سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز باجماعت واجب ہے

  • 10455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 783

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں ہدایت عطا فرمائے۔۔۔کسی شرعی عذر کے بغیر نماز باجماعت ادا نہیں کرتے کچھ لوگ اس سلسہ میں دنیوی کاموں کے عذر  پیش کرتے ہیں۔اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ نماز اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ کسی کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کی ہمدردی وخیر خواہی اور منکر کا انکار کرنا تو اہم واجبات میں سے ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ يَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌...﴿٧١﴾... سورة التوبة

''اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست( مددگار ومعاون) ہیں نیکی اور بھلائی کے کام کرنے کا حکم دیتے ہیں۔اور بُری باتوں سے منع کرتے ہیں۔''

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد گرامی ہے:

من راي منكم فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسمائه فان لم يستطع فبقلبه وذلك اضعف الايمان(صحيح مسلم ...تزمذي...مسند احمد )

''تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹادے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھائے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔''

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وقال صلي الله عليه وسلم الدين النصيحة قلنا لمن يا رسول الله قال: لله ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم

 (صحیح مسلم)

''دین ہمدردی اور خیر خواہی کا نام ہے''عرض کیا گیا ''یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لئے ہمدردی  وخیر خواہی؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے مسلمان حکمرانوں کےلئے اور عام مسلمانوں کے لئے''

ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ''صحیح'' میں بیان فرمایا ہے:

بلاشک وشبہ بغیر کسی عذر کے نماز باجماعت ترک کرنا ان منکرات میں سے ہے۔جن سے منع کرنا ضروری ہے کیونکہ مردوں کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں اور یہ بہت سے دلائل سے ثابت ہے مثلا ً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له الا من عذر (سنن ابن ماجه)

''جو شخص آذان سنے اور پھر نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔''

امام حاكم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔اور اس کی سند جید ہے اس طرح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک نابینا آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ''یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جائے تو کیا میرے لئے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟''تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال نعم :قال فاجب (صحیح مسلم)

''کیا تم نماز کےلئے اذان سنتے ہو؟'' تو اس نے کہا ''جی ہاں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' پھر اذان کی آواز پر لبیک کہو۔''

(اس مفہوم کی اور بہت سی احادیث ہیں)

مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کاکوئی دوسرا مسلمان بھائی جب کسی بُرائی سے روکے تو ناراض نہ ہو۔بلکہ اچھے طریقے سے جواب دے۔بلکہ اس کا شکریہ اد اکرے۔اسے دعاء دے۔ کیونکہ اس نے اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی دعوت دی اور اس کا حق اسے یاد دلایا ہے۔ اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ داعی حق کے جواب میں تکبر کا اظہار کرے کیونکہ ایسا کرنے والے کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی اور اسے جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا قيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتهُ العِزَّةُ بِالإِثمِ ۚ فَحَسبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئسَ المِهادُ ﴿٢٠٦﴾... سورة البقرة

''اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو غرور اس کو گناہوں میں پھنسا دیتا ہے۔سوایسے شخص کو جہنم کی سزا وار ہے۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص459

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ