السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں! گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرنا جائز بلکہ ضروری ہے، جیسا کہ دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک تحقیقی مضمون پیش خدمت ہے:
الحمد للہ رب العالمین و الصلوة والسلام علی رسوله الامین، امابعد:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ...﴿٩﴾... سورةالجمعة
’’اے ایمان والو! جب اذان ہو نماز کی دن جمعہ کے، تو دوڑو اللہ کی یاد کو، اور چھوڑ دو بیچنا۔‘‘ (ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی ص۶۶۸)
امد علی لاہوری دیوبندی نے اس آیت کا درج ذیل ترجمہ لکھا ہے:
’’اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو ذکر الہی کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘ (مترجم قرآن عزیز ص۸۸۴، تفسیر محمود ج۳ ص۳۵۹)
عبدالحق حقانی نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا:
’’مسلمانوں! جب جمعہ کے روز نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد کے لئے جلدی چلو اور سودا چھوڑ دو۔‘‘ (تفسیر حقانی ج۷ ص۱۲۵)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے آیت مذکورہ کے ترجمے میں کہا:
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے روز نماز کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو۔‘‘ (بیان القرآن ج۲ جلد ۱۲ ص۶)
شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’اور دوڑنے سے مراد پورے اہتمام اور مستعدی کے ساتھ جانا ہے۔ بھاگنا مراد نہیں۔‘‘ (تفسیر عثمانی ص۷۳۴)
آیت مذکورہ میں (یایھا الذین امنوا) سے مراد المومنین ہیں۔
مشہور مفسر قرآن امام ابوجعفر ابن جریر الطبری السنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’یقول تعالی ذکرہ للمومنین به من عبادہ……‘‘الخ
اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں سے فرماتا ہے۔ الخ (تفسیر طبری ج۲۸ ص۶۵)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے:
’’خاطب اللہ المومنین بالجمعةدون الکافرین……‘‘
اللہ نے جمعہ کے ساتھ مومنین سے خطاب فرمایا ہے، کافروں سے نہیں…… (تفسیر قرطبی ج۱۸ ص۱۰۰)
قاضی ابو بکر بن العربی المالکی نے فرمایا: ’’ظاهر فی ان المخاطب بالجمعة المومنون دون الکفار‘‘ ظاہر یہ ہے کہ جمعہ کے ساتھ المومنون کو خطاب کیا گیا ہے، کفار کو نہیں۔ (احکام القرآن ج۴ ص۱۸۰۲)
حافظ بن کثیر نے فرمایا: ’’وقد امر اللہ المومنین بالاجتماع العبادته یوم الجمعة‘‘ اور اللہ نے جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لیے المومنین کو حکم فرمایا کہ وہ جمع ہو جائیں۔ (تفسیر ابن کثیر نسخہ محققہ ج۱۳ ص۵۵۹)
نیز دیکھئے تفسیر الخطیب الشربینی (ج۴ ص۳۰۵) اور تفسیر السعدی (ج۷ ص۳۸۲)
خطیب شربینی نے لکھا ہے: ’’ای: اقروا بالسنتھم بالایمان‘‘
یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنی زبانوں سے ایمان کا اقرار کیا ہے۔ (تفسیر شربینی ج۴ ص۳۰۵)
مفسرین کی ان تفسیروں سے ثابت ہوا کہ آیت مذکورہ میں المومنین (تمام مومنین) مراد ہیں۔ المومنین میں ال (الف لام) استغراقی ہے لہٰذا جن کی تخصیص دلیل سے ثابت ہے، ان کے علاوہ تمام مومنین مراد ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے فرضیتِ جمعہ پر استدلال کیا ہے۔
دیکھئے صحیح بخاری (کتاب الجمعہ باب فرض الجمعہ قبل ح ۸۷۶)
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے تھے: ’’فامضوا الی ذکر اللہ‘‘ پس اللہ کے ذکر کی طرف چلو۔ (تفسیر ابن جریر طبری ج۲۸ ص۶۵ و سندہ صحیح)
صحابی کی تشریح کے مقابلے میں عینی حنفی کا ’’دوڑنا‘‘ معنی کرنا غلط ہے۔
آیت مذکورہ میں سعی کا معنی ’’دوڑنا‘‘ کرنا آثارِ صحابہ کے بھی خلاف ہے اور دیوبندی اکابر کے بھی خلاف ہے۔
(وذروا البیع) کا جو مفہوم محمد قاسم نانوتوی دیوبندی نے بتایا ہے، غلط ہے لہٰذا اعلاء السنن (۸/۳۱) نامی دیوبندی کتاب کا حوالہ فضول ہے۔
اس آیت کو ذکر کرکے امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۸ھ) نے لکھا ہے: ’’فاتباع طاهر کتاب الله عزوجل یجب ولایجوز ان یستثنی من ظاهر الکتاب جماعة دون عدد جماعة بغیر حجة، ولوکان لله فی عدد دون عدد مراد لبین ذلک فی کتابه او علی لسانه نبیه صلی الله علیه وسلم، فلما عم ولم یخص کانت الجمعة علی کل جماعة فی دار اقامة علی ظاهر الکتاب و لیس لاجد مع عموم الکتاب ان یخرج قوما من جملة بغیر حجة یفزع الیها……‘‘
پھر کتاب اللہ کے ظاہر کی اتباع واجب ہے اور ظاہر کتاب سے بغیر دلیل کے کسی جماعت کو چھوڑ کر کسی جماعت کا استثناء جائز نہیں ہے اور اگر اللہ کی مراد کسی خاص عدد سے ہوتی تو اپنی کتاب یا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر ضرور بیان کر دیتا، جب اس نے (آیت کو) عام کر لیا اور تخصیص نہیں کی تو دارِ اقامت میں ظاہر کتاب کی رو سے ہر جماعت پر جمعہ ضروری ہوا اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ عمومِ کتاب میں سے کسی قوم کو بغیر کسی مضبوط دلیل کے نکاح دے۔ الخ (الاوسط فی السنن والا جماع و الاختلاف ج۴ ص۲۹، ۳۰)
تحقیق مذکور سے ثابت ہوا کہ آیت مذکورہ میںشہری مومنین کے ساتھ دیہاتی مومنین بھی شامل ہیں ۔ جس طرح شہروں میں اذان (نداء) ہوتی ہے، اسی طرح گائوں میں بھی اذان ہوتی ہے لہٰذا جب گائوں میں جمعہ کی اذان دی جائے تو نمازِ جمعہ پڑھنے کے لئے جانا ضروری ہے اور کسی آیت یا حدیث میں گائوں میں نمازِ جمعہ کی اذان کہنے سے منع نہیں کیا گیا لہٰذا بعض کا محمد تقی عثمانی دیوبندی کی کتاب درس ترمذی کا حوالہ دینا فضول ہے۔
سعودی عرب کے چیف جسٹس شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’نماز جمعہ اور خطبہ کے قیام کے لئے کم از کم کتنے آدمیوں کا ہونا شرط ہے؟‘‘
تو انھوں نے جواب دیا:
’’اس مسئلہ میں اہل علم کا بہت اختلاف ہے۔ صحیح تر قول یہ ہے کہ تین آدمیوں کا ہونا کافی ہے۔ ایک امام اور اس کے علاوہ دو اور آدمی۔ جب کسی بستی میں تین ایسے آدمی موجود ہوں جو شرعاً مکلف، آزاد اور اس بستی کے رہنے والے ہوں تو وہ جمعہ قائم کریں، ظہر نہ پڑھیں۔ کیونکہ نماز جمعہ کی مشروعیت اور فرضیت پر دلالت کرنے والے دلائل تین اور اس سے زیادہ جتنے بھی آدمی ہوں سب پر عام ہے۔‘‘ (فتاویٰ ج۱ ص۷۳، ۷۴)
سعودی عرب کے مشہور مفتی شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ’’فیدل ذلک علی جواز اقامة الجمعة بالقری و انه لا یشترط لاقامة الجمعة المصر الجامع کما قاله طائفة من العلماء، و ممن ذهب الی جواز اقامة الجمعة فی القری: عمر بن عبدالعزیز و عطاء و مکحول و عکرمة والاوزاعی و مالک و اللیث بن سعد و الشافعی و احمد و اسحاق و کان ابن عمر یمر بالمیاه بین مکة والمدینة فیری اهلها یجمعون فلایعیب علیهم……‘‘ پس یہ اس پر دلیل ہے کہ گاؤں میں جمعہ قائم کرنا جائز ہے اور جمعہ قائم کرنے کے لئے مصر جامع کی شرط نہیں ہے جیسا کہ علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے۔
عمر بن عبدالعزیز، عطاء، مکحول، عکرمہ، اوزاعی، مالک، لیث بن سعد، شافعی، احمد اور اسحاق گاؤں میں نماز جمعہ قائم کرنے کے جواز کے قائل تھے اور ابن عمر (رضی اللہ عنہ) مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی والی جگہوں پر لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو ان پر انکار (یعنی ان کا رد) نہیں کرتے تھے۔ (شیخ ابن ثیمین کی شرح صحیح بخاری ج۲ ص۵۶۸، ۵۶۹)
امام مالک (بن انس رحمہ اللہ) نے فرمایا: مکہ اور مدینہ کے درمیان پانیوں کے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ (رضی اللہ عنھم) جمعہ پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲ ح۵۲۰۷۱ و سندہ صحیح)
ابن ہمام حنفی کا ایک قول: ’’ان قوله تعالی﴿فاسعوا الی ذکر الله﴾ لیس علی اطلاقه اتفاقا بین الائمة اذلا یجوز اقامتها فی البوادی اجماعا‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ کا قول ﴿فاسعوا الی ذکر اللہ﴾ مطلق (یعنی عام) نہیں آئمہ کے درمیان متفقہ طور پر جبکہ دیہات میں جمعہ کا قائم کرنا اجماعاً جائز نہیں۔‘‘
اس قول کے سلسلے میں تین باتیں پیش خدمت ہیں:
۱: ابن ہمام حنفی نے ائمہ کے اتفاق کا ثبوت پیش نہیں کیا۔
۲: البوادی کا اردو ترجمہ ’’یہات‘‘ تو غلط ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے اور صحیح ترجمہ جنگل، صحرا ہے لیکن ابن ہمام نے جنگل صحرا میں جمعہ کے ناجائز ہونے پر اجماع کا ثبوت پیش نہیں کیا اور اس جعلی اجماع کے رد کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ کا مذکورہ بالا ایک حوالہ ہی کافی ہے۔ کیا خیال ہے؟ اگر امیر المومنین اپنی فوج کے ساتھ جنگل یا صحرا میں نمازِ جمعہ پڑھ لیں تو حنفیوں کے نزدیک یہ نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
۳: بوادی کا ترجمہ دیہات غلط ہے۔ بوادی کا واحد بادیہ ہے جو کھلے جنگل کو کہتے ہیں۔ دیکھئے لغت کی کتاب القاموس الوحید (ص۱۵۵)
ابوبکر الجصاص حنفی نے دعویٰ کیا ہے کہ بوادی اور مناہل الاعراب میں جمعہ جائز نہیں ہے۔
اس قول کے سلسلے میں چار باتیں پیش خدمت ہیں:
۱: بوادی دیہات کو نہیں بلکہ کھلے جنگل کو کہتے ہیں لہٰذا گاؤں میں جمعہ کے خلاف یہ قول پیش کرنا غلط ہے۔
۲: مناہل کا واحد منھل ہے جو پانی کے گھاٹ اور جنگل میں مسافروں کی منزل پڑاؤ کو کہتے ہیں۔ دیکھئے القاموس الوحید (ص۱۷۱۸)
لہٰذا قول مذکور کا تعلق گاؤں سے نہیں ہے۔
۳: امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحابۂ کرام مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہوں (گھاٹ) کے پاس نماز جمعہ پڑھتے تھے۔ حوالہ اوپر گزر چکا ہے۔
لہٰذا اجماع کا دعویٰ باطل ہوا۔
۴: اگر خلیفۃ المسلمین جنگل اور گھاٹ پر جمعہ پڑھے تو علماء کے ایک گروہ کے نزدیک جمعہ صحیح ہے لہٰذا اجماع کا دعویٰ باطل ہوا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گاؤں میں بھی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ہر گاؤں میں ایک آدھ دکان ضروری ہوتی ہے جہاں سے لوگ اپنی ضروریات زندگی کی اشیاء خریدتے ہیں۔ زمینوں پر جو فصلیں اگتی ہیں مثلاً گندم وغیرہ، ان کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے لہٰذا (وذروا البیع) کے حکم میں دیہات بھی شامل ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ دیہات میں ہر چیز نہیں ملتی تو عرض ہے کہ بعض شہروں میں بھی ہر چیز نہیں ملتی بلکہ ان شہروں کے باشندے دوسرے شہروں میں جاکر مطلوبہ چیزیں خریدتے ہیں مثلاً حضر و شہر میں بہت عرصہ تک کارپٹ نہیں ملتا تھا تو لوگ اٹک شہر جاتے تاکہ کارپٹ خریدیں۔ بعض اوقات ایک چیز اٹک میں بھی نہیں ملتی تو لوگ وہ چیز خریدنے کے لئے راولپنڈی، اسلام آباد یا پشاور وغیرہ چلے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ آیت جمعہ سے دیہاتیوں کا استثناء کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔
اجماع بھی شرعی حجت ہے لہٰذا جس کی تخصیص اجماع سے ثابت ہے وہ ٹھیک ہے لیکن یاد رہے کہ آیت مذکورہ کے عموم سے دیہاتی کا خارج ہونا اجماع سے ثابت نہیں ہے۔
سیدنا طارق بن شہاب صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جماعةالا اربعة: عبد مملوک، او امراة اوصبی او مریض»
ہر مسلم پر جماعت کے ساتھ جمعہ حق اور واجب ہے سوائے چار کے: زرخرید غلام، عورت، بچہ یا مریض۔ (سنن ابی داود: ۱۰۶۷، اس کی سند طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ تک صحیح ہے۔)
روایت مذکورہ کے بارے میں امام ابوداود نے فرمایا: طارق بن شہاب (رضی اللہ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ سے کچھ بھی نہیں سنا۔(سن ابی داود ص۱۶۸)
علامہ نووی نے الخلاصہ میں کہا: اور (ابوداود کا) یہ قول حدیث کے صحیح ہونے پر جرح نہیں کرتا کیونکہ یہ صحابی کی مرسل ہے اور یہ حجت ہے اور (یہ) حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔ (نصب الرایہ ج۲ ص۱۹۹)
مزید عرض ہے کہ مرسل صحابی کے بارے میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:
’’وقد اتفق المحدثون علی انه فی حکم الموصول‘‘ اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ موصول کے حکم میں ہے۔ (ہدی الساری ص۳۵۰، الحدیث الثالث من کتاب الطہارۃ)
نیز دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (۱/۱۵۸، ۱۵۹) اور مقدمہ ابن الصلاۃ (ص۷۵)
محمد عبیداللہ الاسعدی نے مرسل صحابی کے بارے میں لکھا ہے:’’جمہور کے نزدیک مقبول و لائق احتجاج ہے۔‘‘ (علوم الحدیث ص۱۳۷، اس کتاب پر حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی کی تقریظ ہے۔)
خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث صحیح ہے۔ والحمدللہ
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ استثناء والے اشخاص کے علاوہ ہر شخص پرجمعہ واجب ہے اور اس میں دیہاتی کا استثناء کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «علی کل محتلم رواح الجمعة» الخ ہر بالغ پر جمعہ کے لئے جانا ضروری ہے۔ (سنن ابی داود: ۳۴۲ و سندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ: ۱۷۲۱، و ابن حبان [الاحسان]: ۱۲۱۷)
اس روایت سے بھی ثابت ہے کہ ہر بالغ شہری اور دیہاتی پر جمعہ ضروری ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ففرض الجمعة واجب علی کل بالغ‘‘ اور ہر بالغ پر جمعہ فرض ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ ج۳ ص۱۱۱ ح۱۷۲۱)
محتلم سے ہر بالغ مراد ہے، چاہے وہ شہر میں رہتا ہو یا گاؤں میں اور جس کی تخصیص دلیل سے ثابت ہو جائے مثلاً بالغ غلام اور مسافر تو وہ اس کے عموم سے خارج ہے لیکن یاد رہے کہ دیہاتی کی تخصیص کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا: «لینتهین اقوام عن ودعهم الجمعات او لیختمن الله علی قلوبهم ثم لیکونن من الغافلین»
لوگوں کو جمعے (جمعہ کی نمازیں) ترک کرنے سے رکنا چاہئے یا اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔ (صحیح مسلم: ۸۶۵، ترقیم وارالسلام: ۲۰۰۲)
سیدنا ابو الجعد الضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من ترک ثلاث جمع تهاونا بها طبع اللہ علی قلبه»
جو شخص سستی کرتے ہوئے اور حقیر سمجھتے ہوئے تین جمعے ترک کر دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (سنن ابی داود:۱۰۵۲، و سندہ حسن و حسنہ الترمذی: ۵۰۰ و صححہ ابن خزیمہ: ۱۸۵۷، و ابن حبان [الموارد: ۵۵۳، ۵۵۴] والحاکم علی شرط مسلم ۱/۲۸۰ووافقہ الذہبی)
سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من ترک الجمعة ثلاث مرار من غیر عذر طبع الله علی قلبه» جو شخص عذر کے بغیر تین دفعہ جمعہ ترک کر دے تو اللہ اس کے دل پر (نفاق کی) مہر لگا دیتا ہے۔ (مسند احمد ۳/۳۳۲، و سندہ حسن واللفظ لہ، ابن ماجہ: ۱۱۲۶، وصححہ ابن خزیمہ: ۱۸۵۶، والبوصیری فی زوائد ابن ماجہ)
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص کسی ضرورت کے بغیر تین جمعے ترک کر دے تو اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ (مسند احمد ج۵ ص۳۰۰ و سندہ حسن، شرحمشکل الآثار للطحاوی ج۸ ص۲۱۰ ح۳۱۸۴)
سیدنا عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی ہلاکت ان لوگوں کے ہاتھوں پر بیان فرمائی جو «یدعون الجماعات و الجمع» نماز باجماعت اور جمعہ پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ (کتاب المعرفہ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ج۲ ص۵۰۷ و سندہ حسن، شعب الایمان للبیہقی ج۴ ص۴۲۱ ح۲۷۴۹،نسخہ محققہ وقال المحقق: اسنادہ حسن)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو جمعہ سے پیچھے رہتے تھے: «لقد هممت ان آمر رجلا یصلی بالناس ثم احرق علی رجال یتخلفون عن الجمعة بیوتهم»
میں نے یہ ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔ (صحیح مسلم: ۶۵۲، دارالسلام، ۱۴۸۵)
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ حق واجب ہے سوائے چار کے: زرخرید غلام، یا عورت، یا بچہ یا مریض۔ (المستدرک للحاکم ج۱ ص۲۸۸ ح۱۰۶۲ و صححہ علی شرط الشیخین وقال الذہبی: صحیح)
اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے شاذ قرار دیا ہے لیکن اس کے سارے راوی ثقہ ہیں اور حاکم و ذہبی دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ اصولِ حدیث کا یہ مسئلہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادت معتبر ہوتی ہے۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
’’اور تمام محدثین کا اس امر میں اتفاق ہے کہ ثقہ کی زیادت قابل قبول ہے۔‘‘ (احسن الکلام طبع دوم ج۱ ص۱۹۳، باب دوم پہلی حدیث)
ان دس دلائل اور دیگر دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان پر نماز جمعہ فرض ہے، سوائے ان کے جن کی تخصیص یا استثناء دلیل کے ساتھ ثابت ہے۔ درج ذیل معذورین کی تخصیص دلائل کے ساتھ ثابت ہے:
۱: غلام
۲: عورت
۳: نابالغ بچہ
۴: بیمار
۵: مسافر
۶: شرعی عذر مثلاً بارش وغیرہ
۷: خوف
لیکن کسی ایک دلیل میں بھی دیہاتی کا استثناء یا تخصیص ثابت نہیں لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شہری اور دیہاتی پر جمعہ فرض ہے، سوائے ان کے جن کی تخصیص ثابت ہے۔
ان دلائل مذکورہ کے بعد اب آثارِ سلف صالحین پیش خدمت ہیں:
۱) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’من ترک الجمعة ثلاث جمع متوالیات فقد نبذ الاسلام وراء ظهره‘‘ جس شخص نے لگاتار تین جمعے ترک کر دیئے تو اس نے اسلام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ (مسند ابی یعلی ج۵ ص۱۰۲ ح۲۷۱۲ و سندہ صحیح وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد ۱۹۳/۲: ’’ورجالہ رجال الصحیح‘‘ وقال المنذری فی الترغیب و الترہیب ج۱ ص۵۱۱ ح۱۰۸۲ ’’رواہ ابو یعلی موقوفا باسناد صحیح‘‘)
۲) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’انهم کتبوا الی عمر یسالونه عن الجمعة فکتب: جمعوا حیث کنتم‘‘ لوگوں نے (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) کی طرف لکھا، وہ جمعہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو انھوں نے لکھ بھیجا: تم جہاں بھی ہو جمعہ پڑھو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲ ح۵۰۶۸ و سندہ صحیح)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ (بہت سے) لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جمعہ پڑھنے کا مسئلہ پوچھا تھا تو انھوں نے لوگوں کو حکم دیا: تم جہاں بھی ہو نمازِ جمعہ پڑھو۔ اس اثر پر امام ابن ابی شیبہ نے درج ذیل باب باندھا ہے:
’’من کان یری الجمعة فی القری وغیرها‘‘ جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: تحقیق محمد عبدالسلام شاہین ج۱ ص۴۴۰)
یعنی محدثین کرام نے اس اثر سے یہ ثابت کیا ہے کہ گاؤں وغیرہ میں جمعہ پڑھنا چاہئے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا: ’’وھذا یشمل المدن والقری‘‘
اور یہ شہروں اور گاؤں پر مشتمل ہے۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۰ تحت ح۸۲۹)
یعنی اس فاروقی حکم سے مراد شہر بھی ہیں اور گاؤں بھی ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ لوگ شہروں میں بھی رہتے تھے اور دیہات وغیرہ میں بھی رہتے تھے اور اس اثر میں صرف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سوال نہیں بلکہ بہت سے لوگوں نے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔
امام ابوبکر بن ابی شیبہ اور حافظ ابن حجر العسقلانی کی اس تشریح کے مقابلے میں عینی حنفی کی تاویل باطل ہے۔
۳) امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی والی جگہوں پر رہنے والے لوگوں کی طرف عمر بن عبدالعزیز (رحمہ اللہ) نے لکھا بھیجا تھا کہ نمازِ جمعہ پڑھو۔ (مصنف عبدالرزاق ج ۳ ص۱۶۹ ح۵۱۸۱ و سندہ صحیح)
اس اثر کے بعد امام عبدالرزاق نے بغیر کسی سند کے لکھا ہے کہ عطاء نے فرمایا:
ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ مصر جامع کے علاوہ جمعہ نہیں ہے۔ (ایضاً ص۱۶۹)
اس کی سند منقطع اور بے سند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
۴) امام زہری رحمہ اللہ (تابعی) سے امام معمر بن راشد نے ایسے گاؤں کے بارے میں پوچھا جو جامعہ نہ ہو (یعنی چھوٹا گاؤں ہو) جس میں لوگ جمعہ پڑھتے ہیں، کیا میں ان کے ساتھ جمعہ پڑھوں اور قصر کروں؟ تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں! (مصنف عبدالرزاق ج۳ ص۱۷۰ ح۵۱۸۸ و سندہ صحیح)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام زہری کے نزدیک چھوٹے گاؤں میں بھی جمعہ پڑھنا جائز ہے۔
۵) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں عبدالدائم جلالی دیوبندی نے لکھا ہے:
’’اور آپ کا مکان بصرہ سے دو میل کے فاصلے پر زاویہ نای گاؤں میں تھا۔‘‘ (صحیح بخاری: مطبوعہ المکتبۃ العربیہ اقبال ٹاؤں لاہور ج۱ ص۵۰۹ قبل ح ۸۶۰)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے کہ ’’احیانا یجمع و احیانا لا یجمع‘‘ آپ بعض دفعہ جمعہ پڑھتے تھے اور بعض دفعہ جمعہ نہیں پڑھتے تھے۔ (قبل ح۹۰۲)
جمعہ نہ پڑھتے تھے کی تشریح میں عبدالدائم جلالی نے لکھا ہے:
’’(بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں آکر پڑھتے تھے)‘‘ (صحیح بخاری مترجم ج۱ ص۵۰۹)
حافظ ابن حجر نے اس اثر کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ای یصلی بمن معه الجمعة او یشهد الجمعة بجامع البصره‘‘
یعنی آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جمعہ پڑھ لیتے یا بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھتے تھے۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۵ تحت ح۹۰۲)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ زاویہ (نامی ایک گاؤں) میں عید کی نماز پڑھتے تھے۔
دیکھئے صحیح بخاری (قبل ح ۹۸۷ کتاب العیدین باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین)
جب عید کی نماز گاؤں میں جائز ہے تو جمعہ بدرجۂ اولیٰ جائز ہے۔
۶) امام مالک رحمہ اللہ نے بتایا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی والی جگہو کے پاس صحابہ (راضی اللہ عنہم اجمعین) جمعہ پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲، و سندہ صحیح الی الامام مالک)
۷) امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ’’باب الجمعة فی القری و المدن‘‘ باندھ کر یہ اشارہ کیا ہے کہ گاؤں اور شہروں میں جمعہ جائز ہے۔
مذکورہ باب کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (مع فتح الباری ج۲ ص۳۷۹)
۸) حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:
’’وعند عبدالرزاق باسناد صحیح عن ابی عمر انه کان یری اهل المیاه بین مکة و المدینة یجمعون فلایعیب علیهم‘‘ اور صحیح سند کے ساتھ عبدالرزاق کی روایت ہے کہ ابن عمر (رضی اللہ نہ) مکے اور مدینے کے درمیان پانی والی جگہوں پر رہنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے۔(فتح الباری ج۲ ص۳۸۰)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جس روایت میں آیا ہے کہ ’’اذا کان علیهم امیر فلیجمع‘‘ جب ان پر کوئی امیر ہو تو جمعہ پڑھائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۷۸/۳)
اس کی سند مولیٰ لآل سعید بن العاص کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
نیموی نے لکھا ہے: ’’قلت: اسناد مجھول‘‘ میں نے کہا: اس کی سند مجہول ہے۔ (آثار السنن ص ۴۵۳ تحت ۸۹۹)
۹) دو صحیح اور حسن لذاتہ حدیثوں پر امام ابوداود نے باب باندھا ہے:
’’باب الجمعة فی القری‘‘ گاؤں میں جمعے کا باب (سنن ابی داود ص۱۶۸، قبل ح۱۰۶۸)
اور امام ابوداود نے گاؤں میں جمعہ نہ ہونے پر کوئی باب نہیں باندھا لہٰذا ثابت ہوا کہ امام ابوداود گاؤں میں نمازِ جمعہ کے جوازیا وجوب کے قائل تھے۔
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے اس باب کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ای حکم الجمعة فی القری فتجب علی اهل القری ان یجمعوا فیها‘‘
یعنی دیہات میں جمعہ کا حکم پس دیہاتیوں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ الخ (بذل المجہود ج۶ ص۴۴ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
۱۰) عطاء بن ابی رباح (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اذا کانت قریة لازقة بعضها ببعض جمعوا‘‘ اگر ایسا گاؤں ہو، جس کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں تو وہ جمعہ پڑھیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ مطبوعہ: مکتبۃ الرشد الریاض ج۲ ص۵۳۸ ح۵۱۰۸ و سندہ حسن، مصنف ابن ابی شیبہ: نسخہ محمد عوامہ ج۴ ص۴۸ ح۵۱۱۰)
اس اثر کے راوی معقل بن عبید اللہ الجزری رحمہ اللہ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔
اس اثر پر امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے ’’من کان یری الجمعة فی القری وغیرها‘‘ کا باب باندھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ گاؤں میں جمعہ جائز یا واجب ہے۔
اب بعض الناس کے بعض اعتراضات اور شبہات کے جوابات پیش خدمت ہیں:
۱) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ ’’جواثاء قریة من قری البحرین، قال عثمان: قریة من قری عبدالقیس‘‘ بحرین کے گاؤں میں سے ایک گاؤں جواثا، عثمان (بن ابی شیبہ) کی روایت کے مطابق: عبدالقیس (قبیلے) ک گاؤں میں سے ایک گاؤں میں پڑھا گیا۔ (سنن ابی داود: ۱۰۶۸)
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور عثمان بن ابی شیبہ پر بعض الناس کی جرح مردود ہے۔ عثمان مذکور رحمہ اللہ صحیحین، سنن ابی داود، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کے راوی تھے۔
صحیح بخاری میں ان کی تقریباً اکسٹھ (۶۱) روایتیں موجود ہیں۔
دیکھئے مفتاح صحیح البخاری (ص۱۱۶، ۱۱۷)
جمہور محدثین نے انھیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے اور ایسے راوی پر جرح مردود ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ محمد بن عبداللہ المخرمی نے بھی جواثا کو قریہ (گاؤں) کہا ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود (مجلد واحد طبع دارالسلام ص۱۶۲)
امام بہقی کی کتب السنن الکبریٰ میں عبداللہ بن المبارک عن ابراہیم بن طہمان کی روایت میں بھی ’’بجواثا قریۃ من قری عبدالقیس‘‘ لکھا ہوا ہے۔ (دیکھئے ج۳ ص۱۷۶)
ملوم ہوا کہ عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ پر یہاں اعتراض سرے سے مردود ہے اور یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ راویٔ حدیث کی روایت یا تشریح کے مقابلے میں معجم البکری ہو یا کوئی دوسرا مثلاً ابو الحسن للخمی وغیرہ ہو، اس کی بات ہمیشہ مردود ہوتی ہے۔
عثمان بن ابی شیبہ کے بارے یمں بعض الناس نے پرائمری ماسٹر محمد امین اوکاڑوی دیوبندی کی کتاب تجلیاتِ صفدر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’جواثی کے بارے میں قریہ (گاؤں) کا لفظ سنن ابوداود میں عثمان بن ابی شیبہ کا ہے جو کہ خود ضعیف راوی ہیں (میزان الاعتدال بحوالہ تجلیات صفدر)‘‘
عرض ہے کہ میزان الاعتدال میں عثمان مذکور کو ضعیف نہیں بلکہ ’’صح‘‘ لکھا ہوا ہے۔ (دیکھئے ج۳ ص۳۵ ت۵۵۱۸)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ جس کے ساتھ ’’صح‘‘ کی علامت لکھیں تو وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ دیکھئے حافظ ابن حجر کی کتاب لسان المیزان (ج۲ ص۱۵۹، دوسرا نسخہ ج۲ ص۲۸۹)
حافظ ذہبی نے اپنی دوسری مشہور کتاب میں عثمان مذکور کے بارے میں لکھا ہے:
’’لاریب انه کان حافظا متقنا‘‘ الخ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ متقن (ثقہ) حافظ تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ج۱۱ ص۱۵۲)
عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ سے قرآن مجید کا غلط طور پر پڑھنا باسند صحیح ثابت نہیں ہے اور اس سلسلے کی ساری روایات ضعیف و مردود ہیں۔
دوسرے یہ کہ دوسرے دو ثقہ راویوں نے بھی قریہ (گاؤں) کا لفظ روایت کیا ہے لہٰذا ثقہ راوی پر جرح سرے سے مردود ہے۔ والحمدللہ
جواثا شہر نہیں بلکہ گاؤں تھا اور یہ عین ممکن ہے کہ بعد میں شہر ہوگیا ہو۔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے: ’’مع احتمال ان تکون فی الاول قریة ثم صارت مدینة‘‘ اس احتمال کے ساتھ کہ یہ پہلے گاؤں ہو اور بعد میں شہر ہوگیا ہو۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۱ تحت ح۸۹۲)
حافظ ابن حجر کے مقابلے میں چودھویں صدی کے نیموی تقلیدی اور درس ترمذی (۲۶۸/۲) وغیرہما کے حوالے بے کار ہیں۔
عینی حنفی کے بارے میں عبدالحئی لکھنوی حنفی نے لکھا ہے: ’’ولولم یکن فیه رائحة التعصب المذهبی لکان اجود واجود‘‘ اور اگر ان میں مذہبی تعصب کی بو نہ ہوتی تو بہت بہتر ہوتا۔ (الفوائد البہیہ ص۲۷۳، محمود بن احمد بن موسیٰ العینی)
۲) سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) اسعد بن زرارہ (رضی اللہ عنہ) نے سب سے پہلے ہمیں ھزم النبیت (کسی بستی) میں مقام نقیع پر جمعہ پڑھایا جو کہ بنو بیاضہ کی زمین میں واقع ہے اسے نقع الخضمات بھی کہتے ہیں۔ (سنن ابی داود ترجمۃ الشیخ ابی انس محمد سرور گوہر قصوری حفظہ اللہ ج۱ ص۳۶۸، ۳۶۹ ح۱۰۶۹، باختلاف یسیر)
ا وقت وہاں صحابہ کی تعداد چالیس (۴۰) تھی۔
دیکھئے سنن ابی داود مع عون المعبود (ج۱ ص۴۱۴)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے، امام المغازی محمد بن اسحاق بن یسار نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (ج۳ ص۱۱۳ ح۱۷۲۴) اور صحیح بن الجارود (المنتقی: ۲۹۱)
اسے ابن خزیمہ اور ابن الجارود کے علاوہ حاکم اور ذہبی دونوں نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ دیکھئے المستدرک والتلخیص (ج۱ ص۲۸۱)
امام بیہقی نے فرمایا: ’’وهذا حدیث حسن الاسناد صحیح‘‘ اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے حسن (اور) صحیح ہے۔ (السنن البکریٰ ج۳ ص۱۷۷)
ہزم النبیت مدینۃ طیبہ کے نزدیک حرہ بنی بیاضہ کا ایک موضع تھا۔
دیکھئے المنہل العذب المورود شرح سنن ابی داود (ج۶ ص۲۱۸، ۲۱۹ واللفظ لہ) عون المعبود (ج۱ ص۴۱۴) اور بذل المجہود (ج۶ ص۵۳)
حرہ بنی بیاضہ کسے کہتے ہیں؟ اس کی تشریح میں عینی حنفی نے فرمایا:
’’هی قریة علی میل من المدینة‘‘ یہ مدینے سے ایک میل کے فاصلے پر ایک گاؤں تھا۔ (شرح سنن ابی داود للعینی ج۴ ص۳۹۵)
نیز دیکھئے بذل المجہود (ج۶ ص۵۳ نقلہ عن العینی) اور عون المعبود (ج۱ ص۴۱۴)
اس حدیث پر درج ذیل محدثین کرام نے گاؤں میں جمعہ کے ابواب باندھے ہیں:
۱: امام ابو داود (قال: باب الجمعۃ فی القری)
۲: بیہقی (قال: باب العدد الذین اذا کانوا فی قریۃ و جبت علیھم الجمعۃ)
محدث ابو سلیمان احمد بن محمد الخطابی (متوفی ۳۸۸ھ) نے فرمایا:
’’وفی الحدیث من الفقه ان الجمعة جواز ها فی القری کجوازها فی المدن والامصار لان حرة بنی بیاضة یقال قریة علی میل من المدینة‘‘
اور (اس) حدیث میں یہ فقہ ہے کہ جس طرح شہروں میں جمعہ جائز ہے، اسی طرح دیہات میں بھی جمعہ جائز ہے کیونکہ حرہ بنی بیاضہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مدینے سے ایک میل کے فاصلے پر گاؤں تھا۔ (معالم السنن ج۱ ص۲۱۱)
محدثین کی ان تصریحات کے مقابلے میں بہت بعد کی تفسیر روح المعانی وغیرہ کے حوالوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بعض الناس نے لکھا ہے کہ ’’صحابہ نے یہ جمعہ اپنے اجتہاد سے فرضیت جمعہ سے پہلے ہی پڑھ لیا تھا۔ یہ جمعہ صحابہ کرامؓ نے اپنے اجتہاد سے پڑھا تھا اور اس وقت جمعہ کے احکام نازل بھی نہیں ہوئے تھے لہٰذا اس واقعہ سے کوئی استدلال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (ایک تقلیدی فتویٰ ص۵، ۶)
عرض ہے کہ صحابہ کا یہ اجتہاد دیوبندی و تقلیدی ’’فقہاء‘‘ کے اجتہادات سے ہزار گنا بہتر ہے۔ دوسرے یہ کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے لیکن آپ نے ان کے اجتہاد کا کوئی رد نہ فرمایا۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ جمعہ ہوگیا تھا یا نہیں؟ جواب دیں۔!
صابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتہادات رد کرکے اپنے تقلیدی دیوبندی اکابر کے اجتہادات منوانا کہاں کا انصاف ہے؟!
یہ کہنا کہ یہ ’’حدیث مرفوع نہیں ہے بلکہ موقوف ہے‘‘ دو وجہ سے مردود ہے:
اول: صحابہ کرام کا یہ عمل اور موقوف رایت تمام حنفی فقہاء کے مقابلے میں راجح اور مضبوط ہے۔ کہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور کہاں حنفی فقہاء؟ سبحان اللہ!
دوم: دیو بندی اصول حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ’’صحابی کای ہ بیان کہ صحابہ ایسا کہتے تھے یا کرتے تھے، یا فلاں کام میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔
۱: اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی طرف نسبت کرکے ایسا کہا جائے تو صحیح یہ ہے کہ مرفوع قرار پائے گی جیسے‘‘ (علوم الحدیث تالیف محمد عبید اللہ الاسعدی، نظرثانی و تقریظ حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی ص۴۴)
نیز دیکھئے محمد ارشاد القاسمی (دیو بندی) کی کتاب: ارشاد اصول الحدیث (ص۵۰)
۳) ای مضمون میں آثارِ سلف صالحین (اثر نمبر ۲) کے تحت گزر چکا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: لوگوں نے (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) کی طرف لکھا، وہ جمعہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو انھوں نے لکھ بھیجا: تم جہاں بھی ہو جمعہ پڑھو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲ ح۵۰۶۸ و سندہ صحیح، باب من کان یری الجمعۃ فی القری وغیرہا)
حافظ ابن حجر نے فرمایا: یہ شہروں اور گاؤں پر مشتمل ہے۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۰)
اس فاروقی حکم کے بارے میں محدثین کرام اور شارحینِ حدیث کے فہم کے مقابلے میں یہ لکھ دینا کہ ’’تو دیہات کا لفظ کہیں ثابت نہیں ہے۔‘‘ غلط اور مردود ہے۔
۴) حافظ ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶ھ) کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت کا مدینہ چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل تھا۔
دیکھئے المحلی (ج۵ ص۵۴ مسئلہ نمبر ۵۲۳)
اس کی تائید سدینا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ہوتی ہے، جو ہمارے مضمون کے اسی باب کے نمبر ۲ میں گزر چکی ہے۔
بعض الناس نے بغیر کسی صریح دلیل کے ابن حزم پر تنقید کی ہے اور اسے ’’ابن حزم کی اندھی تقلید‘‘ قرار دیا ہے۔ عرض ہے کہ عینی حنفی نے یہ قول نقل کرکے اسے تین وجہ سے ’’غیر جید‘‘ یعنی غیر صحیح قرار دیا ہے:
اول: علی رضی اللہ عنہ کا قول، جو کہ مدینہ کو سب سے زیادہ جانتے تھے:
’’لا جمعة ولا تشریق الا فی مصر جامع۔‘‘
دوم: امام (خلیفہ) جہاں بھی ہو جمعہ جائز ہے۔
سوم: امام کو اختیار رہے، وہ جسے شہر قرار دے وہ شہر ہے۔ (شرح سنن ابی داود ج۴ ص۳۹۳)
عرض ہے کہ ان تینوں دلیلوں سے مدینہ طیبہ کی اس دور کی بستیوں کی تردید نہیں ہوتی اور خود عینی نے حرہ بنی بیاضہ کو مدینے سے ایک میل کے فاصلے پر ایک گاؤں تسلیم کیا ہے۔ دیکھئے یہی باب (فقرہ نمبر ۲) اور شرح ابی داود للعینی (ج۴ ص۳۹۵)
لہٰذا بعد والے لوگوں کا بغیر کسی صریح اور صحیح دلیل کے ابن حزم کا رد کرنا غلط ہے۔
۵) مشہور ثقہ تابعی امام زہری رحمہ اللہ کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ چھوٹے گاؤں میں بھی جمعہ پڑھو۔ دیکھئے یہی مضمون آثار سلف صالحین (نمبر ۴)
اس کے بارے می بعض الناس نے لکھا ہے:
’’امام زہریؒ تابعی ہیں اور امام ابوحنیفہؒ بھی تابعی ہیں اور امام ابوحنیفہ خود بھی مجتہد ہیں تو امام زہریؒ کا قول امام ابوحنیفہؒ پر حجت نہیں ہے۔‘‘ (ایک قلمی مضمون ص۸)
بعض الناس کا یہ کلام چار وجہ سے مردود ہے:
اول: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے باسند صحیح یہ ثابت نہیں ہے کہ گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا لہٰذا امام زہری اور امام ابوحنیفہ دونوں میں اس مسئلے پر کوئی مخالفت نہیں ہے۔
دوم: امام زہری رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ کسی صحیح صریح دلیل کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہمارے ذکر کردہ دلائل اور آثارِ سلف صالحین اس کے مؤید ہیں۔
سوم: حنفیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ امام محمد بن مسلم بن شہاب الزہری امام ابوحنیفہ کے استاذوں میں سے تھے۔ دیکھئے حدائق الحنفیہ (ص۴۶)
چہارم: یہ قول امام ابوحنیفہ پر بطورِ حجت پیش نہیں کیا گیا بلکہ حنفیوں اور آلِ دیوبند پر بطورِ الزام پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگ امام زہری رحمہ اللہ کو جلیل القدر تابعی اور اکابر اہلِ سنت میں سے مانتے ہیں لہٰذا امام ابوحنیفہ کے استاذ کے مقابلے میں تمام آلِ دیوبند اور حنفی فقہاء کے فتوے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
کیا امام ابوحنیفہ تابعی تھے یا نہیں تھے؟ اس کا ہمارے حالیہ موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا ہم یہاں فی الحال اس پر کوئی بحث نہیں کرتے۔ راجح یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ تابعی نہیں تھے اور اس کا اعتراف خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ثابت ہے اس موضوع پر تحقیق کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (عدد ۱۷ ص۱۸۔۲۲)
۶) بعض الناس نے ابوبکر الجصاص وغیرہ حنفی فقہاء کے حوالے سے لکھا ہے کہ
’’بے شک انھوں (فقہاء) نے اجتماع کیا ہے کہ جمعہ دیہاتوں اور چھوٹی بستیوں میں جائز نہیں ہے۔‘‘ (ایک قلمی مضمون ص۲)
عرض ہے کہ قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین کے مقابلے میں حنفی فقہاء کا اجماع کوئی حجت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اجماع وہ حجت ہے جس پر ساری امت مسلمہ کے تمام اہل حق علماء کا اتفاق ہو لہٰذا صرف حنفی فقہاء کا اجماع کوئی دلیل نہیں ہے۔
گاؤں میں جمعہ کے مخالفین کے شبہات اور ان کے جوابات
آخر میں ان لوگوں کے شبہات کا خلاصہ اور ان شبہات کے جوابات پیش خدمت ہیں، جو لوگ گاؤں میں نمازِ جمعہ قائم کرنے کے مخالف ہیں:
۱: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں نمازِ جمعہ نہیں پڑھی بلکہ ظہر اور عصر کی دونوں نمزیں دو دو کرکے جمع کرکے پڑھیں۔
ظہر و عصر کی مذکورہ جمع بین الصلوتین (جمع تقدیم کے ساتھ) کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (ح۱۲۱۸، ترقیم دارالسلام: ۲۹۵۰ باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
دو دو رکعتوں کے لئے دیکھئے محمد زکریا کاندھلوی دیو بندی کی کتاب: حجۃ الوداع (ص۸۲) اور شیخ البانی کی کتاب: مناسک الحج و العمرۃ (ص۲۸ فقرہ،۶۴)
یہ جمع بین الصلوتین کیوں ہے؟ اس کے بارے میں شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے کہا:
’’وهذا الجمع کجمع المزدلفة جمع نسک عندنا‘‘ اور یہ جمع ہمارے نزدیک حج کی جمع (جمع نسک) ہے جیسے کہ مزدلفہ میں (نماز) جمع کی جاتی ہے۔ (فتح الملہم ج۳ ص۲۸۶ مطبوعہ المکتبۃ الرشید یہ کراچی)
اس حنفی قول سے ثابت ہوگیا کہ حج کے دن جمعہ نہ پڑھنا بلکہ ظہر و عصر کی دو نمازیں جمع کرکے بطور قصر پڑھنا حج کی خصوصیت میں سے ہے۔
دیوبندی اور حنفی فقہاء کے اس استدلال کے مقابلے میں بذل المجہود کے دیوبندی حوالے کی کوئی حیثیت نہیں ہے بصورتِ دیگر ’’مودبانہ‘‘ درخواست ہے کہ امام ابوحنیفہ یا امام طحاوی سے باسند صحیح ثابت کریں کہ ’’حج والی حدیث سے یہ ثاببت ہوتا ہے کہ گاؤں میں جمعہ جائز نہیں‘‘ اور اگر ثابت نہ کرسکیں تو یہ استدلال غلط ہے۔
۲: کان الناس ینتابون الجمعة من منازلهم والعوالی، الخ (صحیح بخاری: ۹۰۲)
اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ظہور الباری اعظمی دیوبندی نے لکھا ہے:
’’کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور عوالی مدینہ (تقریباً مدینہ سے چار میل دور) سے (مسجد نبوی میں) آیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری مترجم مع حواشی محمد امین اوکاڑوی دیوبندی ج۱ ص۴۴۱ ح۸۵۵)
اس حدیث کی تشریح میں علامہ قرطبی نے لکھا ہے:
’’ای یجیئون…… وھذا رد علی الکوفی الذی لایوجبھا علی من کان خارج المصر‘‘ الخ یعنی وہ آتے تھے…… اور یہ اس کو فی کارد ہے جو شہر سے باہر جمعہ کی واجب قرار نہیں دیتا۔ الخ (المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم ج۲ ص۴۸۲)
اس حدیث میں الناس سے مراد مدینہ کے لوگ اور عوالی کے لوگ ہیں جیسا کہ الفاظِ حدیث سے ظاہر ہے۔ نیز دیکھئے بذل المجہود (ج۶ ص۲۶)
کیا خیال ہے کہ مدینہ کے لوگوں پر بھی جمعہ فرض نہیں تھا، جو وہ باری باری آتے تھے؟ اگر اہل مدینہ پر جمعہ فرض تھا تو پھر اس حدیث سے عوالی (دیہات) میں جمعہ فرض نہ ہونے پر استدلال غلط ہے۔
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے کہ مصنف نے اس سے استدلال کیا ہے کہ شہر سے باہر عوالی اور دیہات والوں پر جمعہ واجب ہے الخ (بذل المجہود ج۶ ص۲۶)
اور بعد میں سہارنپوری نے مصنف (یعنی محدث اور راویٔ حدیث) کا رد کیا ہے لیکن عرض ہے کہ محدثین کرام کے مقابلے میں چودھویں صدی والے دیوبندیوں کی کون سنتا ہے؟
اس حدیث کی کسی سند میں یہ ثابت نہیں ہے کہ اہل مدینہ اور عوالی والے جب مسجد نبوی میں حاضر نہ ہوتے تو اپنی مسجدوں میں نمازِ جمعہ نہیں پڑھتے تھے۔ اگر کسی شخص کا خیال ہے کہ وہ جمعہ نہیں پڑھتے تھے تو وہ دلیل پیش کرے۔
یاد رہے کہ حافظ ابن حجر کے مقابلے میں یہاں علامہ قرطبی کی تحقیق زیادہ راجح ہے کیونکہ ظاہر قرآنخ احادیث صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین ان کے موید ہیں۔
بعض الناس نے لکھا ہے کہ ’’تو جو لوگ باری باری آتے تھے ان میں جو پیچھے رہ جاتے وہ جمعہ نہیں پڑھتے تھے جیسا کہ جو اثا والی حدیث سے ثابت ہے‘‘ الخ
عرض ہے کہ صحیح سند کے ساتھ ینتابون کا زمانہ (مہینہ، سال) اور جواثا والی حدیث کا زمانہ ثابت کریں ورنہ یہ استدلال غلط ہے۔
کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ نمازِ جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والے یہ لوگ صرف نمازِ جمعہ پڑھنے کے لئے آتے تھے اور ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت سے فائدہ اٹھانا اور مسجد نبوی میں نمازوں کا ثواب حاصل کرنا نہیں تھا۔
کاش کہ ہمیں بھی وہ مبارک دور ملتا تو مسجد نبوی کی طرف سفر کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے اور آپ سے ملاقات کرکے اور آپ کی بابرکت صحبت سے مستفید ہوتے۔
۳: عید والے دن نمازِ عید کے بعد لوگوں کو نمازِ جمعہ کی رخصت دینا ایک خاص بات ہے اور اہل حق کا اس پر عمل ہے لیکن اس سے یہ ثاببت نہیں ہوتا کہ عید اور جمعہ اکٹھے دن کے علاوہ دوسرے جمعہ کے دنوں میں گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہیں ہے یا ان کے لئے نماز جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
خاص دلیل کو عام دلیل کے مقابلے میں ٹکرا کر عام کو ختم کر دینا غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ خاص مسئلے میں خاص دلیل پر اور اس کے علاوہ باقی مسائل میں عام دلیل پر عمل جاری رہتا ہے۔ مثلاً نماز میں (حنفیوں کے نزدیک) قراءت فرض ہے لیکن جو گونگا شخص قراءت کر ہی نہیں سکتا وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ باقی تمام لوگوں پر قراءت (قراءت فاتحہ) فرض ہے اور گونگا مجبور محض ہونے کی وجہ سے اس عموم سے خارج ہے۔
اگر گونگے پر استدلال کرکے کوئی شخص مطلقاً قراءت کی فرضیت کا انکار کردے تو حنفیہ اور آلِ دیوبند کے نزدیک بھی یہ غلط ہے۔
۴) قبا میں دس روز قیام والی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ نہیں پڑھا تھا اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ نہیں پڑھا تھا تو عرض ہے کہ اس وقت آپ مسافر تھے اور مسافر پر (ہمارے اور آپ کے نزدیک) بالاتفاق جمعہ فرض نہیں ہے لہٰذا اس واقعے سے استدلال غلط ہے۔
بعض الناس نے لکھا ہے کہ ’’امام ابراہیم نخعیؒ اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ دیہات میں جمعہ کے قائل ہی نہیں تھے۔‘‘ (ص۱۲)
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ سے یہ مسئلہ باسند صحیح ثابت ہی نہیں ہے اور رہ گئے ابراہیم نخعی اور قاضی ابویوسف کے اقوال تو ان کی صحیح سندیں پیش کریں اور اگر صحیح سندیں نہ کر سکیں تو یہ مذکورہ کلام غلط و مردود ہے۔
کتاب الاآثار نامی کتاب محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (عدد ۵۵ ص۳۶)
ابن فرقد مذکور کی توثیق کسی معتبر امام سے ثابت نہیں ہے بلکہ امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام عمرو بن علی الفلاس اور امام ابوزرعہ الرازی وغیرہم جمہور محدثین سے اس پر جرح ثابت ہے۔ دیکھئے الحدیث:۵۵ (ص۲۸)
لہٰذا کتاب الآثار کا حوالہ بے کار ہے۔
بعض الناس نے حسن بصری اور محمد بن سیرین کے بارے میں آثار السنن (تقلیدی کتاب) کا حوالہ دیا ہے (کہ ان دونوں نے فرمایا: الجمعۃ فی الامصار [جمعہ شہروں میں ہے])
عرض ہے کہ ان آثار کی سند ضعیف ہے۔ ان کے راوی ہشام بن حسان مدلس تھے۔
دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر (طبقہ ثالثہ ۳/۱۱۰ ص۶۵)
اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے، ماسٹر امین اوکاڑوی کے استاد سرفراز خان صفدر دیوبندی نے کہا:
’’ملس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں……‘‘ (خزائن السنن ج۱ ص۱)
ایک روایت کے بارے میں امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
’’یہ حدیث سنداً (سند کے اعتبار سے) ضعیف ہے کیونکہ ابو زبیر مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے……‘‘ (جزء رفع الیدین بحاشیۃ اوکاڑوی ص۳۱۸ ح۵۶)
۵: اہل قبل کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کے پیچھے نماز پڑھنا، اس کی دلیل نہیں ہے کہ گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا۔
۶: ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جمعہ کو قباء سے (مدینہ میں) حاضر ہوں۔ (ترمذی صفحہ ۲۲۶ حدیث: ۵۰۱)
اول: اس کا راوی ثویر بن ابی فاختہ ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا:
’’ضعیف رمی بالرفض‘‘ ضعیف ہے، اسے رافضی قرار دیا گیا ہے۔ (تقریب التہذیب ج۱ ص۲۰۳ ترجمہ: ۸۶۲)
ضعیف رافضی کی روایت مردود ہوتی ہے۔
دوم: رجل من اہل قباء مجہول ہے۔
دوسرے یہ کہ اس ضعیف و مردود روایت سے بھی گاؤں میں جمعہ نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور سنن ترمذی کے مجہول محشی کی بات بے دلیل ہے۔
۷: ایک روایت میں آیا ہے: ’’خمسة لاجمعة علیهم: المراة والمسافر و العبد و الصبی واهل البادیة‘‘ پانچ آدمی ہیں جن پر جمعہ (واجب) نہیں ہے: عورت، مسافر، غلام، بچہ اور اہل دیہات (رواہ الطبرانی فی الاوسط) ج۱ ص۱۶۱، ۱۶۲ ح۲۰۴
عرض ہے کہ اس روایت میں دو راوی ضعیف ہیں:
اول: ابراہیم بن حماد بن ابی حازم المدینی کو امام دارقطنی نے الضعفاء و المترو کون میں شامل کیا ہے۔ دیکھئے امام دارقطنی کی کتاب: الضعفاء و المتروکون (ص۱۱۰ ت۲۸)
نیز دیکھئے لسان المیزان (ج۱ ص۵۰، دوسرا نسخہ ج۱ ص۷۳)
اور کسی نے اس راوی کو ثقہ یا صدوق نہیں کہا۔
دوم: احمد بن محمد بن الحجاج بن رشیدین بن سعد المصری جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح راوی ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (ج۱ ص۲۵۷، ۲۵۸، دوسرا نسخہ ص۳۸۹)
ایسی ضعیف و مردود روایت پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟!
۸: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’لاجمعۃ ولاتشریق الا فی مصر جامع۔‘‘ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۰)
عرض ہے کہ اس موقوف روایت اور اثر سے دیو بندیوں کا استدلال پانچ وجہ سے غلط ہے:
اول: مصر جامع کسے کہتے ہیں؟ اس کا کوئی ثبوت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے نہیں ملتا۔ لغت بھی اس کی تشریح سے خاموش ہے۔ حنفیوں کی کتاب الہدایہ میں بغیر کسی سند کے قاضی ابو یوسف سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ
’’والمصر الجامع کل موضع له امیر و قاضی ینفذ الاحکام و یقیم الحدود‘‘
اور مصر جامع ہر وہ موضع ہے جس میں امیر اور قاضی ہو جو احکام نافذ کرے اور حدود قائم کرے۔ (ہدایہ اولین ص۱۶۸، باب صلوۃ الجمعۃ)
اس تعریف و تشریح کے لحاظ سے پاکستان کے شہروں میں بلکہ اسلام آباد میں بھی جمعہ نہیں ہوتا (!) کیا خیال ہے؟!
براہِ مہربانی! پاکستان کا وہ شہر بتائیں جہاں شرعی احکام اور شرعی حدود نافذ ہیں ورنہ اس اثر سے استدلال نہ کریں۔
دوم: اس اثر میں لا سے مراد نفی کمال ہے لہٰذا اس گاؤں میں نماز جمعہ کی نفی نہیں ہوتی۔ محمد کفایت اللہ دہلوی دیوبندی نے لکھا ہے:
’’لا جمعۃ و لاتشریق الخ حنفیہ نے اس میں لا سے نفی صحت مراد لی ہے مگر محتمل ہے کہ نفی وجوب مراد ہو۔‘‘ (کفایت المفتی ج۳ ص۱۹۶ جواب نمبر ۳۷۴)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ اثر اشرفعلی تھانوی دیوبندی کے علم میں تھا۔
دیکھئے القول البدیع فی الشراط المصر للتجمیع (ص۶۱)
حضرو (بہبودی) کے رہنے والے قاری سعید الرحمن دیوبندی نے اپنے باپ عبدالرحمن کاملپوری دیوبندی سے نقل کیا کہ جہاں جمعہ کی اکثر شرائط (جو حنفیہ کے ہاں ضروری ہیں) مفقود ہوتیں اس کے بارے میں تھانوی نے کہا:
’’ایسے موقعہ پر فاتحہ خلف الامام پڑھ لینا چاہئے تاکہ امام شافعیؒ کے مذہب کے بناء پر نماز ہو جائے۔‘‘ (تجلیات رحمانی ص۲۳۳ عنوان: مسئلہ اسقاط)
معلوم ہوا کہ تھانوی کے نزدیک مذکورہ اثر نفی صحت نہیں بلکہ نفی کمال پر محمول ہے۔
سوم: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قول کے مقابلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول زیادہ راجح ہے، کیونکہ ظاہر قرآن، احادیث صحیحہ اور دیگر آثار ان کے مؤید ہیں۔
چہارم: خود حنفیہ اور آلِ دیوبند کا اس اثر پر عمل نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگ بے شمار دیہات میں جمعہ پڑھتے ہیں بلکہ دھڑلے سے پڑھتے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ حنفی عوام نے اپنے ’’فقہاء‘‘ اور مولویوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔!
پنجم: امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر پہلے باب میں لکھا ہے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۱ ح۵۰۵۹)
اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اثر بعد والے باب: ’’من کان یری الجمعة فی القری وغیرها‘‘ میں لکھا ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (ج۲ ص۱۰۲ ح۵۰۶۸)
عام دیوبندیوں کا یہ اصول ہے کہ اگر محدث بعد میں کئوی روایت لے آئے تو وہ ناسخ اور پہلی منسوخ ہوتی ہے لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر منسوخ ہے۔
۹: عن حذیفة رضی الله عنه قال: ’’لیس علی اهل القری جمعة، انما الجمعة علی اهل الامصار‘‘ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دیہات والوں پر جمعہ نہیں، جمعہ تو شہر والوں پر ہے۔ (عینی شرح بخاری، او جز المسالک)
عرض ہے کہ یہ قول معمولی اختلاف کے ساتھ مصنف ابن ابی شیبہ (ج۲ ص۱۰۱ ح۵۰۶۰) مں موجود ہے اور تین وجہ سے ضعیف ہے:
اول: حماد بن ابی سلیمان مدلس راوی تھے۔ دیکھئے الکامل لابن عدی (جج۲ ص۶۵۳ و سندہ صحیح) طبقات المدلسین لابن حجر (۲/۴۵)
تحقیق راجح میں حماد طبقہ ثالثہ کے مدلس تھے اور یہ روایت معنعن ہے لہٰذا ضعیف ہے۔
دوم: حماد بن ابی سلیمان کا آخری عمر میں حافظہ کمزور ہوگیا تھا۔
دیکھئے مجمع الزوائد (ج۱ ص۱۱۹، ۱۲۰، کتاب العلم باب فی طلب العلم)
حماد مذکور کے شاگرد عمر بن عامر کا حماد سے سماع قبل از اختلاط معلوم نہیں ہے بلکہ حافظ ہیثمی نے بتایا کہ حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو ان کے قدیم شاگردوں: شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام الدستوائی نے بیان کی ہے۔ (ایضا ملخصا)
سوم: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ۳۶ھ میں فوت ہوئے تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۱۱۵۶) اور ابراہیم نخعی تقریباً ۴۶ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۲۷۰)
معلوم ہوا کہ یہ سند ضعیف ہونے کے ساتھ سخت منقطع بھی ہے۔
۱۰: متاخرین میں سے ابوبکر الجصاص (حنفی) کی احکام القرآن کے بے سند حوالے مردود ہیں۔
۱۱: شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی کا قول کئی وجہ سے مرجوح اور ناقابلِ حجت ہے:
اول: آثارِ سلف صالحین کے خلاف ہے۔
دوم: اتفاق اور اجماع کا دعویٰ غلط ہے۔
سوم: لا سے مراد فرضیت کی نفی ے، جو کہ جواز کے منافی نہیں اور یہ ثابت ہے کہ عوالی والے نمازِ جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لاتے تھے۔
بعض الناس نے آخر میں امام ابوحنیفہ کی تابعیت، قاضی ابو یوسف کی تعریف اور امام بخاری وغیرہ کے بارے میں فلسفیانہ کلام لکھا ہے، جس کا موضوع جمعہ سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ہم اسے یہاں نظر انداز کرتے ہیں۔
شیخ صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان السعودی کے فتاویٰ میں سوال نمبر ۲۹۷ کے جواب میں لکھا ہوا ہے کہ
’’علماء کے دو اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ عام نمازوں کی طرح نمازِ جمعہ کے لئے کوئی خاص تعداد مشروط نہیں ہے کیونکہ نمازِ جمعہ کی تعداد کی حد بندی کے لئے کوئی خاص دلیل ثابت نہیں ہے، پس یہ نماز عام نمازوں کی طرح منعقد ہو جاتی ہے جیسے جماعت ہو جاتی ہے، اگر وہ لوگ کسی خاص مقام میں عام عادت کے مطابق رہتے ہوں، جہاں سکونت اور دوام ہو۔ اور علماء کے دو اقوال میں سے یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب