السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’انی لا تبرک بابی حنیفة واجی الی قبره فی کل یوم۔ یعنی زائرا۔ فاذا عرضت لی حاجة صلیت رکعتین وجئت الی قبره وسالت الله تعالیٰ الحاجة عنده فما تبعد عنی حتی تقضی‘‘ میں ابوحنیفہ کے ساتھ برکت حاصل کرتا اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا۔ جب مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتا اور ان کی قبر پر جاتا اور وہاں اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا تو جلد ہی میری ضرورت پوری ہوجاتی۔ (بحوالہ تاریخ بغداد) کیا یہ روایت صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت تاریخ بغداد (۱؍۱۲۳) واخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری (ص۸۹) میں ’’مکرم بن احمد قال: نبانا عمر بن اسحاق بن ابراہیم قال: نباتا علی بن میمون قال: سمعت الشافعی۔۔۔‘‘ کی سند سے مذکور ہے۔
اس روایت میں ’’عمر بن اسحاق بن ابراہیم‘‘ نامی راوی کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ’’غیرمعروف۔۔۔‘‘ یہ غیر معروف راوی ہے۔۔۔ (السلسلۃ الضعیفہ ۱؍۳۱ح۲۲)
یعنی یہ راوی مجہول ہے لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔
اس موضوع و مردود روایت کو محمد بن یوسف الصالحی الشافعی (عقود الجمان عربی ص۳۶۳ و مترجم اردو ص۴۴۰) ابن حجر ہیتمی؍ مبتدع (الخیرات الحسان فی مناقب النعمان عربی ص۹۴ و مترجم ص۲۵۵ [سرتاجِ محدثین]) وغیرہمانے اپنی اپنی کتابوں میں بطور استدلال و بطورِ حجت نقل کیا ہے مگر عمر بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق سے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ اسی ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحقیق و انصاف سے دوربھاگنے والے حضرات نے کتبِ مناقب وغیرہ میں کیا کیا گل کھلا رکھے ہیں۔ یہ حضرات دن رات سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ تحقیقی میدان میں ان کےسارے دھوکے اور سازشیں ظاہر ہوجاتی ہیں پھر باطل پرست لوگوں کو منہ چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی۔ مردود روایات کی ترویج کرنے والے ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ شہاب الدین الابشیطی (۸۱۰ھ وفات ۸۸۳ھ) نامی شخص نے (بغیر کسی سند کے) نقل کیا ہے: امام شافعی نے صبح کی نماز امام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس ادا کی تو اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ جب ان سے عرض کیا گیا تو فرمایا: اس قبر والے کے ادب کی وجہ سے دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ (عقود الجمان ص۳۶۳، الخیرات الحسان ص۹۴ تذکرۃ النعمان ص۴۴۰، ۴۴۱ سرتاج محدثین ص۲۵۵) یہ سارا قصہ بے سند، باطل اور موضوع ہے۔
اسی طرح محی الدین القرشی کا طبقات میں بعض (مجہول) تاریخوں سے عدمِ جہر بالبسملہ کا ذکر کرنا بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام شافعی کے امام ابوحنیفہ کی قبر پر جانے والے قصے کا موضوع اور بے اصل ہونا حدیثی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔
دیکھئے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ (ص۳۴۳، ۳۴۴ دوسرا نسخہ ص۳۸۵، ۳۸۶)
جو شخص ایسا کوئی قصہ ثابت سمجھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ قصے کی صحیح متصل سند پیش کرے۔ مجرد کسی کتاب کا حوالہ کافی نہیں ہوتا۔
تنبیہ بلیغ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ کی تعریف و ثنا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے سراسر برعکس امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ پر جرح باسند صحیح ثابت ہے دیکھئے آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم (ص۱۷۱، ۱۷۲ وسندہ صحیح، ۲۰۱، ۲۰۲ وسندہ صحیح) تاریخ بغداد (۱۳؍۴۳۷وسندہ صحیح، ۲؍۱۷۷، ۱۷۸ وسندہ صحیح)
لہٰذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امام شافعی کبھی امام ابوحنیفہ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے ہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب