السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے؟ اور کیا کسی صحابی سے ان کی ملاقات صحیح سند سے ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں علمائے کرام کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہیں تھے۔ ان دونوں گروہوں کے نظریات پر تبصرہ کرنے سے پہلے دو اہم ترین بنیادی باتیں پیشِ خدمت ہیں:
اول: جس کتاب سے جو قول یا روایت بطورِ دلیل نقل کی جائے، اس کی سند صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو، ورنہ استدلال مردود ہوتا ہے۔
دوم: صحیح دلیل کے مقابلے میں تمام ضعیف اور غیرثابت دلائل مردود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو۔
اس تمہید کے بعد فریقین کے نظریات پیشِ خدمت ہیں:
فریق اول: خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
’’النعمان بن ثابت ابوحنیفةالتیمی امام اصحاب الرای وفقیه اهل العراق، رای انس بن مالک وسمع عطاء بن ابی رباح۔۔۔‘‘
یعنی: نعمان بن ثابت، ابوحنیفہ التیمی، اہل الرائے کے امام اور عراقیوں کے فقیہ، آپ نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے۔ (تاریخ بغداد۱۳؍۳۲۳، ۳۲۴ ت۷۲۹۷)
بعد والے بہت سے علماء نے خطیب رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کیا ہے۔
مثلاً دیکھئے العلل المتناہیۃ لابن الجوزی (۱؍۱۲۸ح۱۹۶) بعض لوگوں نے ابن الجوزی کے قول کو دارقطنی کی طرف منسوب کردیا ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ (دیکھئے اللمحات ۲؍۲۹۳)
فریقِ دوم: ابوالحسن الدارقطنی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا ابوحنیفہ کا انس (بن مالک رضی اللہ عنہ) سے سماع (سننا) صحیح ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا: ’’لا ولا رویته، لم یلحق ابوحنیفة احد ا من الصحابة‘‘ نہیں، اور نہ ابوحنیفہ کا انس (رضی اللہ عنہ) کو دیکھنا ثابت ہے بلکہ ابوحنیفہ نے تو کسی صحابی سے (بھی) ملاقات نہیں کی ہے۔ (تاریخ بغداد ج۴ص۲۰۸ ت۱۸۹۵ وسندہ صحیح)
[سوالات السہمی للدارقطنی (ص۲۶۳ ت ۳۸۳)، العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواھیۃ لابن الجوزی (۱؍۶۵تحت ح۷۴)]
معلوم ہوا کہ خطیب بغدادی سے بہت پہلے امام دارقطنی رحمہ اللہ اس بات کا صاف صاف اعلان کرچکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے نہ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور نہ ان سے ملاقات کی ہے۔
تنبیہ: جلیل القدر معتدل امام دارقطنی رحمہ اللہ کا سابق بیان علامہ سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب ’’تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃ‘‘ میں محرف و مبدل ہوکر چھپ گیا ہے۔ (ص۱۰ بتعلیق محمد عاشق الٰہی برنی دیوبندی)
یہ تحریف شدہ متن اصل کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ذیل اللآلی وغیرہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی بذاتِ خود علامہ سیوطی کو حافظ ابن الجوزی کا کلام نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے۔ بہرحال امام دارقطنی سے ثابت شدہ قول کے مقابلے میں سیوطی وابن الجوزی وغیرھماکے حوالے مردود ہیں۔
ان دونوں (خطیب و دارقطنی) کے اقوال میں متقدم واوثق ہونے کی وجہ سے دارقطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
فریقِ اول کی معرکۃ الآراء دلیل: جو لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو تابعی مانتے یا منواتے ہیں وہ ایک معرکۃ الآراء دلیل پیش کرتے ہیں:
محمد بن سعد (کاتب الواقدی) نے (طبقات میں) کہا: ’’حدثنا ابو الموفق سیف بن جابر قاضی واسط قال: سمعت ابا حنیفۃ یقول: قدم انس بن مالک الکوفۃ ونزل النخع وکان یخضب بالحمرۃ، قد رایتہ مرارا‘‘ (عقود الجمان فی مناقب النعمان ص۴۹، الباب الثالث واللفظ لہ، تذکرۃ الحفاظ للذھبی ۱؍۱۶۸ ت ۱۶۳، مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ابی یوسف و محمد بن الحسن للذہبی ص۷، ۸)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ (امام) ابوحنیفہ نے کہا کہ میں نے (سیدنا) انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو کوفہ میں دیکھا۔
عرض ہے کہ اس روایت کا بنیادی راوی سیف بن جابر مجہول الحال ہے۔ اس کی توثیق کسی مستند کتاب میں نہیں ملی، دیکھئے التنکیل بما فی تانیب الکوثری من الاباطیل للمعلمی (ج۱ص۱۷۹ ت ۳۴) تبْصرۃ الناقد (ص۲۱۸، ۲۱۹) واللمحات الی مافی انوار الباری من الظلمات (ج۲ص۲۷۷)
دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن سعد کی کتاب ’’الطبقات‘‘ میں موجود نہیں ہے۔ اسے حاکم کبیر ابواحمد محمد بن احمد بن اسحاق (متوفی۳۷۸ھ) نے درج ذیل سندومتن سے روایت کیا ہے: ’’حدثنی ابوبکر بن ابی عمروالمعدل بیخاری: حدثنی ابوبکر عبداللہ بن محمد بن خالد القاضی الرازی الحبال قال: حدثنی عبداللہ بن محمد بن عبید القرشی المعروف بابن ابی الدنیا: نامحمد بن سعد الھاشمی صاحب الواقدی: ناابوالموفق سیف بن جابر قاضی واسط قال: سمعت ابا حنیفۃ یقول: قدم انس بن مالک الکوفۃ ونزل النخع وکان یخضب بالجھر قدرایتہ مرارا‘‘ (کتاب الاسامی والکنی للحاکم الکبیر ۴؍۱۷۴ باب ابی حنیفۃ)
اس روایت کے راوی ابوبکر بن ابی عمرو کی توثیق نامعلوم ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ سند نہ تو ابن سعد سے ثابت ہے اور نہ امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے، لہٰذا اسے ’’فانہ صح‘‘ کہنا غلط ہے۔
اس کے علاوہ تابعیتِ امام ابوحنیفہ ثابت کرنے والی موضوع روایات اخبار ابی حنیفہ للصیمری وجامع المسانید للخوارزمی و کتبِ مناقب میں بکثرت موجود ہیں جن کا داورومدار احمد بن الصلت الحمانی وغیرہ جیسے کذابین و مجہولین و مجروحین پر ہی ہے۔
ان روایات پر تفصیلی جرح کے لیے التنکیل اور اللمحات کا مطالعہ کریں۔
فریق دوم کی معرکۃ الآراء دلیل: امام معتدل ابواحمد بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ (متوفی۳۶۵ھ) فرماتے ہیں:
’’ثناہ عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز: حدثنی محمود بن غیلان: ثنا المرئی: سمعت اباحنیفة یقول: مارایت افضل من عطاء وعامة مااحدتکم خطاء‘‘ ابوحنیفہ نے فرمایا: میں نے عطاء (بن ابی رباح، تابعی) سے زیادہ افضل کوئی (انسان) نہیں دیکھا اور میں تمہیں عام طور پر جو حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔ (الکامل ۷؍۲۴۷۳، والطبعۃ الجدیدۃ ۸؍۲۳۷ وسندہ صحیح)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (الاسانید الصحیحۃ فی اخبار الامام ابی حنیفہ قلمی ص۲۹۰)
عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی مطلقاً ثقہ ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۴؍۴۵۵)
جمہور محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (الاسانید الصحیحہ ص۱۲۴)
ان پر سلیمانی وابن عدی کی جرح مردود ہے۔ محمود بن غیلان ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ۶۵۱۶)
ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہیں۔ (تقریب التہذیب:۳۷۱۵)
اس روایت کو خطیب بغدادی نے بھی عبداللہ بن محمد البغوی سے روایت کر رکھا ہے۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍۴۲۵وسندہ صحیح)
عبداللہ بن محمد البغوی دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ: ’’حدثنا ابن المقرئی: نابی قال: سمعت ابا حنیفۃ یقول: مارایت افضل من عطاء وعامۃ ما(۱) حدثکم بہ خطا‘‘ (مسند علی بن الجعد۲؍۷۷۷ ح۲۰۶۲، دوسرا نسخہ: ۱۹۷۸وسندہ صحیح)
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔
محمد بن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ ہیں۔ (التقریب:۶۰۵۴)
عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہیں جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ ابویحییٰ عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی فرماتے ہیں: ’’سمعت اباحنیفۃ یقول: مارایت احد اکذب من جابر الجعفی ولا افضل من عطاء بن ابی رباح‘‘ میں نے ابوحنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔ (العلل الصغیر للترمذی ص۸۹۱ وسندہ حسن، مسند علی بن الجعد، روایۃ عبداللہ البغوی ۲؍۷۷۷ح۲۰۶۱، دوسرا نسخہ: ۱۹۷۷وسندہ حسن، الکامل لابن عدی ۲؍۵۳۷، دوسرا نسخہ ۲؍۳۲۷وسندہ حسن، وعنہ البیہقی فی کتاب القراءت خلف الامام ص۱۳۴ تحت ح۳۲۱، دوسرا نسخہ ص۱۵۷ تحت ح۳۴۵ وسندہ حسن)
ابویحییٰ الحمانی صدوق حسن الحدیث ہیں۔ (تحریر تقریب التہذیب ۲؍۳۰۰ ت۳۷۷۱)
باقی سند بالکل صحیح ہے۔
ان صحیح اسانید سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحابی رسول) کو بالکل نہیں دیکھا، ورنہ وہ کبھی نہ فرماتے کہ ’’میں نےعطاء (تابعی) سے افضل کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہے۔ جب امام صاحب نے خود اعلان فرما دیا ہے کہ انہوں نے عطاء تابعی سے زیادہ افضل کوئی انسان نہیں دیکھا تو ثابت ہوگیا کہ انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ہے تفصیل کے لیے کتاب اللمحات الیٰ مافی انوار الباری من الظلمات پڑھ لیں۔
خلاصۃ التحقیق: امام ابوحنیفہ تابعی نہیں ہیں، کسی ایک صحابی سے بھی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں خطیب بغدادی وغیرہ کے اقوال مرجوح و غلط ہیں اور اسماء الرجال کے امام ابوالحسن الدارقطنی کا قول و تحقیق ہی راجح اور صحیح ہے۔ محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی (متوفی۹۰۲ھ) لکھتے ہیں کہ ’’وقسم معتدل کا حمد والدار قطنی وابن عدی‘‘ اور محدثین کرام کا ایک گروہ معتدل ہے جیسے احمد، دارقطنی اور ابن عدی، یعنی یہ تینوں معتدل تھے۔ (المتکلمون فی الرجال ص۱۳۷)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ’’وقسم کالبخاری واحمد وابی زرعة وابن عدی معتدلون منصفون‘‘ اور محدثین کا ایک گروہ مثلاً بخاری، احمد بن حنبل، ابوزرعہ (رازی) اور ابن عدی معتدل و منصف تھے۔ (ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ص۱۵۹)
تنبیہ: حافظ ذہبی نے کتاب ’’الموقظہ‘‘ میں امام دارقطنی کو بعض اوقات متساہل قرار دیا ہے۔ (ص۸۳)
یہ قول خطیب بغدادی و عبدالغنی ازدی و قاضی ابوالطیب الطبری و غیرہم کی توثیق و ثنا کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ دارقطنی، عجلی، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کا متساہل ہونا ثابت نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب