السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
راولپنڈی سے میجر احتشا م کیا نی لکھتے ہیں کہ اللہ اکبر ہے ، صدیق بھی اکبر ہیں، اللہ اعظم ہے، فا روق بھی اعظم ہیں، اللہ غنی ہے، عثما ن بھی غنی ہیں، اللہ مشکل کشا ہے علی مشکل کشا کیو ں نہیں ؟گو خا لق اپنی شان کے مطابق ہے اور مخلوق اپنی شا ن کے مطابق ، اللہ تعا لیٰ قرآن میں با دشا ہ کو رب کہتا ہے، اگر بادشاہ رب ہے تو علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور جیلانی رحمۃ اللہ علیہ داتا اور غوث کیوں نہیں ؟ قرآن میں ہے کہ اللہ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دیں گے، یعنی اللہ کے ساتھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضل فرما تے ہیں تو کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ یا رسول اللہ! فضل کر یں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعا لیٰ نے اس عا لم رنگ و بو میں اپنی تو حید قا ئم کر نے کے لئے متعدد کتا بیں نا ز ل فر ما ئیں اور بے شما ر رسولوں کو مبعوث کیا، توحید یہ ہے کہ اللہ کے اسما اور اس کی صفا ت، نیز اس کے حقوق و اختیا را ت اور احکا م میں کسی مخلوق کو شریک نہ کیا جائے ۔ اگر کسی نے اللہ کے اسما ،اس کی صفات، اس کے حقو ق و اختیا را ت و احکا م میں کسی مخلو ق کو شریک ٹھہرا یا تو وہ اللہ کے ہا ں مشرک ہے، اگر تو بہ کے بغیر اس جہا ں سے رخصت ہوا تو ہمیشہ کے لئے اس پر جنت حرا م اور جہنم وا جب ہو گئی ۔ دا تا غو ث اعظم مشکل کشا اور غریب نو از یہ سب اللہ کی صفا ت ہیں، بعض لو گ ان صفات کو مخلوق میں تلا ش کر تے ہیں جیسا کہ سائل کہ سوال سے واضح ہو تا ہے، ارشاد با ری تعا لیٰ ہے : "کو ن ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارتاہے اور کو ن اس کی تکلیف کو رفع کر تا ہے اور کو ن ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بنا تا ہے کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی الہٰ بھی ہے ۔"(27/النمل:62)
اس آیت کر یمہ سے معلو م ہو ا کہ سب سے بڑ ا فر یا د سننے وا لا یعنی غوث اعظم صر ف اللہ ہے ، عبد القا در جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نہیں۔ ارشا د با ری تعالیٰ ہے : ’’یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے ۔‘‘(3/آل عمران :8)
اس آیت کر یمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ ہی سب سے بڑ ھ کر دینے والا ، یعنی دا تا ہے، علی ہجو یر ی رحمۃ اللہ علیہ دا تا نہیں ہیں۔ انہو ں نے تو خو د اپنی کتا ب "کشف المحجو ب " میں اپنے متعلق دا تا ہو نے کی پر زور الفا ظ میں تر دید کی ہے، ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے :"اے لو گو ! تم سب اللہ کے در کے فقیر ہو وہ اللہ تو غنی و حمید ہے ۔(35/فاطر :15)
اس آیت مبا ر کہ سے معلو م ہو ا کہ اللہ ہی غر یبو ں کو نواز نے والا ہے، اس کے علا و ہ اور کو ئی غریب نواز نہیں ۔ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :
"اگر اللہ تمہیں کسی مشکل میں ڈا ل دے تو اس کے علا وہ اسے کو ئی دور کر نے وا لا نہیں اور اگر وہ تمہیں کو ئی خیر پہنچا نا چا ہے تو اس کے فضل کو کو ئی ہٹا نے والانہیں۔"(10/یو نس :107)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ تما م مشکلات حل کر نے والا یعنی مشکل کشا صرف اللہ ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ایک دعا پڑھا کر تے تھے جس میں یہی مضمو ن بیان ہو ا ہے، اس کا تر جمہ یہ ہے : "اے اللہ! جس کو تو دے اسے کو ئی رو کنے وا لا نہیں اور جس سے تو رو ک لے اسے کو ئی دینے وا لا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیر ے مقا بلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی۔"(صحیح بخا ری : کتا ب الد عو ا ت 6330)
سوال میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اکبر، عمر فا رو ق رضی اللہ عنہ کو اعظم اور حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کو غنی کہا گیا ہے ۔ ان حضرا ت کے لئے اس قسم کے القا ب ہم نے خو د تجو یز کئے ہیں کتاب و سنت میں ان کا کو ئی ثبو ت نہیں ہے ۔ اس کے علا وہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفا ت ایسی ہیں کہ قرآن میں ان کا اطلا ق بندوں پر بھی کیا گیا ہے ۔مثلاً اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے تو انسا ن کے لئے بھی سمیع اور بصیر کا اطلا ق ہو ا ہے ۔(67/سورۃالدھر :2)
لیکن اللہ تعا لیٰ کا سمیع ہو نا ،اللہ کا بصیر ہو نا ،اس کی شا ن کے مطا بق ہے اور بند ے کا سمیع و بصیر ہو نا اس کی شان کے لا ئق ہے، یعنی بندے کی سماعت و بصا رت انتہا ئی محدود ہے کیو نکہ بندہ پس پردہ نہ کو ئی چیز دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے، جبکہ اللہ تعا لیٰ ایسے عیو ب و نقا ئص سے پاک ہے، اللہ تعا لیٰ نے یہ بھی صراحت فر ما ئی ہے کہ اس کی ذا ت و صفات میں کو ئی دوسرا اس جیسا نہیں ہے ۔ (42/الشوری:11)
سوال میں خو د ہی ان نفوس قدسیہ کی طرف ایسی صفا ت کا انتساب کیا گیا ہے جس کا ثبو ت قرآن و حدیث میں نہیں ہے، پھر خو د ہی صغریٰ کبریٰ ملا کر اس سے ایک غلط مقصد کشید کر لیا گیا کہ اللہ مشکل کشا ہے تو علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا کیو ں نہیں ؟مشکل کشا تو اللہ کی صفت ہے اسے مخلو ق میں کس بنیا د پر تسلیم کیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ تو خود مشکلات میں پھنسے رہے وہ اپنے لئے مشکل کشا ئی تو نہ کر سکے دوسر وں کے لئے کیو نکر مشکل کشا ہو سکتے ہیں ۔ارشا د باری تعا لیٰ ہے :
’’ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اچھا یہ توبتاؤکہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکا رتے ہو ا اگر اللہ مجھے نقصا ن پہنچا نا چا ہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ؟ یا اللہ تعا لیٰ مجھ پر مہر با نی کا ارادہ کر ے تو کیا یہ اس کی مہر با نی کو روک سکتے ہیں ۔‘‘(39/الزم:38)
اللہ تعا لیٰ نے اس آیت کر یمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوزیشن کو واضح فر ما یا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقا بلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا بن جائیں، کتا ب و سنت میں اس کے لئے کو ئی سند نہیں ہے یہ سب خو د سا ختہ اور ایجا د بندہ ہیں، بلا شبہ سو ر ۃیو سف میں متعدد مر تبہ باد شا ہ کے لئے رب کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ اضا فت کے سا تھ ہے جس کا معنی آقا یا ما لک کے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ رب علی الاطلا ق اور اضا فت کے سا تھ دو نو ں طرح مستعمل ہے، پھر جب بندہ کے لئے اس لفظ کا استعما ل ہو تا ہے تو اس کی تانیث بھی کلا م عر ب میں مستعمل ہے، مثلاً گھر کی ما لکہ کو عر بی میں(ربۃ البیت )کہتے ہیں جبکہ اللہ تعا لیٰ کے لئے اس کی تانیث کا استعمال شرک اکبر ہے ۔سوال میں یہ استدلال بھی عجیب ہے کہ اگر بادشا ہ رب ہے تو علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ داتا اور شیخ عبدالقا درجیلانی رحمۃ اللہ علیہ غو ث اعظم کیوں نہیں ؟یہ تو ایسا ہی استدلال ہے کہ ایک شخص کسی دوسر ے شخص کے باپ کا ہم نام ہو تو پہلا شخص دعویٰ کر دے کہ میرا با پ آپ کے با پ کی جا ئیداد میں برا بر کا شریک ہے، کسی کے ہم نا م ہو نے کا یہ معنی نہیں ہے کہ کو ئی دوسر ا ان جا ئیداد میں حصہ دار ہے۔ سوال میں قرآن کر یم کے حو الے سے ایک اور مغا لطہ دینے کی کو شش کی گئی ہے جو مجر ما نہ کوشش کے مترا دف ہے، یعنی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ، قرآن کر یم میں اس قسم کے الفا ظ قطعاً نہیں ہیں، اگر ایسا سہواً نہیں ہوا تو یہ ایک ایسی تحر یف ہے جس کا ارتکا ب یہودی کیا کرتے تھے۔ قرآن کر یم میں ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے:’’ منافقین صرف اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے دولت مند کر دیا ہے۔‘‘ (10/التوبہ:74)
اس آیت کر یمہ سے یہ مفروضہ کشید کیا گیا ہے کہ اللہ کے سا تھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضل فر ما تے ہیں تو " یا رسول اللہ ! فضل کر یں "کہنا بھی صحیح ہے، العیا ذ با اللہ،حا لا نکہ اللہ تعا لیٰ کے سا تھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس لیے ہے کہ اس غنا اور تو نگری کا ظا ہری سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت گرا می ہی بنی تھی ورنہ حقیقت میں غنی بنا نے وا لا اللہ تعالیٰ ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ آیت کر یمہ میں جب فضل کا ذکر ہو ا ہے تو اس کے سا تھ واحد کی ضمیر استعمال ہو ئی ہے یعنی اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا ، دوسرے الفا ظ میں فضل و کر م کرنا صرف اللہ کا کا م ہے اس میں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا برا بر بھی حصہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تاتو اس کے سا تھ تثنیہ کی ضمیر استعما ل کی جا تی بلکہ خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعا لیٰ کے فضل کے محتا ج ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ قیا مت کے دن تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجا ت نہیں دے گا ۔ صحا بہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ مجھے بھی میرا عمل نجات نہیں دلا ئے گا ہا ں اگر اللہ کا فضل میر ے شا مل حا ل ہو جائے تو الگ با ت ہے ۔"(صحیح بخا ری : الر قا ق 6463)
نیز حضرت عثما ن بن مظعو ن رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے مو قع پر جب ان کے متعلق حسن ظن کا اظہا ر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "اللہ کی قسم ! مجھے اللہ کا رسول ہو نے کے با و جود علم نہیں کہ قیامت کے دن میر ے سا تھ کیا سلو ک کیا جا ئے گا ؟"آخر میں ہم اپنے معزز قا ر ئین اور سا ئلین سے گزارش کر یں گے کہ اسباب کے بغیر دا تا، غوث اعظم ،مشکل کشا اور غر یب نو از صر ف اللہ کی ذا ت ہے، لہذا جب بھی دعا ما نگو یا مدد کے لئے پکا رو تو صر ف اللہ تعا لیٰ کی طرف رجو ع کرو ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب