمُوعِ هَكَذَا مَجْمُوعًا، وَإِنْ أَتَى مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ تِلْكَ التَّقْيِيدَاتِ، مَشْرُوعًا فِي التَّقْيِيدِ فِي الْمُطْلَقَاتِ الَّتِي لَمْ تَثَبُتْ بِدَلِيلِ الشَّرْعِ تَقْيِيدَهَا رَأْيٌ فِي التَّشْرِيعِ، فَكَيْفَ إِذَا عَارَضَهُ الدَّلِيلُ، وَهُوَ الْأَمْرُ بِإِخْفَاءِ النَّوَافِلِ مَثَلًا (الإعتصام للشاطی: ج۱ص۲۵۴)

’’جب کوئی نفل نماز سنن رواتب(سنن موکدہ) کے التزام کے ساتھ خاص طریقہ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے یا محدود اوقات میں ان مساجد اور مقامات میں باجماعت پڑھی جائے گی، جہاں فرائض اور ونن رواتب ادا کی جاتی ہوں تو یہ نماز بدعت ہوگی۔ کیونکہ ایسی نمازنہ تو رسول اللہﷺ سے مروی ہے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظامؒ سے منقول ہے۔ اور مطلق عبادات میں اپنی طرف سے قیود لگانا دراصل از خود شریعت میں تصرف کرنے کے مترادف ہے۔ یہ حکم تو اس صورت میں سے جبکہ اس خاص نماز کے خلاف شرعی دلیل موجود نہ ہو لیکن یہاں تو اس طرح کی از خود تیار کردہ نماز کے خلاف شرعی دلیل بھی موجود ہے کہ رسول اللہﷺ نے نوافل کو چھپا کر پڑھنے کا حکم دے رکھا ہے، لہٰذا اس صورت میں یہ نماز بالاولیٰ بدعت قرار پاتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص494

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ