السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب !۔۔۔السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ:"الاعتصام "مورخہ یکم جولائی 1984ءمیں عزل کے متعلق آپ کا فتویٰ شائع ہوا غالباً اس سے قبل بھی آپ اس مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار فرما چکے ہیں تا ہم میرے ذہن میں کچھ خلش ہے جسے دور فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔ان الله لا يستحي من الحق
زید نے اپنی رفیقہ حیات سے عزل کے بارے میں بات کی اس نے زید سے اختلاف کرتے ہوئے کہا یہ مانع حمل اور ممنوع فعل ہے زید کہنے لگا یہ جائز ہے کیونکہ صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فرمان ہے کہ نزول قرآن کے دور میں ہم عزل کیا کرتے تھے زید کاخیال تھا کہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا توآسمان سےاس کے متعلق کو ئی نہ کو ئی حکم ضرورنازل ہوتا یہ سن کر اس کی اہلیہ کہنے لگی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ عزل خفیہ طور پر قتل اولاد ہے ممکن ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فرمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ممانعت سے پہلے کے دور سے متعلق ہو لہذا جب تک تم واضح طور پراس کو جائز اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تنسیخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے فرمان سے ثابت نہیں کرو گے میں نہیں مانوں گی کیوں کہ فرمان الٰہی ہے۔
﴿قَد خَسِرَ الَّذينَ قَتَلوا أَولـٰدَهُم سَفَهًا بِغَيرِ عِلمٍ...١٤٠﴾... سورة الانعام
"گھاٹا پاگئے وہ لوگ جنہوں نے نادانستہ طور پر اپنی اولاد کو قتل کیا ۔
زید نے اپنی بیوی کواس کی بیماری کی طرف متوجہ کرکے عزل کاجواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب ڈاکٹروں کے بقول بچے کی پیدائش تمہارے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے مگر وہ کہتی ہے کہ میں اپنی جان کی خاطر دوسری جان کا حق زندگی تلف کر کے کیوں اخروی ناکامی مول لے لوں تم چاہو تو عقد ثانی کرلو زید جو صاحب عیال ہے اور کسی بھی صورت عقد ثانی کاخواہشمند نہیں نہ ہی اسے صرف ایک خاص وجہ سے پسند کرتا ہے ۔
«لقوله تعاليٰ : «غَيْرَ مُسَافِحِينَ»
کیوں کہ اس کے خیال میں باوجود کوشش کے انصاف کا دامن اس کے ہاتھ سے نکل جا ئے گا ۔اور عذاب الٰہی کا مستوجب ٹھہرے گا ۔
اندریں حالات شرع متین کی روشنی میں بتائیے کہ زید اور اس کی زوجہ میں کس کا نظریہ درست اور راجح ہے تا کہ دنیا کی زندگانی سے بھر پور انداز میں لطف اندوز بھی ہوسکیں اور آخرت میں عتاب الٰہی سے بالکل محفوظ رہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی روایات واضح طور پر عزل (بوقت انزال علیحدگی)کےجواز پردال ہیں لیکن یہ جواز دووجہ سے اولویت کے منا فی ہے ۔
اولاً:جماع عورت کا حق ہے فعل ہذا کے ارتکا ب سے لذت جماع میں کمی واقع ہوتی ہے اس بناء پر اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کا جواز عورت کی اجازت پر موقو ف ہے امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
«لا خلاف بين العلماء انه لا يعزل عن الزوجة الحرة الا باذنها لان الجماع من حقها ولها المطالبة بها وليس الجماع المعروف الا ما لا يلحقه عزل»(فتح الباری:9/308)
یعنی"اہل علم کا اس میں کو ئی اختلا ف نہیں کہ آزاد عورت سے عزل اس کی اجازت سے ہونا چاہیے کیونکہ جماع عورت کا حق ہے وہ اس کا مطالبہ کرسکتی ہے اور معروف جماع وہی ہے جس میں عزل نہ ہو ۔"
اس کے باوجود شوافع کااس میں اختلاف موجود ہےان کا کہنا ہے کہ جماع میں عورت کا اصلاًکوئی حق نہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے تکثیر نسل میں کمی واقع ہوتی ہے جوشریعت کامطلوب ہے البتہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جذامہ بنت وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث:
«ان النبي صلي الله عليه وسلم سئل عن العزل فقال : (( ذلك الواد الخفي»
یعنی "نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال ہوا تو جواباًفرمایا : یہ خفیہ زندہ درگور کرنا ہے "
کی بناء پر وطی کوواجب اور عزل کو حرام قرار دیاہے لیکن ان کا یہ نظریہ درست نہیں ہے چنانچہ ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہماری کچھ لونڈیاں تھیں اور ہم ان سے عزل کرتے تھے یہود نے کہا یہ تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے یعنی زندہ اولاد کے بالمقابل پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت ہوا تو فرمایا : یہود جھوٹے ہیں اگر اللہ مخلوق پیدا کرنی چاہے تو کو ئی اسے روک نہیں سکتا ۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے رفع تعارض کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ جذامہ کی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول ہے اور بعض نے جذامہ کی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی سعی کی ہے لیکن یہ با ت درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
«والحديث صحيح لاريب فيه والجمع ممكن»
یعنی "بلاشبہ حدیث صحیح ہے اور متعارض حدیثوں میں تطبیق وجمع ممکن ہے
اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ مگر تاریخ معلوم نہ ہونے کی بناء پر اس پر نسخ کا حکم نہیں لگ سکتا امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔احتمال ہے کہ حدیث جذامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کی موافقت میں فرمائی ہو کیونکہ غیر مامور بہ امور میں آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے بعد میں اللہ نےاس کے حکم سے آگاہ فرمایا تو یہود کی تکذیب کردی لیکن ابن رشد اور پھرابن العربی نےاس کاتعاقب یوں فرمایا ہے ۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی پیروی میں کسی بات کو بالجزم بیان کریں اور پھر اسی امر میں ان کی تکذیب کی بھی تصریح کردیں یہ کیسے ہوسکتا ہے !بحث کے اختتام پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
«وجمعوا ايضا بين تكذيب اليهود في قولهم المووودة الصغريٰ وبين اثبات قولهم وادا خفيا في حديث جذامة بان قولهم : الموودة الصغريٰ يقتضي انه واد ظاهر لكنه صغير بالنسبة الي دفن المولود بعد وضعه حيا فلا يعارض قوله: ان العزل واد خفي فانه يدل علي انه ليس في حكم الظاهر اصلاً فلا يترقب عليه حكم وانما جعله وادا من جهة اشترا كهما في قطع الولادة وقال بعضهم :قوله:الواد الخفي ورد علي طريق التشبيه لانه قطع طريق الولادة قبل مجئه فاشبه قتل الولد بعد مجيئه قال ابن القيم :الذي كذبت قطع النسل بالوائد فاكذبهم واخبر انه لا يمنع الحمل اذا شاء الله خلقه واذا لم يرد لم يكن واد حقيقته وانما سماه وادا خفيا في حديث جذامة لان الرجل انما يعزل هربا من الحمل فاجريٰ قصده لذلك مجري الواد لكن الفرق بينها ان الواد ظاهره بالمباشرة اجتمع فيه القصد والفعل والعزل يتعلق بالقصد صرفا فلذلك وخصه بكونه خفيا» (فتح الباري 9/309)
عبارت ہذا کا مفہوم یہ ہے ۔
اس مقام پر دواحادیث کے درمیان ظاہری تعارض کاحل پیش کیا گیا ہے پہلی وہ حدیث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی تکذیب فرمائی ہے یہود کا کہنا تھا کہ عزل "مودۃصغری"(یعنی وادصغیر چھوٹا زندہدرگور کرنا)ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھوٹا قرار دیا دوسری حدیث وہ جس میں آپنے فرمایا :"عزل"وادخفی "ہے یعنی ایک حدیث میں "عزل"کو"وادصغیر"کہنے کی نفی ہے اور دوسری حدیث میں "عزل"کو"وادخفی "کہنے کااثبات ہے۔
تو علماء نےان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق یہ دی کہ یہود کی تکذیب اس لیے کی کہ ان کی بات کی روسے یہ حقیقی اور ظاہری "واد"ہے مگر مولود کو زندہ دفن کرنے کی نسبت ذراکم ہے نتیجتاًاس وعید کے تحت آتا ہے کہ ﴿وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ﴾اور جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔«ان العزل واد خفي»یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عزل ظاہری (یعنی حقیقی)"وَاَد"ہے ہی نہیں کہ اس پر کو ئی حکم یا "وَاَد"ہے ہی نہیں کہ اس پر کو ئی حکم یا وعید مترتب ہومگر چونکہ مولود کو زندہ دفن کرنا اور عزل کرنا دونوں کانتیجہ "۔قطع الولادةہے لہذا اس اشترا ک کی وجہ سے اسے" وَاَد"قرار دیا جب کہ حقیقی "وَاَد"نہیں ہے تبھی تواسے "وَاَد"خفی فرمایا ۔چنانچہ دونوں احادیث باہم متعارض نہ رہیں
بعض نے کہا ہے کہ عزل پر وَاَد"کااطلاق باہمی مشابہت کیوجہ سے کیاگیا ہے کیونکہ عزل میں مولود کے پیدا ہونے سے پہلے دلات کےذریعے کوقطع کیا گیا ہے لہذا یہ مولود کے پیدا ہوجا نے کے بعد اسے قتل کردینے کے مشابہ ہوا۔لہذا «علي وجه التشبيه»"عزل کووَاَد"قرار دیا "«علي وجه الحقيقة»نہیں ۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کواس لیے جھوٹا قرار دیا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عزل کی صورت میں حمل قرار نہیں پاسکتا یعنی عزل حمل سے مانع ہےاور ان کے نزدیک یہ قطع نسل کے سلسلے میں ویسے ہی ہے جیسے زندہ دفن کرنا لہذا آپ نےانہیں جھوٹا قراردیا اور خبردی کہ عزل حمل سے مانع نہیں بلکہ اللہ چاہے تواسے پیدا کردے اور اگر اللہ اسے پیدا کرنے کاارادہ ہی نہ کرے تووہ "وَاَد"حقیقی" نہ رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامہ کی روایت میں اسے "وَاَدخفی"کانام اس لیے دیا کیونکہ عزل کرنے والا اس لیے عزل کرتا ہے تا کہ حمل نہ قرار پائے یعنی وہ حمل سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہےلہذا اس کے ارادہاورقصدکو"وَاَد"
کے قا ئم مقام قرار دیا لیکن دونوں میں فرق واضح ہے اور وہ یہ کہ حقیقی "وَاَد"وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ارادہ بھی شامل ہوا ور براہ راست "وَاَد"کے فعل کابھی ارتکاب کرے جب کہ عزل کاتعلق خالص ارادہ اور قصد سے ہوتا ہے اس وجہ سے اسے "وَاَد"کے خفی "کہا ہے۔شیخناعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ۔
«آداب الزفاف في السنة المطهرة ص٥٥ طبع ٣)مذکور تطبیق کوخوب پسند فرمایا ہے اس سے سائل کے بھی جملہ اشکالات کا ازالہ بطریق احسن ہوجا تا ہے نیز صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فرامین کاتعلق جملہ عہد نبوت سے ہے تخصیص کی کو ئی دلیل نہیں اصول حدیث میں مدون نسخ کی صورتوں (نص میں نسخ کی تصریح تاریخ کاعلم جمع ناممکن ہو صحابی کی وضاحت وغیرہ)میں سے کوئی صورت بھی اس پر منطبق نہیں ہوتی۔ بالخصوص جب کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
«اعزل عنها ان شئت» صحيح مسلم كتاب النكاح (٣٥٥٦)اگر چاہو تو عزل کرلو ۔"
میں اذان ماثور ہے لہذا جمع و تطبیق ہی اصل ہے( کماتقدم واللہ اعلم )
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب