السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ (چکوال)میں کوئی اہل حدیث عالم نہیں ہے۔ حنفی علما سے مختلف مسائل کے متعلق گفتگوہوتی رہتی ہے ہمیں بآواز بلندآمین کہنے کے دلائل درکار ہیں، پھر اس مسئلہ پرچند ایک اعتراضات ہیں ان کا بھی جواب دیں حوالہ جات کی وضاحت ضرور کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی تواس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ [صحیح بخاری ،الاذان : ۷۸۰]
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ اس سے ثابت ہوا کہ امام اونچی آواز سے آمین کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کوامام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کاحکم اسی صورت میں دے سکتے ہیں جب مقتدی کومعلوم ہوکہ امام اونچی آواز سے آمین کہہ رہا ہے۔ کوئی عالم تصور نہیں کرسکتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کوامام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کاحکم دیں جبکہ وہ اپنے امام کی آمین کو نہ سن سکے۔‘‘ [صحیح ابن خزیمہ، ص:۲۸۶ج ۱]
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ پڑھا توآپ نے بآواز بلندآمین کہی۔ [ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۹۳۲]
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہری نماز میں امام اورمقتدیوں کوآمین بآواز بلند کہنا چاہیے اورجب آہستہ قراء ت ہوتو آمین بھی آہستہ کہی جائے جبکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہتے وقت اپنی آواز کو پست رکھا۔ [مسندامام احمد،ص:۳۱۶ج ۴]
واضح رہے کہ آمین کا آغاز پہلے امام کرے گااس کی آواز سنتے ہی تمام مقتدی بآواز بلند کہیں گے امام سے پہلے یابعد میں اونچی آمین کہنادرست نہیں ہے لیکن اگرامام بآواز بلند آمین نہ کہے تو مقتدی حضرات کواونچی آواز سے آمین کہہ دیناچاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امام کی اقتدا پرمقدم ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہاکرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔[صحیح بخاری تعلیقاً]
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے دوسوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کودیکھا کہ وہ بیت اللہ میں جب امام ’’وَلاَ الضَّآلِّیْنَ‘‘کہتا توسب بلندآواز سے آمین کہتے تھے ۔ [سنن بیہقی، ص:۵۹ج۲]
اب بآواز بلند آمین کہنے پرسائل نے جواعتراضات کیے ہیں ان کامختصر جواب دیا جاتا ہے ۔
٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے بآواز بلندآمین کہنے کاعنوان قائم کیا ہے لیکن اونچی آمین کہنے کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں پیش کی۔ ہم نے آمین اونچی کہنے کے دلائل میں جوپہلی حدیث پیش کی ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ ہے، وہ ملاحظہ کریں اور اس کے متعلق امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی وضاحت پڑھ لیں۔
٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تم اپنے رب کوعاجزی کرتے ہوئے اورچپکے چپکے پکارو۔‘‘ [۷/الاعراف:۵۵]
اس آیت کے پیش نظرپسندیدہ دعا وہ ہے جس میں عاجزی اورآہستگی ہو۔آمین بھی ایک دعا ہے، اس لئے اسے آہستہ کہناچاہیے۔
٭ ہم اہل حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومعیار مانتے ہیں جہاں آپ نے آہستہ دعا کی ہے وہاں آہستہ اورجہاں بآواز بلند دعا کی ہے وہاں اونچی آواز سے دعا کرتے ہیں۔ آمین کے متعلق احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند کہتے تھے، اس لئے آمین کو بآواز بلند کہناچاہیے۔ یہ حضر ات خود بھی آیت کے خودساختہ مفہوم کے خلاف بلند آواز سے دعائیں کرتے ہیں جہری نماز وں میں سورۂ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھتے ہیں جوایک دعاہے، پھر نماز کے بعد بھی بآواز بلند دعا کرتے ہیں۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تعلیم دیتے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی کہو اورجب وہ ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اورجب وہ سمع ا ﷲ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو۔ [صحیح مسلم، الصلوٰۃ: ۹۳۲ ]
چونکہ ’’اللّٰہم ربنالک الحمد‘‘ آہستہ کہا جاتا ہے۔ اس لئے آمین بھی آہستہ کہنی چاہیے کیونکہ دونوں کے لئے ایک جیسے الفاظ ہیں ۔
’’ربنا لک الحمد‘‘اورآمین کہنے میں کوئی قدرمشترک نہیں ہے کہ دونوں کاحکم ایک ہو۔آمین کے متعلق صحیح روایات میں ہے کہ اسے بآواز بلند کہناچاہیے، پھر ’’ربنا لک الحمد‘‘ کے متعلق بآواز بلند کہنابعض روایات سے ثابت ہے، جیسا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ’’ربنالک الحمد‘‘ کہا توآپ نے فرمایا کہ ’’ابھی بولنے والاکون تھا؟‘‘ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے یہ کلمات کہے تھے آپ نے فرمایا کہ’’ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کودیکھا کہ وہ ایک دوسرے پرسبقت کررہے تھے کہ اس عمل کوپہلے کون لکھے۔‘‘ [صحیح بخاری، الاذان: ۷۹۹ ]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ربنالک الحمد بآواز بلند بھی کہاجاسکتا ہے ۔
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام تین چیزیں آہستہ کہے ،تعوذ ،تسمیہ اورآمین (محلیٰ ابن حزم) محلیٰ ابن حزم کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس روایت میں ابوحمزہ میمون الاعورنامی ضعیف اورمتروک ہے، نیز علامہ زیلعی حنفی اس راوی کے متعلق کہتے ہیں: دار قطنی نے اسے ضعیف کہاہے ۔امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے امام ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں ہے۔ [نصب الرایہ، ص:۳۷۳ج۲]
٭ ایک اعتراض یہ بھی کیاجاتا ہے کہ اونچی آمین کہناحاضرین کی تعلیم کے لئے ’’ایک آدھ دفعہ ‘‘حاضرین کوبتادیا کہ سورۂ فاتحہ کے بعد خاموشی والے لمحات میں یہ کلمہ کہاکرو ۔ہم بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے معلم کی حیثیت رکھتے ہیں آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ خاموشی کے لمحات میں بآواز بلند آمین کہاکرو۔ہم اس پرعمل پیرا ہیں ۔لیکن جولوگ اس طرح کی موشگافیاں پیداکرتے ہیں کبھی انہیں زندگی میں ایک آدھ مرتبہ اونچی آواز سے آمین کہنے کاموقع ملے گا ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب