السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شادی کے موقع پر کیا آج بھی چھوٹی بچیاں دف بجا کر اشعار پڑھ سکتی ہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’دف بجا کر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھنا۔‘‘ اس کی بنیاد درج ذیل حدیث پر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث سے متعلق گیت گا رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرۂ مبارک دوسری طرف پھیر کر لیٹ گئے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ شیطانی سازچہ معنی دارد؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:’’ ابوبکر! انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب مصروف ہو گئے تو میں نے ان بچیوں کو اشارہ کیا تو وہ اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ [صحیح بخاری، العیدین:۹۲۹]
ایک روایت میں ہے کہ عید کے دن انصار کی بچیاں گیت گا رہی تھیں۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۹۵۲]
ایک روایت کے مطابق وہ گیت گاتے وقت دف بجا رہی تھیں۔ [صحیح بخاری:۹۸۷]
ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ بچیاں پیشہ ور گلوکارہ نہیں تھیں۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر۹۵۲]
مغنیہ یا گلوکارہ اس پیشہ ور عورت کو کہتے ہیں جو کاروبار کے طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں نشے، ترنم اور زیرو بم ہوتا ہے۔ اس سے ہیجانی جذبات پیدا ہوتے ہیں، نیز اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہو تی ہے، مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچیاں گانے بجانے کے فن سے نا آشنا تھیں، اس بنا پر مندرجہ ذیل شرائط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آج بھی شادی کے موقع پر دف کو استعمال کیا جاسکتاہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
1۔ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہو تی ہے۔جس میں گھنگھرو کی جھنکار نہیں ہو تی اور نہ ہی’’ لشکارا گلی گلی ‘‘جاتا ہے۔
2۔ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کئے جائیں، کیونکہ ان آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن و حدیث میں واضح نصوص موجود ہیں، قرآن کریم نے ان آلات موسیقی کو ’’لہو الحدیث‘‘ کہہ کر ان سے اظہار نفرت کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ انہیں مباح سمجھ کر خوب، خوب استعمال کریں گے، جیسا کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں اسے ’’روشن خیالی‘‘ خیال کیا جاتا ہے۔
3۔ خوشی کے موقع پر ایسے اشعار پڑھیں جائیں جو شجاعت و بہادری پر مشتمل ہوں کہ حدیث میں صراحت ہے کہ انصار کی بچیوں نے ایسے اشعار پڑھے تھے جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر پڑھے تھے۔ خوشی کے موقع پر بزمیہ قسم کے اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ ہوں۔
4۔ جوان عورتیں ان میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں ایسے موقع پر ’’گنجائش‘‘ سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اگر بچیوں کے اشعار گانے سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو ان پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے، کیونکہ ایسے موقع پر مباح کام بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔
5۔ یہ اہتمام ایسے حلقہ میں ہو جہاں عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کادل بہلانے کے لئے اس قسم کی محفل کا اہتمام کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
6۔ و ہ گیت اور اشعار ایسے مضامین پر مشتمل نہ ہوں جو خلاف شرع ہیں۔ اگر شریعت سے متصادم اشعار ہیں تو ان پر پابندی لگانا شریعت کا عین تقاضا ہے۔
مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جاسکتے ہیں ،اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کے گانے اور دف بجانے کے موقع پر اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمادیا، گویا آپ نے اس انداز سے یہ تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں گانا اور دف بجانا اباحت مرجوحہ کے درجہ میں تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب