السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا محمد بن عبدالوہاب نجدی بُرا آدمی تھا؟‘جیسے کہ مولانا انور شاہ کشمیر نے فیض الباری:(1/121)‘میں کہا ہے‘محمد بن عبد الوہاب بلید اور کم فہم آدمی تھا‘کفر کا حکم لگانے میں بڑا جلد باز تھا‘اور کیا نجد کی مذمت میں احادیث وارد ہیں جیسے کہ بعض لوگ اس کا ذکر کرتے ہیں‘وجزا کم اللہ خیر الجزاء اخوکم :حمید اللہ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ سے ہم عدل و انصاف اور صدق و صواب کی دعا کرتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ کہ کیا مذمت نجد میں کوئی احادیث آئی ہے‘کہ بارے میں کہتے ہیں:
ہاں!مذمت نجد میں صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں لیکن مذکور حدیث میں نجد سے مراد اور ہے اور محمد بن عبدالوہاب کا جس نجد سے متعلق تھا وہ اور ہے۔نجد جس کی مذمت ہوئی ہے وہ عراق ہے‘اس کے بارے میں ہم احادیث ذکر کریں گے۔
لیکن کسی جگہ کی مذمت سے اس جگہ کے تمام رہنے والوں اور اس کے علماءوصالحین کی مذمت لازم نہیں آتی۔عراق مذموم ہے لیکن وہاں بہت سارے صلحاء‘علماءعاملین ‘ثقہ اور راسخ ائمہ دین گزرے ہیں۔تو جو لوگ نجد کی مذمت میں وارد اس حدیث سے مذمت محمد بن عبد الوہاب پر استدلال کرتے ہیں جاہل متعصب ہیں جن کے پاس کوئی دلیل نہیں۔اب ہم وہ احادیث بیان کرتے ہیں:
پہلی حدیث:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور کہا‘اے اللہ !ہمارےصاع و مد میں برکت فرما۔اے اللہ ہمارے شام و یمن میں برکت فرما‘تو کسی شخص نے کہا اے اللہ کے نبی اور ہمارے عراق(کے لیے بھی دعا فرمائیں)فرمایا:وہاں شیطان کا سینگ ہے اور فتنے اٹھیں گے اور جفاء مشرق میں ہے۔راوی اس کے ثقہ ہیں۔
طبرانی فی الکبیر‘ترغیب و ترہیب۔مجمع الزوائد۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عراق فتنے کی جگہ ہے کیونکہ قدریہ‘جہمیہ اصحاب قیاس‘شیعہ اور خوارج سب یہیں سے نکلے اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔
دوسری حدیث :مسلم:(1/56) باب الوضوء ممامست النار میں ہے انس بن مالک روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھ سمیت ابو طلحہ انصاری اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے لیے گرم گرم کھانا لایا گیا ہم نے کھایا پھر میں نماز کے لیے اُٹھا اور وضوؤ کرنے لگا تو ان دونوں میں ایک دوسرے کو کہنے لگا یہ کیا عراقی طریقہ ہے؟پھر مجھے وضو کرنے پر ڈانٹا‘تو مجھے پتا لگا کہ وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔مسلم:(1/453) کی ایک اور حدیث بھی مذمت عراق پر دلالت کرتی ہے۔
تیسری حدیث: یہ بھی طحاوی :(1/175) میں ہے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا قنوت کیا ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ جب آخری رکعت میں امام قراءت سے فارغ ہوتا ہے تو کھڑے کھڑے دعاکرتا ہے تو فرمایا! میں نے کسی کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔میرے خیال میں عراقیوں!یہ تم ہی کرتے ہو۔
چوتھی حدیث : ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد شدہ لونڈی آکر انہیں کہنے لگی:میرے لیے یہاں(مدینے میں)وقت گزارنا مشکل ہو گیا ہے میرا ارادہ ہے کہ میں عراق چلی جاؤں۔تو فرمایا تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر کی زمین ہے۔پگلی ذرا صبر کر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا وہ فرما رہے تھے جو اس کے مصائب و تکالیف پر صبر کریگا میں اس کے لیے شفاعت کروں گا‘گواہی دونگا۔ترمذی :(2/229)-
پانچویں حدیث:ترمذی:(2/332) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:اے اللہ ! ہمارے شام میں برکت ڈال۔اے اللہ !ہمارے یمن میں برکت ڈال‘تو لوگوں نےکہا اور ہمارے نجد میں !تو فرمایا وہاں زلزلےاور فتنے ہونگے اور وہاں شیطان کا سینگ ہے یا شیطان کا سینگ وہاں سے نکلے گا۔
بخاری: (1/466)-(486)-مشکوٰۃ:(2/582)‘المرقاة:(11/415)
’’النہایہ‘‘ کے مطابق نجد حجاز کے علاقے کا نام ہے۔
ابن مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔عرب کے نشیبی علاقے ہیں انہیں نجد کہا جاتا ہے‘نجد سطح مرتفع کو کہتے ہیں۔تو نجد سے مراد عراق ہے اسی طرح احادیث میں مشرق کی مذمت بھی آئی ہے اور وہ عراق اور اس کے نواحی علاقے ہیں۔اور وہ نجد جہاں کے محمد بن عبد الوہاب رہنے والے ہیں وہ بستی ہے‘مراجعہ کریں :مسند ابی عوانہ :(1/60)
چھٹی حدیث : مؤطا امام مالک ص :729‘میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عراق کی طرف منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو کعب احبار رحمہ اللہ نے فرمایا:آپ وہاں نہ جائیں ‘دس میں سے نو حصے جادو وہاں ہے ‘وہ فاسق جنوں کا مسکن ہے اور وہاں خطرناک بیماری ہے۔
الشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تمام علماء ربانین جو ان کے بعد آئے ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور ان کی مذمت صرف شر ذمۃ قلیلہ نے کی ہے جو دعوہ سلفی اسلامی کے مخالف‘بلکہ توحید کے دشمن تھے جیسے زینی دھلان‘حامد مزروق‘حمد اللہ واجوی اور اسماعیل نبھانی وغیرہ۔یہ سب بدعات خرافات کے داعی ہیں او ر علامہ انور شاہ کشمیری کہ جو عبارت میں نقل کی ہے تو علامہ انور شاہ کشمیری اور ان جیسے دیگر بزرگوں نے الشیخ رحمہ اللہ کے مخالفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان کے بارے میں تحقیق نہ کر سکے۔تو قلت تحقیق و تتبع کیوجہ سے وہ مذمت کر بیٹھتے ہیں۔
ملاحظہ کریں فتاوٰی رشیدیہ میں مولانا رشید احمد گنگوھی کا قول کہ وہ کہتے ہیں‘محمد بن عبد الوہاب صحیح العقیدہ‘عامل بالحدیث اچھے آدمی تھے اور شرک و بدعت کا رد کرنے والے تھے۔البتہ مزاج میں کچھ تیزی تھی-
امیر صنعانی صاحب رحمہ اللہ سبل السلام اپنے طویل قصیدہ میں ان کی تعریف کی ہے اور انہوں نے اپنے ان قیمتی اشعار میں اتباع سنت کی ترغیب دی اور شرک کا رد کیا ہے۔
امام شوکانی صاحب رحمہ اللہ مؤلف نیل الاوطار اور الشیخ حسین بن غنام الاحسائی نے بھی ان کی تعریف میں اچھے قصیدے لکھیں ہے۔
علام السید محمود شکری الألوسی نے بھی اپنی کتاب تاریخ نجد کے آخر میں ان کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا ہے‘الشیخ محمد کا تعلق نجد کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔آپ حدیث و فقہ میں معرفت تامہ رکھتے ہیں آپ کے اسئلہ اجوبہ ہیں۔ آپ کے والد عبد الوہاب نجد کے بڑے عالم فقیہ تھے‘آپ اپنے زمانے میں نجد کے بڑے عالم تھے ۔علمی مہارت کی وجہ سے نجد میں علمی ریاست آپ کو حاصل تھی۔درس تدریس ‘افتاء اور تصنیفی کام کیا‘لیکن الشیخ محمد اپنے باپ دادا کے طریقے پرنہ تھے۔بلکہ سنت کے لیے سخت تعصب کرتے اور حق کے مخالف علماء کی بڑی سختی سے تردید کرتے تھے۔
حاصل یہ کہ آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علماء میں سے تھے‘اور لوگوں کو شرائع اسلام کے اصول کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد میں آنے والے تمام اہل سنت نے ان کی تعریف کی ہے سوائے اہل بدعت قبوری طائفے کے جو ان کی مذمت کر کے لوگوں میں بدنام کرتے تھے تاکہ لوگ ان کی تقاریر ‘خطبوں ان کی تالیفات اور ان کے شاگردوں اور حق کی دعوت میں ان کے ہم خیال لوگوں سے استفادہ نہ کر سکیں۔لیکن جاہل اور متعصب جس دعوت حقہ سے ڈراتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے چار سو پھیلا دیا‘اور جس دعوۃ کو اہل بدعت کمزور کرنا چاہتے ہیں اسکی تائید فرمائی اور دین کی جس عمارت کو یہ ظالم گرانا چاہتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسے مضبوط فرمایا:فللہ الحمد فی الاولی والاخرۃ۔
اور اللہ کی یہ عادت جاری ہے کہ اہل حق کی دعوت زندہ رہتی ہے اور جاہلوں کی دعوت مر مٹتی ہے۔ اس کے بادجود ہم اللہ تعالی ٰ کے آگے کسی کا تزکیہ نہیں کرسکتے ،ہمارا ان کے بارے میں ایسا ہی خیال اور محاسب ہے ،
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه اجمعین ۔
مراجعہ کریں علامہ الشیخ احمد بن حجر بن محمد آل ابی طامی ابن علی کی کتاب کا جس کا نام ہے ’’محمد بن عبد الوہاب ‘‘ص:(65-70)،اور اس طرح احمد عبد الغفور عطار کی کتاب ص:(41)،اور دیگر جلیل القدر علماء کی کتابوں کا ،اور بغیر تحقیق کے فتوی دینا جائز نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب