السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاامام کوعیدین کے موقع پر جمعہ کی طرح دوخطبے دینا چاہییں یاایک ہی خطبہ کافی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ شرعی احکام کے ثبوت کے لئے دلائل درکار ہوتے ہیں جوبالکل صحیح اور اپنا مدعا بیان کرنے میں صریح ہوں ،صورت مسئولہ میں ہمارے ہاں معمول یہی ہے کہ عیدین کے موقع پر دوخطبے دئیے جاتے ہیں اوراس پر عاملین حضرات اپنے پاس دلائل بھی رکھتے ہیں ،یہ دلائل دوطرح کے ہیں:
1۔ استنادی طورپر بالکل صحیح ہیں لیکن اپنے مدعا پردلالت کرنے کے لئے صریح نہیں ہیں۔
2۔ اپنے مفہوم میں بالکل صریح ہیں لیکن ان کی اسنادی حیثیت انتہائی مخدوش ہے ،فیصلے سے پہلے دلائل مع حیثیت پیش خدمت ہیں، تاکہ نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی رہے۔
٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر دوخطبے ارشاد فرماتے تھے اوردرمیان میں بیٹھ کران میں فصل فرماتے۔ [صحیح ابن خزیمہ، ص:۳۴۹،ج ۳]
اس حدیث پرمحدث ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بایں الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے کہ ’’یہ باب عیدین میں خطبوں کی تعداد اوران کے درمیان بیٹھ کرفصل کرنے کے بیان میں ہے ۔‘‘(حوالہ مذکورہ )
اس حدیث سے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے ثابت کیاہے کہ عیدین کے دوخطبے ہیں اوران کے درمیان بیٹھ کرفصل کرناچاہیے، لیکن اس کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں :
بلاشبہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن مذکورہ مؤقف کے ثبوت کے لئے واضح اورصریح نہیں ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث جمعہ کے دونوں خطبوں سے متعلق ہے۔ [تعلیق صحیح ابن خزیمہ ،ص:۳۴۹،ج ۳]
اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت کے ایک راوی عبید اللہ ہیں جن سے بشربن فضل مطلق طورپر بیان کرتے ہیں، یعنی اس میں عیدین یاجمعہ کاذکر نہیں ہے جبکہ ایک دوسرے طریق میں عبید اللہ راوی سے خالد بن حارث بیان کرتے ہیں تووہ اس میں یوم جمعہ کا ذکر کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت جمعہ کے خطبوں سے متعلق ہے ،روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرماتے تودرمیان میں بیٹھ کر پھرکھڑے ہوتے۔‘‘ [صحیح مسلم ،الجمعہ :۸۶۱]
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت کاعیدین کے خطبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ واضح طورپریہ روایت جمعہ کے خطبہ سے متعلق ہے، اس کی تا ئید حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرماتے ،بعدازاں بیٹھ جاتے اورگفتگو نہ فرماتے، پھر کھڑے ہوکر دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے۔ [صحیح مسلم ،الجمعۃ :۸۶۲]
امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کومطلقاً بھی بیان کیا ہے اوراس سے انہوں نے جمعۃ المبارک کے دوخطبوں کے متعلق دلیل لی ہے اور اس پر خطبات جمعہ کا ہی عنوان قائم کیا ہے ۔
٭ اس سلسلہ میں دلیل کے طورپر دوسری روایت حسب ذیل ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اورعید الاضحی کے دن باہر تشریف لے گئے ،آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا ،پھردرمیان میں بیٹھ کر دوبارہ کھڑے ہوئے ۔ [ابن ماجہ ،اقامۃ الصلوٰۃ :۱۲۸۹]
یہ روایت عیدین کے دوخطبوں کے لئے اگرچہ صریح اورواضح ہے لیکن صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت سند اورمتن کے اعتبار سے ’’منکر ‘‘ہے اور محفوظ یہ ہے کہ اس کا تعلق جمعہ کے خطبہ سے ہے۔[ضعیف ابن ماجہ، ص: ۹۴]
اس روایت کے ناقابل حجت ہونے پر درج ذیل وجوہات ہیں:
٭ اس روایت میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم ہے جس کے متعلق محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ ضعیف ہے،چنانچہ علامہ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں اسماعیل بن مسلم راوی ہیں جس کے ضعف پرتمام محدثین کااتفاق ہے۔ [زوائد ابن ماجہ ،ص:۴۰۹، ج ۱]
علامہ ساعاتی نے بھی اس ’’اتفاق محدثین ‘‘کونقل کیا ہے ۔ [فتح الربانی ،ص:۱۵۵،ج ۶]
٭ علامہ بوصیری نے اس روایت کے ایک دوسرے راوی ابو الحبر کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ (ابن ماجہ حوالہ مذکورہ)
٭ اس روایت میں ابو الز بیر راوی مدلس ہے،جوحضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتاہے کہ اس میں تصریح سماع نہیں، اس بنا پر بھی روایت کاضعف برقرار ہے ۔
٭ امام نسائی نے اس روایت کونقل کیا ہے لیکن اس میں ’’یوم الفطر اور یوم الاضحیٰ‘‘ کے الفاظ بیان نہیں ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت کے مذکورہ صریح الفاظ محفوظ نہیں بلکہ کسی راوی کے وہم کانتیجہ ہیں۔ [نسائی، العیدین:۱۲۵۷]
٭ اس مؤقف کے متعلق تیسری روایت جوبطوردلیل پیش کی جاتی ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عیدین اذان اوراقامت کے بغیر ادا کی اورآپ کھڑے ہوکر دو خطبے دیتے اوردونوں کے درمیان بیٹھ کر فصل فرماتے۔ کشف الاستارعن زوائد البز ار:۶۵۷]
یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ہے کیونکہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بزار رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’وجادہ‘‘ کے طور پربیان کیا اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی بھی ہے جسے میں نہیں پہچانتا ہوں۔ [مجمع الزوائد، ص:۲۰۳، ج۲ ]
’’وجادہ‘‘ محدثین کی اصطلاح ہے، جس کا یہ مطلب ہے کہ محد ث کسی حدیث کوایک کتاب میں نقل شدہ پاتا ہے اوراس کتاب کے حوالہ ہی سے بیان کردیتا ہے، چنانچہ اس روایت میں ایک راوی احمد بن محمد بن عبدالعزیز ہے جواس حدیث کے متعلق بیان کرتا ہے کہ میں نے اس روایت کواپنے باپ کی کتاب میں پایا، یعنی باپ نے براہِ راست اپنے بیٹے کوحدیث بیان نہیں کی بلکہ بیٹے نے اپنے باپ کی کتاب میں لکھی ہوئی دیکھی اوراسے آگے بیان کرنا شروع کردیا ،مزید برآں محمد بن عبدالعزیز جس کی کتاب سے اس حدیث کودریافت کیا گیا ہے، اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منکراحادیث بیان کرنے والا ہے۔ [لسان المیزان، ص:۲۶۰،ج ۵]
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جس راوی کے متعلق یہ لفظ استعمال کریں اس سے روایت لینا ہی جائز نہیں۔ چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ جس راوی کے متعلق آپ یہ الفاظ ذکرکریں اس سے روایت لیناصحیح نہیں ہے۔ [میزان الاعتدال، ص:۶،ج ۱]
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں بھائی، یعنی محمد بن عبدالعزیز ،عبد اللہ بن عبدالعزیز اورعمران بن عبدالعزیز حدیث کے معاملہ میں کمزور ہیں اوران کی بیان کردہ احادیث صحیح نہیں ہیں۔[الکامل لابن عدی، ص:۲۲۴۳،ج ۶]
نیز اس حدیث کاپہلا راوی جو امام بزار رحمہ اللہ کااستاد ہے جس کانام عبد اللہ بن شبیب ہے، اس کے متعلق محد ثین کی رائے ہے کہ تاریخی معلومات توبہت رکھتاہے لیکن حدیث کے معاملہ میں واہی تباہی مچانے والا ہے اورامام احمد رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ حدیث کے معاملہ میں یہ گیا گزرا انسان ہے ۔ [لسان المیزان، ص: ۳۹۹،ج ۳]
امام رازی رحمہ اللہ تویہاں تک لکھتے ہیں کہ یہ قابل گردن زدنی راوی ہے۔ [تاریخ بغداد، ص:۴۷۵،ج ۹]
ایسے حالات میں اس روایت کی کیاحیثیت رہ جاتی ہیں، چنانچہ مصنف البزار اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ روایت صرف اسی سند سے مروی ہے۔ [مسند البزار، ص: ۲۳۱،ج۳]
جب اس روایت کی کوئی دوسری سند ہی نہیں تواسے ناقابل حجت ہی قرار دیا جائے گا، محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [تمام المنۃ، ص:۳۴۷]
٭ اس سلسلہ میں آخری اورچوتھی روایت مندرجہ ذیل پیش کی جاتی ہے، عبید اللہ تابعی کہتے ہیں کہ امام کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ عیدین میں دوخطبے دے اور درمیان میں بیٹھ کر فصل کرے ۔ [بیہقی ،ص:۲۹۹،ج ۳]
اس روایت کے متعلق ہماری مندرجہ ذیل گزارشات ہیں :
٭ اس میں ایک راوی ابراہیم بن محمد ابی یحییٰ ہے جسے محدثین نے متروک اورکذاب قرار دیا ہے اس کے متعلق امام یحییٰ بن معین لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ،تقدیر کامنکر اوررافضی تھا ۔ [تہذیب، ص:۱۵۸،ج۱ ]
٭ اگرصحابی ’’من السنۃ ‘‘جیسے الفاظ استعمال کرے تویقینا ایسی روایت حکماً مرفوع ہوتی ہے لیکن اگریہ انداز کسی تابعی کاہو تواس میں محدثین کااختلاف ہے رائج یہ ہے کہ ایسی روایت کو موقوف شمار کیاجائے مذکورہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے، چنانچہ علامہ ساعاتی فرماتے ہیں کہ کسی تابعی کا ’’من السنۃ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے متعلق ظاہر نہیں اورنہ ہی یہ انداز قابل حجت ہے ۔ [فتح الربانی، ص:۱۵۵ج ۶]
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ تمام احادیث جن میں عیدین کے متعلق دوخطبوں کا ذکر ہے، وہ ضعیف ہیں۔ [فقہ السنتہ، ص:۳۰ ج ۱]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی سید سابق رحمہ اللہ کے اس فیصلے کوبرقرار رکھا ہے۔ [تمام المنۃ ،ص:۳۴۷]
اس سلسلہ میں عام طور پریہ بھی کہاجاتا ہے کہ خطبہ جمعہ پر قیاس کرکے عیدین کے بھی دوخطبے ہونے چاہییں، اب ہم اس قیاس کابھی جائزہ لیتے ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ قیاس کرتے وقت مقیس اورمقیس علیہ میں وجہ اشتراک ضرور ہونی چاہیے جسے علت کہا جاتا ہے۔ اگروجہ اشتراک یہ ہے کہ جمعہ کی طرح عیدین کی بھی نماز ہوتی ہے، لہٰذااس کے بھی جمعہ کی طرح دوخطبے ہونے چاہییں تواس لحاظ سے تو نماز استسقا ء اور نما ز خسوف کے بھی دو خطبے ہونے چاہییں، حالانکہ اس کاکوئی بھی قائل یافاعل نہیں ہے ،پھر خطبہ عیدین اورخطبہ جمعہ میں وجہ افتراق مندرجہ ذیل اشیاء ہیں:
٭ جمعہ کاخطبہ نمازسے پہلے عیدین کاخطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے۔
٭ جمعہ کاخطبہ بالعموم منبر پرہوتا ہے، جبکہ عیدین کے لئے منبر کاثبوت محل نظر ہے بلکہ عیدین کاخطبہ حسب ضرورت سواری پربھی جائز ہے ایسی صورت میں دونوں خطبوں کے درمیان فصل کی کیا شکل ہوگی؟
٭ خطبہ جمعہ کاسماع ضروری ہے جبکہ عیدین کا خطبہ سننا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے ۔
آخری گزارش : عیدین کے دونوں خطبوں کے متعلق جونقلی اور عقلی دلائل کتب حدیث سے دستیاب ہوئے ہیں ہم نے دیانت داری کے ساتھ انہیں پیش کردیا ہے اوران پر انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی گزارشات بھی رقم کی ہیں مذکورہ دلائل اور گزارشات کے پیش نظر ہم اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ عیدین کے لئے دوخطبے دینا ایک شرعی حکم ہے جس کے ثبوت کے لئے صاف واضح اورصحیح دلائل کی ضرورت ہے جوہمیں نہیں مل سکے ۔اس کے متعلق صرف لفظ ’’خطب‘‘ استعمال ہوا ہے جوفرد مطلق پردلالت کرتا ہے اور اس سے مراد صرف ایک خطبہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پروعظ وارشاد فرماتے ہوئے دیا کرتے تھے ،دوخطبے صراحت کے ساتھ صرف جمعہ کے لئے ہیں اس کے علاوہ کسی دوسرے مقام پردو خطبے دینا ہمارے نزدیک پایۂ ثبوت کونہیں پہنچتے ،اس لئے ہماراموقف یہی ہے کہ عیدین کے لئے صرف ایک ہی خطبہ پراکتفا کیاجائے ۔چنانچہ برصغیر کے عظیم محدث علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لفظ ’’خطب‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عیدین کے لئے صرف ایک ہی خطبہ مشروع ہے اور جمعہ کی طرح اس کے دو خطبے نہیں ہیں نہ ہی ان کے درمیان بیٹھنے کاثبوت ملتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عیدین کے دوخطبے دینا قابل اعتبار سند سے ثابت نہیں لوگوں نے جمعہ پرقیاس کرتے ہوئے اسے رواج دے دیا ہے۔ [مرعاۃ المفاتیح ،ص:۳۰۰،ج ۲]
البتہ جوحضرات ضعیف احادیث کے متعلق کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک عیدین کے دوخطبے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ہمیں اس سے اتفاق نہیں ہے، البتہ ہم یہ بات کہنے کاحق رکھتے ہیں کہ ایسے مسائل کومحل نزاع بنا کر قوت ذہانت کوغلط مقاصد کے لئے استعمال نہ کیاجائے اوراختلاف وانتشار سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے اندر برداشت کامادہ پیدا کیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب