السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے پیش امام اور خطیب مولانا دلپذیر صاحب 27۔28سال سے ہمارے گاؤں میں فرائض امامت و خطابت سر انجام دے رہے ہیں ، اس عرصہ میں وہ مولانا صاحب ہمیں ہر قسم کےمسائل بتاتے رہے اور یہ بھی بتاتے رہے کہ شیعہ رافضی کافر ہے ، ان سے نکاح ، ان کے ساتھ قربانی میں شریک ہونا ، ان کی جنازہ میں شریک ہونا ناجائز اور حرام ہے ، ایک دفعہ ایک شیعہ رافضی کے جنازہ میں بعض مسلمانوں کے شریک ہونے پر ان کے نکاح ٹوٹنے کا فتوی بھی دیا ،پھر ان لوگوں کانکاح دوبارہ پڑھا گیا ، شیعوں نے مکان سوزی کے جعلی مقدمہ میں مولوی صاحب مذکورہ اور چند دوسرے افراد کو ملوث کیا ۔ جس سے مولوی صاحب انتہائی درجہ گھبرا گئے اور اس نے پنچائیت میں تحریری طورپر معافی نامہ دے کر صلح کر لی۔ معافی نامہ میں دائر کیا کہ شیعہ پکے مسلمان ہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے ،میں معافی چاہتا ہوں ۔ ہم نے ان کونماز پڑھانے سے منع کر دیا ، ایک دوسری پارٹی اس کو امام رکھنے پرمصر ہے۔ سوال طلب امر یہ ہے کہ آیا اس امام کے پیچھے نماز جمعہ وعیدین وغیرہ جائز ہے یا ناجائز ؟ ( الو الحسن مبشر احمد ربانی ، میلاں تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال ، شیعہ اثناء عشریہ اپنےحسب ذیل پانچ خصوصی عقائد و افکار کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے علیحدہ گروہ ہے اور وہ عقائد وافکار یہ ہیں :
1....... اکثر صحابہ مرتد ہو گئے تھے ۔ صحابہ کرم باستثناء چند افراد معاذ اللہ منافق اور مرتد ہیں بالخصوص حضرات شیخین یعنی سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم ۔ نہ صرف یہ کہ کافر پ، منافق ، غاصب اور ظالم تھے بلکہ رسوائے زمانہ نمرود ، فرعون ، ابوجہل حتی کہ ابلیس لعین سے بھی بڑے کافر تھے ، جیسے کہ ان کی بنیادی اور مستند کتابوں میں لکھا ہے۔ ملاحظہ ہ شیعی ثقہ الاسلام ابو جعفر محمدبن یعقوب کلینی کی اصول کافی ’’ باب فيه نكث ونتف من التنزيل فى الولاية ( ج1ص 420) بطور نمونه كى دوحوالے ملاحظہ فرمائیے :
1۔شیعہ کے درجہ اول کے محدث ملامحمد بن یعقوب اپنے پانچویں امام محمدبن علی الباقر کےنام سے یہ عقیدہ پیش کرتےہیں :
كان الناس أهل ردة بعد النبي صلى الله عليه وآله) إلا ثلاثة فقلت: ومن الثلاثة؟ فقال: المقداد بن الأسود وأبو ذر الغفاري و سلمان الفارسي رحمة الله وبركاته عليهم وبرکاته . (فروع كافى ج8ص249)
’’کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سب لوگ (صحابہ ) سوائے حضرت مقداد حضرت ابو ذر اور سلمان فارسی کے مرتد ہو گئے تھے۔‘‘
2۔قرآن کے اندر جو فرعون اور ہامان کا ذکر ہوا ہے یہ دونوں ابو بکر اور عمر ہیں ۔ ( اصول کافی اور کتاب حق الیقین ) اور اسی کتاب حق الیقین میں یہ تک لکھا ہے کہ صحابہ کا دوست بھی کافر ہے۔ ( ص : 522) اور جہنم میں سب سے پہلے زیادہ سے زیادہ عذاب انہی دونوں کوہورہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ ( کتاب حق الیقین ص509، 510)یہ تو ہے شیعہ کا عقیدہ صحابہ کے بارے میں ۔ اب قرآن مجید کے بارے میں ان کا عقیدہ فاسدہ پڑھئے ۔
مسلمانوں کے ہاتھوں میں مسند اول اور موجودہ قرآن مجید اپنی اصل شکل میں نہیں بلکہ معاذ اللہ یہ قرآن محرف ہے اور اس میں پانچ قسم کی تحریف کی گئی ہے
(1)کمی (2)اضافہ (3)تبدل حروف (4)تبدل الفاظ (5)سورتوں ، آیتوں اور کلمات قرآن میں تبدیلی ۔
( اصول كافى باب فيه ذكر الصحيفة والجامعة ومصحف فاطمه ج1 ص 239تا 242)
ملاحسن بن محمد تقى نوری طبرسی کی کتاب فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب جو 298صفحات پرمشتمل ہے ، قرآن میں تحریف ثابت کرنے کےلئے لکھی گئی ہے ۔
عن أبى عبد الله قال إن القرآن الذى جاء به جبريل سبعة عشر ألف آية . ( اصول كافى كتاب فضل القرآن ج2 ص 634)
اصل قرآن وہ ہے جو جبریل رسول اللہ کے پاس لایا تھا اس کی 17ہزار آیات تھیں ۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس قرآن مجید جو مکمل ہے اس کی 6666آیات ہیں ۔
موجودہ قرآن مکمل اور محفوظ کہنے والاکذب ہے ۔ ( اصول کافی کتاب الحجۃ ج1ص 228)اوراسی کتاب کے باب النوادر میں ہے کہ شیعوں کا ایک قرآن الجامعۃ ستر ہاتھ لمبا ہے ۔ اصول کافی باب فيه الصحيحة والجفر والجامعة ومصحف فاطمه ج1 ص 239تا 242) كى مطابق قرآن مجيد ايك نہیں چار ہیں ۔ اور پھر ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ جبکہ قرآن مجید کی متعدد نصوص صریحہ کے مطابق صرف ایک قرآن نازل ہوا تھا اور وہ اپنی اصل شکل میں محفوظ اور متداول ہے ۔ صدق اللہ تعالیٰ:
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـفِظونَ ﴿٩﴾... سورة التوبة
﴿ وَإِنَّهُ لَكِتـبٌ عَزيزٌ ﴿٤١﴾ لا يَأتيهِ البـطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ﴿٤٢﴾... سورة حم السجدة
ان کے مزعومہ 12امام مامور من اللہ ، مفترض الطاعۃ اور بے پناہ اختیارات کےمالک ہیں ۔ ان کے 12اماموں پر بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ ( اصول کافی : باب عرض الاعمال علی النبی والائمۃ ج1ص 21) ان کے اماموں کے پاس کے پاس انبیاء کے معجزے بھی تھے۔ ( اصول کافی: فی الباب ما عند الائمۃ من ایات الانبیاء۔ ج1ص 231، 232) ان ائمہ کے پاس تورات ، زبور اور انجیل کا مفصل علم بھی محفوظ ہے ۔
( اصول کافی : با ب ان الائۃ عندھم جمیع الکتب التی نزلت من عند اللہ ج1 ص 225تا 227)
ان ائمہ کوہر جمعرات معراج کرائی جاتی ہے حتی کہ وہ عرش الہی کاطواف بھی کرتے ہیں ۔ ( اصول کافی ج1 ص 245) مزید تفصیل کے لئے اسی کتاب کے درج ذیل ابواب بھی پڑھئے :
باب أن الائمة عليهم السلام يعلمون جميع العلوم التي خرجت إلى الملائكة والانبياء والرسل عليهم ا لسلام وباب أن الائمة عليهم السلام يعلمون متى يموتون، وانهم لا يموتون الا باختيارهم وباب أن الأئمة يعلمون علم ماكان وأنه لايخفى عليهم شيء عليهم شيء وغيرها.
مزيد یہ کہ ان کے مزاعومہ 12امام حضرات انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء بلکہ انبیاء سے بھی افضل ہیں ، جیسا کہ ملا باقر مجلسی کی کتاب ’’حیات القلوب ج3 ‘‘ میں لکھا ہے ’’امامت بالاتر از پیغمبر است ‘‘ (ص10) کہ ان کے علم کلام کے مطابق ان کی مفروضہ اور محترمہ امامت منصب نبوت سے بڑھ کر ہے جو آگے چل کر ختم نبوت کی نفی پر منتج ہوتی ہے ، گویا ان کے نزدیک ان کا ہر ایک نبی ہے ۔
ان کا چوتھا اساسی اوراصولی اہمیت کا عقیدہ کتمان علم ہے جوان کے زعم کے مطابق عزت وبرتری کا قوی ترین ذریعہ ہے کہ جو ان کے دین کو چھپائے ، عزت پائے گا اور جو اس کی اشاعت کرے گا ذلت کا منہ دیکھے گا ۔ چنانچہ ان کے چھٹے امام جعفر صادق اپنے ایک مرید اور شاگرد سلیمان کو یوں نصیحت فرماتے ہیں : يا سليمان إنكم على دين من كتمه أعزه الله ومن أذاعه أذله الله – ( اصول كافي ، باب كتمان العلم)
اسی طرح ان کا بنیادی اور اصولی اہمیت کا ایک پانچواں عقیدہ تقیہ ہے اور یہ عقیدہ اتناضروری ہے کہ اگر کوئی شخص تقیہ جھوٹ نہیں بولتا اور متضاد باتیں نہیں کرتا وہ لادین اور بے ایمان ہے ۔ جیسا کہ ان کے پانچویں امام جناب ابو جعفر باقر فرماتے ہیں : التقيه من دينى ودين آبائى ولا إيمان لمن لا تقيه له – (أصول كافى : ج2باب التقية ص 218، 219) شیعہ اثناء عشریہ کے پانچوں عقائد اور اسی طرح دوسرے عقائد باطلہ مثلاً الوہیت علی ، نبوت علی و کفر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ و ام المومنین حضرت حفصہ ؓ پر زنا کی تہمت وغیرہ ۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ ٹھیٹھ اسلام ، یعنی کتاب وسنت کی نصوص صریحہ ، جلیہ ، متواترہ سے از مفرق تاکعب سراسر متصادم ہیں ۔ اس لئے ان کے ان عقائد کفریہ کی بنا پر فقہاء ، محدثین اور علمائے مذہب اربعہ شروع ہی سے اس فرقہ کو غیر مسلم کہتے چلے آئے ہیں ۔ بطور مشتے از خروارے متقدمین اور متاخرین فقھاء ،محدثین اور محققین علمائے امت اورماہرین شریعت کی چند تصریحات زیب قرطاس ہیں ۔
سورۂ فتح کی آخری آیت کے ایک ٹکڑے ليغظ بهم الكفار کی تفسیر میں امام ابن کثیر رقم فرماتے ہیں :
من هذه الآية انتزع الإمام مالك رحمة الله عليه في رواية عنه بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة رضي الله عنهم قال : لأنهم يغيظونهم ومن غاظ الصحابة رضي الله عنهم فهو كافر لهذه الآية ووافقه طائفة من العلماء رضي الله عنهم على ذلك والحدیث فى فضل الصحابة رضى الله عنهم والنهى عن التعرض بمساويهم كثيرة ويكفيهم ثناء الله عليهم ورضا عنهم . (تفسير ابن كثير :ج4 ص 20)
’’امام مالک نے سورۂ فتح کی اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہوئے ان رافضیوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے جو صحابہ سے بغض و حسد رکھتے ہیں ۔ کیونکہ صحابہ کے مقام رفیع کو دیکھ کر جلتے ہیں اور جوشخص صحابہ سے جلتا ہے وہ اس آیت شریفہ کی رو سے کافر ہے اور امام مالک کے فتوی سے علماء کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے اگرچہ صحابہ کے فضائل ومناقب میں اور ان کی بد گوئی کی ممانعت میں احادیث کثیر مروی ہیں تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صحابہ کرام کی جو تعریف و ثنا اور ان سے اپنی رضا کی جوآیات نازل فرمائی ہیں ان کو وہی کافی ہیں ۔ مزید کسی تزکیہ کی حاجت نہیں۔‘‘
وواقفه الشافعى رحمه الله عليه فى قوله ﴿بكفرهم﴾ ووافقه أيضا جماعة من الأئمة – ( الصواعق المحرفة :ص210)
’’رافضیوں پر کفر کے فتویٰ میں امام شافعی اور ائمہ اہل سن کی ایک جماعت نے امام مالک سے موافقت فرمائی ہے ۔ ‘‘
فمذهب أبى حنيفة رحمه الله عليه أن من أنكر خلافة الصديق وعمر فهو كافر على خلاف ما حكاه بعضهم وقال الصحيح إنه كافر - (الصواعق المحرفة :ص210)
’’امام ابو حنیفہ کے نزدیک شیخین کی خلافت کا منکر کافر ہے، اگرچہ اس مسئلہ میں بعض اس سے فتویٰ کے خلاف نقل کیا ہے مگر امام ابو حنیفہ کے صحیح مذہب میں شیخین کی خلافت کا منکر کافر ہے۔‘‘
فتاویٰ بیعیہ میں بھی یہی منقول ہے۔ شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
حبهم (الصحابة ) دين و إيمان وإحسان وبغضهم كفر ونفاق و طغيان . (ص528تا 533)
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمٰعین سے قلبی محبت دین، ایمان اور احسان کی شناخت ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ، نفاق اور اسلام سے سرکشی کی دلیل ہے۔‘‘
وقال أبويعلى الحنبلى الذى عليه الفقهاء فى سب الصحابة إن كان مستحلا كفر – ( الصواعق المحرفة :ص258)
کہ اگر کوئی بدقسمت صحابہ کو گالی دینا حلال سمجھتا ہے تو وہ فقہائے امت کے نزدیک کافر ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے فتاویٰ بھی اگے چل کر لکھے جائیں گے
إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق لأن رسولاللهﷺعندنا حق والقرآن حق وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنة أصحابُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليُبطلوا الكتاب والسنة والجرح بهم أولى وهم زنادقة. ( الصواعق المحرفة :ص34)
’’جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو کہ جو کسی ایک صحابی پر تنقیص ( بدگوئی ) کر رہا ہو تو جان لو وہ زندیق ہے کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ اور قرآن مجید دونوں حق ہیں۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تمام سنتیں صحابہ کرام ہی نے ہم تک پہنچائی ہیں۔ گویا صحابہ کرام ھمارے دین کے اولین گواہ ہیں۔لہٰذا ان کی بدگوئی کرنے والے دراصل ہمارے گواہوں پر جرح کر کے کتاب و سنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ جرح کرنے والے خود جرح کے بالاولیٰ مستحق ہیں اور زندیق ہیں۔‘‘
إن الروافض ليسوا من المسلمين إنما هي فرق حدث أولها بعد موت النبي صلى الله عليه وسلم بخمس وعشرين سنة ،وهي طائفة تجري مجرى اليهود والنصارى في الكذب والكفروهي طوائف :أشدهم غلواً يقولون بإلهية علي بن أبي طالب والإهية جماعة معه (الفیصل :ج2 ص 78)
’’رافضی لوگ مسلمان نہیں۔ان کا پہلا گروہ حضرت علی کی وفات سے کئی پچیس سال بعد پیدا ہوا، یہ لوگ کذب بیانی اور اپنے کفر میں یہودو نصاریٰ کی راہ پر چلتے ہیں ۔ شیعوں کا یہ فرقہ دوسرے فرقوں کی نسبت اس قدر غالی واقع ہوا ہے کہ حضرت علی اور ایک جماعت کو الٰہ مانتا ہے۔‘‘
وكل هذا كفر صريح لا خصائبه و أما الغالية من الشيعة فهم قسمان: القسم الاول أوجبت النبوة بعد النبى ﷺ لغيره والقسم الثانى أوجبوا الالهية لغيره اله عزو جل فلحقوا بالنصارى واليهود وكفروا أشد الكفر - (الفیصل ج4 ص 183)
’’شیعہ کی یہ تمام ہفوات کھلا اور ننگا کفر ہیں۔غالی شیعوں کے دو گروہ ہیں: ایک گروہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعدحضرت علی وغیرہ کو نبی مانتا ھے اور دوسرا گروہ حضرت علی کو الٰہ کہتا ہے۔اس ترح یہ دونوں گروہ اپنے ان باطل معتقدات کیوجہ سے یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل چکے ہیں اور بدترین کافر ہیں۔‘‘
القول بأن بين اللوحين تبديلا كفر صريح وتكذيب رسول الله ﷺ - (الفیصل ج4 ص 182)
’’شیعہ کا یہ عقیدہ کہ دونوں لوحوں کے درمیان قرآن مجید محرف اور تبدیل شدہ ہے، کفر صریح اور تکذیب رسولﷺ پر مبنی ہے۔۔۔عربی۔۔
أما من اقترن بسبه دعوى أن عليا إله أو انه كان هو النبى وإنما غلط جبريل فى الرسالة فهذا لاشك فى كفره بل لاشك فى كفر من توقف فى تكفيره – ( الصارم المسلول :ص591)
’’جو شخص صحابہ کرام کو گالیاں بکنے کے ساتھ ساتھ حضرت علی کو الٰہ مانتا ہو یا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی تو دراصل حضرت علی تھے۔ جبریل نے غلطی سے محمدﷺ بن عبداللہ کو رسول بنا دیا تو ایسے شخص کے کفر میں قطعاَ کوئی شک نہیں، بلکہ ایسے بدبخت کے کفر توقف کرنے والا بھی بلاشبہ کافر ہے۔‘‘
وكذلك من زعم منهم أن القرآن نقص منه آيات وكتمت أو زعم أن له تأويلات باطنة تسقط الأعمال المشروعة ونحو ذلك ، وهؤلاء يسمَّون القرامطة والباطنية ، ومنهم التناسخية ، وهؤلاء لا خلاف في كفرهم . ( الصارم المسلول :ص591)
’’اسی طرح جس شخص کا یہ عقیدہ ہوکہ موجودہ قرآن ناقص ہے اور اس کا کچھ حصہ چھپا لیا گیا ہے، یا وہ اعمال مشروعہ کے ابطال کےلئے باطنی تاویلات کو جائز جانتا ہو ،جیسا کہ قرامطہٰ باطنیہ اور تناسیخہ وغیرہ شیعی فرقوں کے عقائد ہیں تو ان کے کفر میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔‘‘
یعنی یہ فرقےبالاتفاق اہلسنت و الجماعت کافر ہیں۔ الشیخ ممدوح ایک اور مقام پر صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والوں کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں:
واما من جاوز ذلك إلى أن زعم انهم ارتدوا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم, إلا نفرا قليلا يبلغون بضعة عشر نفرا أو انهم فسقوا عامتهم فهذا لا ريب أيضا في كفره, لأنه كذب لما نصه القرآن في غير موضع : من الرصي عنهم, والثناء عليهم, , بل من يشك في كفر مثل هذا فإن كفره متعين. ( الصارم المسلول :ص592)
’’جو شخص تفضیل علی یا سب صحابہ سے آگے بڑھ کر یہ عقیدہ رکھے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ماسوائے دس پندرہ افراد کے دوسرے تمام صحابہ معاذ اللہ مرتد یا فاسق ہو گئے تھے تو ایسے شخص کے کفر میں قطعا کوئی شبہ نہیں کہ وہ قرآن مجید کی ایسی بیش از پیش آیات صریحہ کو جھٹلا رہا ہےجن میں اللہ تعا لیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان و اخلاص اور ان کی جہادی کاوشوں کو خراج تحسین پیش فرمایا ھے اور ان کو اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ جاری فرمایا ہے، لہٰذا جو شخص ایسے بدبخت کے کفر میں شک کرتا ہے وہ کافر ہے۔‘‘
آپ نے رافضیوں کی قباحتوں کی تردید میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس میں آپ نے تصریح فرمائی ہے کہ جو شخص موجودہ قرآن مجید کے خلاف عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت بلافصل کے اثبات میں منقول احادیث ،اجماع صحابہ اور جمہورامت کے حق پر ہونے کے دلائل اتنی کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ جو شخص جمہورصحابہ کو (معاذاللہ) ظالم ،فاسق قرار دےاور ین کے اجماع کو باطل قرار دےیا باور کرے وہ دراصل رسول اللہﷺ کی تنقیص کرتا ھے اور آپﷺ کی تنقیص کفر ہے۔
وأبعدهم الأمامية وأما الغالية فليسوا بمسلمين ولكنهم أهل ردة وشرك. (خبيئة الاكوان :ص 15)
”دوسرے شیعی فرقوں کی نسبت امامیہ فرقہ اہل سنت سے بہت ہی دور ھے۔ رہے غالی شیعہ تو یہ لوگ مسلمان ہرگز نہیں بلکہ مرتد اور مشرک ہیں۔‘‘
ومن حجد شيئا من القرآن وفارق الإجماع من العجارده وغيرهم فكافر باجماع الأمة . (خبيئة الاكوان :ص 15)
’’جو شخص موجود اور متد اول قرآن مجید کے محفوظ اور مکمل ہونے کا انکار کرے اور اجماع امت سے الگ راہ اختیار کرے جیسے فرقہ مجاروہ وغیرہ تو یہ شخص بالاجماع امت کافر ہے۔‘‘
ومن قول الكيسانية أن البداء جائز على الله فهو كفر صريح . (خبيئة الاكوان :ص 31)
’’شیعہ کے فرقہ کیسانیہ کا یہ قول کہ اللہ تعا لیٰ کو بداً ہوتا ہے۔کفر صریح ہے۔‘‘
آپ ایک استنشاء کے جواب میں ارقام فرماتے ہیں:
مطلق روافض کی تکفیر میں فقہاء کا نزاع اور تفصیل ہے۔ جو رافضی حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ رسول صحبت سے منکر ہو،جو قرآن سے ثابت ہے،یا ان کی بیٹی عائشہ صدیقہ بنت الصدیق ،ام المئومنین حبیبہ ،رسول اللہﷺ المبراة من فوق سبع السموات کو تہمت زنا کی دے اور رسول اللہﷺ کو معاذ اللہ زانیہ و فاحشہ کا زوج قرار دے۔
کیونکہ یہ امور قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ یا کسی ایسی بات کاانکار کرے۔ جو بالتواتر ثابت ہے۔یا علی ابن ابی طالب میں غلو کرے اور اعتقاد الوہیت کا ان میں رکھے۔ یا نسبت غلطی کی جبرائیل کی طرف کرے پیغمبری پہنچانے میں کہ بجائے علی کے محمد ﷺ کو دے دی ،یا قرآن شریف کی کی حفاظت کا منکر ہو کہ قرآن چالیس پارہ تھا۔دس پارہ جو علی کی مدح میں تھا وہ مسلمانوں نے چھپا لیا ، یا کسی اور بات کا انکار کرے جو ضروری الثبوت ہو ضرورت دین سے بالاتفاق کافر ہے اور اکثر فقہاء کے نزدیک ساب شیخین (گالی دینے والاابوبکر و عمر کا ) کافر ہے۔
حضرت قاضی صاحب کا یہ جواب سات صفحات پر مطبوع ہے اور اس کے اخر میں آپ کے 26 نامور معاصرین علمائے کرام کی تصدیقات او تصویبات درج ہیں، ان کا راولپنڈی اور اس کے نواح کے ساتھ تعلق ہے۔اس رسالہ کی فوٹوسٹیٹ ہمارے پاس محفوظ ہے۔(رسالہ ردرفض)
حضرت علی کی طرح خلافائے ثلاثہ بھی مہاجر ہیں۔اور یہ امر بدیہی ہے اور تواتر سے ثابت ہے۔بسبب ارشاد باری تعالی:
﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهـرُ خـلِدينَ فيها أَبَدًا ذلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
اس آیت شریفہ سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ خلفائے ثلاثہ و غیر ہم صحابہ مہاجرین و انصار کو کافر، منافق کہنا، ان کو دائمی دوزخی بتانا قرآن مجید کی تکزیب ہے اور یہ کہنا کہ حضور ﷺ کے انتقال کے بعد مرتد ہو گئے تھے یا پہلے سے منافق تھے اور رسول اللہﷺ نے ین جنتی بتا کر ان کو بشارت بھی دی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے رسولﷺ کو اس پر مطلع نہ کیا تو پھر آپﷺ معصوم کیسے رہے؟ اور اگر اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم نہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تجہیل معاذاللہ ہے بہرحال خلفائے ثلاثہ(حضرت صدیق، فاروقاور عثمان غنی ) کے بارے میں ایسے ناپاک خیالات صراحاً کفر ہیں۔(فتاوی ثنائیہ : کتاب الایمان ج1 ص 190، 191)
ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ان فرق کے زندیق ،ملحد ، بدعتی ہونے پر کوئی شک نہیں۔ البتہ کافر ہونے میں تفصیل ہے۔مرزایئیہ، چکڑالو یہ تو بےشک کافر ہیں۔ معتزلہ،جہمیہ،قدریہ،جبریہ بھی تقریباً ایسے ہی ہیں۔ لیکن صاف کافر کہنا مشکل ہے۔ رافضیہ میں سے غالی قطعاً کافر ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق وغیرہ کو مرتد کہتے ہیں، زیدیہ کافر نہیں۔ (فتاوی اھل حدیث (روپڑیہ ) کتاب الایمان ج1 ص 1)
علامہ نووی شارح صحیح مسلم تحریر فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو گالی دینا حرام ہے، بلکہ بعض بزرگوں کے نزدیک صحابہ کو گالی دینے والا کافر ہے ،واجب القتل ہے۔(فتاوی عبد السلام سلفی بستوی : ص 235، 236)
أن القوم يدينون بدين هو غير دين الله الذي جاء به محمد بن عبد الله، نبي الله وصفيه صلوات الله وسلامه عليه، ويؤمنون بالقرآن غير القرآن الموجود في أيدي الناس، والمنزل من الله على قلب المصطفى، نزل به الروح الأمين- صلى الله عليه وسلم -، ولهم عقائد ومعتقدات لا تمت إلى الإسلام بصلة والإسلام منها بريء.( الشيعہ وأهل البيت:3، 4)
’’شیعہ حضرات ایسے دین پر عمل پیرا ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ رسول محمد بن عبداللہ ﷺ کا لایا ہوا دین ہرگز نہیں، وہ ایسے قرآن پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ترف سے بذریعہ روح الامین حضرت محمدﷺ کے قلب شریف پر نازل ہوانے والے متداول اور موجودہ قرآن کے علاوہ کوئی اور ہی قرآن ہے اور وہ ایسے عقائد اور نظریات اختیار کیئے ہوئے ہیں جن کا اسلام کے ساتھ کسی بھی درجہ میں قطعاً کوئی تعلق نہیں اور اسلام ان کے ایسے عقئد و نظریات سے بری اور بیزار ہے۔
واقعی شیعہ شیعی مسلمات کی رو سے اسلام سے علیحدہ قوم قرار پائی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیعہ اثناء عشریہ اپنے مذکورہ بالا عقائد باطلہ اور نظریات فاسدہ کی وجہ سے کافر اور اسلام سے علیحدہ قوم ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ میل جول ،مناکحت، ان کی عیادت، جنازہ میں شرکت، ان کی مجالس میں حاضری اور تعزیہ کےجلوس وغیرہ بدعات و خرافات میں شمولیت ہرگز جائز نہیں۔ اور مولوی دلپزیر صاحب کی رائے اہل سنت و الجماعت کے عقائد صحیحہ کے سراسر خلاف اور غلط ہے۔ان کو اپنے غلط رویے سے توبہ کر لینی چاہیے ورنہ ان کی امامت جائز نہیں، یعنی ان کی اقتداء میں نماز، عیدین وغیرہ ہرگز جائز نہیں کیونکہ وہ باطل اور خلاف اسلام عقائد لوگوں کو پکے مسلمان قرار دے کر صراط مستقیم سے بھٹک کر گمراہ ہو چکا ہے۔ اس کی حامی پارٹی کو بھی بشرطیکہ وہ عقیدہ اور عمل میں اہل سنت ہیں، اس قسم کے مولوی کی امامت قائم رکھنے کےلئے اصرار نہیں کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب