السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شیعہ کی نظر میں قرآن کریم کی کیا حیثیت ہے محرف ہے یا غیر محرف؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کے زریں عہد اول سے لے کر آج تک ہر دور اور ہر زمانے میں نسل در نسل مسلمانوں کا متفقہ طور پر اجماعی عقیدہ چلا آیا ہے۔ کے کتاب الٰہی ہر قسم کے حوادثات وتغیرات اور تبدیلیوں کے شائبوں سے محفوظ ومامون ہے۔
روئے زمین پر صرف شیعہ ہی ایک ایسی مبہوت قوم ہے۔ جس کے زعم باطل کے مطابق قرآن کریم اپنی اصلی شکل وصورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ اس کا کثیر حصہ دست بردزمانہ ہوچکا ہے۔اعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ
درحقیقت شیعہ کوئی مستقل مذہب نہیں۔ بلکہ انتقامی جذبہ پر مبنی ایک منفی تحریک کانام ہے۔جس کی بناء شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے عداوت ودشمنی پر قائم ہے۔یہ وہی عظیم ہستیاں ہیں۔جنہوں نے غلبہ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرتے ہوئے شرق وغرب میں اسلامی پرچم کو لہرایا۔ان کے ہاتھوں دشمنان اسلام کو شدید ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا۔بالخصوص یہود ونصاریٰ نے بری طرح زلت آمیز شکستیں کھائیں۔عیسائیوں نے صلیبی جنگیں لڑ کر انتقامی جذبہ کو ٹھنڈا کیا مگر یہودیوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میدان کارزار میں مسلم مجاہدین کا مقابلہ کرسکتے اسلئے انہوں نے زیر زمین سازشوں کے جال پھیلانے شروع کردیئے جس کے نتیجہ میں ابتدا ء سبائی ٹولہ نمودار ہوا۔
ان لوگوں نے عمائدین اسلام کے بارے میں عوام کے اذہان میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی مہم شروع کردی۔کاتبین وحی حفاظ قرآن اور اس کی نشر واشاعت اور حفاظت کرنے والوں کے اعتماد کو مجروح کرنے کی سازش کی۔
اس سے ان کا اولین مقصد اسلام کے بنیادی ماخذ قرآن مجید سے لوگوں کااعتماد مجروح کرنا تھا اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک پر اعتماد کوٹھیس پہنچانے کے لئے مثالی کردار کے حامل راویوں پر جرح وقدح کی مذموم اور ناکام سعی کرناتھا کہ اس کے در پردہ متلاشیان حق کی راہیں مسدود ہوسکیں۔جب اصلی ہیت میں نہ کتاب وہی ہے اور نہ سنت تو صحیح راہنمائی کہاں سے حاصل ہو؟
رفتہ رفتہ اسی سازشی ٹولے نے ذخیرہ احادیث کے مقابلے میں اقوال ائمہ کے نام سے کتابیں مرتب کیں اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بدنام کرنے کے لئے خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیتوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اختلاف ان پر مظالم اور حق تلفیوں کے افسانے اس طریقے سے مشہور کئے کہ سادہ لوح مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
المختصر روافض کا یہ عقیدہ ہے کہ صحیح قرآن اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہے امام مہدی اسے لے کر غار میں چھپ گئے ہیں۔(وہ مہدی جس کا وجود فی الواقع موہوم ہے) بقول شخصے ان کا ظہوراس وقت ہوگا جب ساری دنیا میں تین سو تیرہ پکے سچے شیعہ موجود ہوئے چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب''احتجاج طبرسی'' میں ہے:
’’ يجتمع اليه من اصحابه عدة اهل بدر ثلث مائة وثلثة عشر رجلا من اقاصي الارض ان قال : فاذا اجتمعت له هذه العدة من اهل الاخلاص اظھر اللہ امرہ '' (ص 123 طبع ایران)
یعنی'' امام مہدی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اصحاب بدر کی گنتی برابر تین سو تیرہ مرددنیا کے اطراف واکناف سے جمع ہوجائیں گے۔جب مخلصین کی تعداد ہذا جمع ہوگی تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کی دعوت کو غلبہ بخشے گا۔
اب شیعہ حضرات کے لئے مقام غور ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک اپنے میں مخلصین کی مذکورہ تعداد پیدا نہ کرسکے۔جبکہ سید لطف اللہ صافی ایک شیعی عالم شیعہ کی تعداد دس ملین سے زائد کادعویدار ہے ۔اس سے ہر زی شعور انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ آخر کتنی کثرت کا شمار کس پلڑے میں ہے؟دوسری بات یہ ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ایمان واخلاص کو بھی تسلیم کیاگیا ہے۔ جسے ان لوگوں نے خوامخواہ متنازعہ فیہ بنا چھوڑا ہے۔ کیونکہ یہاں تین سو تیرہ کا عدد محض مدح وارد ہواہے۔
امام ا بن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ومن قول الامامية كلها قديما وحديثا ان القرآن مبدل زيد فيه ما ليس منه ونقص منه كثير وبدل منه كثير ’’
(الملل والنحل 4/128 مکتبۃ المنشی بغداد)
'' ہردور میں سب امامیہ کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ قرآن میں ردو بدل ہوا ہے اس میں کچھ اضافے ہیں جو اصل میں نہیں اور بہت ساری کمی وبیشی اور تبدیلی ہوئی ہے۔''
اسی طرح عیسائیوں نے جب قرآن کی تبدیلی پر شیعہ کے قول سے دلیل وحجت لینے کی کوشش کی تو امام موصوف نے ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’ ان دعويٰ الشيعة ليست حجة علي القرآن ولا علي المسلمين لانهم ليسوا منا ولسنا منهم ’’ (الملل والنحل 2/78)
'' شیعہ کے دعوے کو دلیل کے طور پر قرآن اور مسلمانوں کے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کا تعلق نہ ہمارے ساتھ ہے اور نہ ہمارا تعلق ان سے ہے۔ یعنی شیعہ مسلمان نہیں۔''
پھر یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کاتذکرہ تمام شیعی کتب امہات المراجع تفسیر حدیث فقہ عقائد وغیرہ میں باقاعدہ دلائل وبراہین سے موجود ہے کما ل یہ ہے کہ موضوع ہذا پر مستقل ایک شیعی معتبر تصنیف موجود ہے۔جس کا نام ہی مسمیٰ پر واضح برہان ہے نام ملاحظہ فرمایئں
(فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب لنوری الطبرسی )
علامہ محب الدین الخطیب اپنی شہرہ آفاق کتاب '' الخطوط العريضة '' میں رقم طراز ہیں:
'' حتی کہ وہ قرآن جو ہم اہل سنت کو اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ایک جامع مرجع ہے ۔ان شیعہ کے نزدیک اصول دین سرتاپا اس کی آیات کی تاویل پر اور ان معانی کے افکار پر قائم ہیں۔ جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھے اور ائمہ اسلام نے اس نسل سے سمجھے جس پر قرآن نازل ہوا۔بلکہ ایک بڑے نجفی عالم نے اور وہ الحاج مرزا حسین بن محمد تقی نوری طبرسی ہے جس کی 1320ء میں وفات کے وقت شیعہ حضرات نے اتنی تعظیم وتکریم کی کہ اس کو نجف میں مشہد مرتضوی کی عمارت '' ایوان جوہ بانوں عظمی بنت سلطان ناصر دین اللہ '' میں دفن کیا اور یہ ''دیوان جو قبلیعہ'' نجف اشرف میں ( باب قبلہ سے صحن مرتضوی کی طرف اندردایئں جانب جو ان کے نزدیک بہت مقدس جگہ ہے) اس نجفی عالم نے 1293ء کو نجف میں اس قبر کے پس جو امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ایک کتاب تالیف کی جس کا نام اس نے فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الا رباب'' رکھا۔جس میں اس نے مختلف زمانوں کے علماءشیعہ اور ان کے مجتہدین کی سینکڑوں نصوص جمع کیں۔ کہ قرآن میں کمی بیشی کی گئی ہے۔طبرسی کی یہ کتاب ایران میں 1289 ء میں طبع ہوئی۔اس کی طباعت کے وقت اس کے گرد ایک شور مچ گیاکیونکہ شیعہ چاہتے تھے کہ قرآن کے بارے میں تشکیک ان کے خواص ہی تک محدود رہے اور ان کی سینکڑوں معتبر کتب میں ہی بکھری رہے۔اور یہ سب کچھ ایک ہی کتاب میں جمع نہ ہو۔جس کے ہزاروں نسخے شائع ہوں۔اور ان کےمخالفین اس سے آگاہ ہوں۔اور تمام لوگوں کی نظروں کے سامنے یہ ان کے خلاف حجت ثابت ہو جب ان کے عقلاء نے یہ اعتراضات اور ملاحظات ظاہر کئے تو اس کتاب کے مولف نے ا س بارے میں ان کی مخالفت کی۔اور اس نے ایک اورکتاب تالیف کی جس کا نام اس نے'' رد بعض الشبھات عن فصل الخطاب فی اثبات تحریف رب الارباب'' رکھا۔اور یہ دفاع اس نے اپنی زندگی میں اپنی موت سے تقریباً دو سال پہلے لکھا۔اور شیعہ حضرات نے اس کے یہ ثابت کرنے کی کوشش پر کہ قرآن محرف ہے اسے یہ بدلہ دیا کہ نجف میں مشہد علوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ممتاز جگہ میں اسے دفن کیا۔اور یہ نجفی عالم قرآن میں نقض وارد ہونے کے متعلق جو استشہاد کرتا ہے اور اقتباس لاتا ہے اس کازکر اس نے اپنی کتاب کے صفحہ 180 پر ایک سورت سےکیا ہے جسے شیعہ '' سورۃ الولایۃ'' کہتے ہیں جس میں ولایت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے:
’’ يايها الذين امنوا بالنبي والولي بعثنا هما يهديانكم الي الصراط المستقيم ’’
چند سطور بعد فرماتے ہیں:
'' جس طرح اس نجفی عالم نے '' سورۃ الولایۃ'' سے یہ استشہاد کیا ہے کہ قرآن محرف ہے۔اسی طرح کتاب (الکافی ) جو شیعہ کے نزدیک وہی درجہ رکھتی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک ''صحیح البخاری '' کا ہے ا س کی ایرانی طبع 1278ھ کے صفحہ 289 پر درج زیل عبارات سے استشہاد کیا ہے۔''
’’ روي عدة من اصحابنا عن سهل بن زيادة عن محمد بن سليمان عن بعض اصحابه عن ابي الحسن عليه السلام (اي ابو الحسن الثاني علي بن موسي الرضا المتوفيٰ سنة ٢.٦ه قال:قلت له : جعلت فداك انا نسمع الايات في القرآن ليس هي عندنا كما نسمعها ولانحن ان نقراها كما بلغنا عنكم فهل ناثم؟ فقال:لا اقراوا كماتعلمتم فسيجيكم من يعلمكم ’’
'' ہمارے متعدد اصحاب نے سہل بن زیاد سے اس نے محمد بن سلیمان سے اس نے اپنے بعض اصحاب سے اس نے ابو الحسن (یعنی ابو الحسن ثانی علی بن موسیٰ رضا متوفی 206ھ) سے روایت کیا۔کہا میں نے اس سے کہا میں آپ پر قربان ہم قرآن میں آیات سنتے ہیں جو ہمارے ہاں (قرآن میں ) ایسی نہیں جیسی کہ ہم سنتے ہیں اور نہ ہم ان کی اچھی طرح سے تلاوت ہی کرسکتے ہیں جس طرح کہ آپ سے ہمیں پہنچتی ہیں تو کیا ہم گناہ کا کام کرتے ہیں؟تو اس نے کہا : نہیں، جس طرح تم نے سیکھا ہے پڑھتے رہو۔جلد ہی تمہارے پاس وہ آئے گا جو تمھیں تعلیم دے گا۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ کلام شیعہ علی بن موسیٰ کے بارے میں گھڑاہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ ا ن کے ہاں یہ فتویٰ ہے کہ جو اس طرح قرآن پڑھے کہ جس طرح لوگ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سیکھتے ہیں وہ گناہگار نہیں ہوتا۔ ویسے شیعہ کے خاص لوگ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سیکھتے ہیں وہ گناہگار نہیں ہوتے۔ لیکن شیعہ کے خاص لوگ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ایک دوسرے کو بتاتے رہتے ہیں۔ کہ اصل قرآن یہ نہیں بلکہ وہ اور ہے جو موجود ہے۔یا ان کے ائمہ اہل بیت کے پاس موجود تھا ان کے اس مزعومہ قرآن کے درمیان جسے وہ رازداری سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں۔اور تقیہ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہوئے اس کابرملا اظہار نہیں کرتے۔اور اس مصحف عثمانی کے درمیان وہی تقابل ہے جسے حسین بن محمد تقی نوری طبرسی ن اپنی کتاب'' (فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب لنوری الطبرسی ) میں جمع کیا ہے۔
یہ کتاب ان کے علماء سینکڑوں نصوص پر مشتمل ہے جو ان کی معتبر کتب میں موجود ہیں۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ قرآن میں تحریف پر پختہ ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ قرآن کے بارے میں ان کے اس عقیدہ پر کوئی شورش وہنگامہ برپا ہو۔
نوری طبرسی نے'' مسئلہ امامت'' پر بحث کرتے ہوئے فصل الخطاب 216 طبع ایران میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کافرمان تحریر کیا ہے:
’’ لوترك القرآن كما انزل لا لفيتنا فيه مسمين ’’
یعنی'' اگر قرآن اس طرح چھوڑا جاتا جیسے نازل کیا گیا تھا تو اسے مخاطب ! تو ہمیں اس میں نام بنام پاتا۔''
نیز تفسیر'' صافی'' میں مقدمہ سادسہ کے تحت ص 25 پر ہے:
’’ لو لا زيد في القرآن ونقص ما خفي حقنا علي زي حجيٰ ’’
امام باقر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر قرآن میں بڑھایا اور گھٹایا نہ گیا ہوتا تو ہمارا حق (یعنی امامت) کسی زمی عقل پر پوشیدہ نہ رہتا۔''
کلینی نے اپنی 'الکافی'' میں اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے:
'' ان القرآن الذی جاء بہ جبرائیل علیہ السلام الی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سبعة عشر الف اية ’’ (کتاب فضل القرآن :2/634)
'' یعنی وہ قرآن جسے لے کر جبرائیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ ستر ہ ہزار آیات پر مشتمل تھا۔''
جبکہ یہ بات معروف ہے کہ قران کریم کی کل 6666 آیات ہیں۔اس کا معنی یہ ہے کہ دو تہائی قرآن پاک ہوا کی نذر ہوگیا اور موجودہ صرف ایک تہائی ہے کلینی نے باقاعدہ اپنی '' کافی '' میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔اور اس کے اثبات کے لئے ایک مستقل تبویب قائم کی ہے:
’’ باب زكر الصحيفة والحفر والجامعة ومصحف فاطمة عليها السلام ’’
اس کے تحت جو روایت بیان ہوئی ہے کافی تفصیلی ہے۔چند فقروں کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
''پھر امام نے فرمایا: ہمارے پاس مصحف فاطمہ ہے او ر لوگوں کو کیا معلوم کہ مصحف فاطمہ کیا چیز ہے۔!فرمایا وہ مصحف ہے جو تمہارے قرآن میں سے تین گنا زیادہ ہے۔اور اللہ کی قسم تمہارے اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں نہیں ہے بلکہ عبارت ہذا تو اس بات کی موئید ہے۔ کہ موجودہ مصحٖف کلی طور پر مصحف فاطمہ سے مختلف ہے جس کا حجم مولف''کافی'' نے ستر ہاتھ لمبا بیان کیا ہے۔''
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کہ روافض کا موجود ہ قرآن پر کس حد تک یقین ایمان ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک موجودہ قرآن کی شرعی کوئی حیثیت نہیں۔اگر کوئی بات بادل نخواستہ مسلمہ ی اقابل اعتراف ہے تو وہ صرف تقیہ کے طور پر جو در اصل جھوٹ سے تعبیر ہے۔
شاید کسی کو تردد لاحق ہو جب تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن غیر محرف ہے آخر شیعہ کو کیا تکلیف ہے اسے غیر محرف کیوں تسلیم نہیں کرتے۔اصلاً ا س کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ امر مسلمہ ہے کہ جامع قرآن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔جب یہ لوگ حضرات شیخین کے ایمان کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے جمع شدہ قرآن پر ایمان لے آیئں۔ اگر اسے تسلیم کریں تو حضرات موصوفین کی دیانت وامانت بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے۔جو ان کی عقول نحیفہ سے بالا تر شے ہے۔
(استغفرالله الذي لا اله الا هو واتوب اليه وان يلهنا حب الرسول اهل بيته وصحبه اجمعين آمين يا رب العالمين!)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب