سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تبلیغی جماعت پر شیخ ابن باز رحمتہ اللہ علیہ نے کوی فتوا دیا ہے

  • 86
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 702

سوال

تبلیغی جماعت پر شیخ ابن باز رحمتہ اللہ علیہ نے کوی فتوا دیا ہے
تبلیغی جماعت اورنامور عرب علماء تبلیغی جماعت کے بارے میں نامور عرب علماء کیا کہتے ہیں.؟ ان میں سے بہت سوں کی وفات ہوچکی اللہ ان کی قبرپر کروڑوں رحمت فرمائے اور انھیں جواہر رحمت میں جگہ دے .آمین ثم آمین ان فتوؤں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان انجانے میں کسی فتنے میں شامل ہوکر صراط مستقیم سے ہٹ نا جایئں. ہمیں تبلیغی جماعت پر اعتراض نہیں بلکہ اس کے طریقہ تبلیغ پر اعتراض ہے. اگر تبلیغی جماعت کے اکابرین اس طریقہ تبلیغ کو اپنا لیں جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا تو ہم خود ان کے شانہ بشانہ تبلیغ کے لیے نکلیں گئے . فضیلتہ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ: یہ سوال شیخ ابن باز ر حمہ اللہ سے مورخہ 1416-12-6 کو مکہ مکرمہ میں کیا گیا ۔ سوال: محترم شیخ صاحب ! ہم تبلیغی جماعت اور اس کی دعوت کے بارے میں سنتے ہیں تو کیا آپ اس جماعت میں شمولیت اختیارکریں گے؟ میں اس بارے میں آپ کی توجہ اور خیر اور خواہی کا امید وار ہوں ۔ اللہ آپ کے اجر کو بڑھائے ۔ جواب: جو کوئی بھی اللہ کی طرف بلائے وہ مبلغ ہے۔ (ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے) بلغوا عنی ولویتہ(صحیح بخاری) ”یک بات بھی میری طرف سے پہنچے تو اسے آگے پہنچادو “۔ لیکن ہندوستان کی جو معروف تبلیغی جماعت ہے اس میں خرافات و بدعات اور شرکیات پائی جاتی ہیں لہذا کسی کے لئے ان کے ساتھ جانا جائز نہیںہاں ایسے اہل علم کے لئے جائز جو ان کی خرافات کا انکار کر کے صحیح علم کی طرف ان کی راہنمائی کر سکیں لیکن تبلیغی جماعت کی اتباع کرتے ہو ئے اس کے ساتھ جانا جائز نہیں۔ فضیلة الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (محدث دیار شام) کا فتویٰ : سوال: تبلیغی جماعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا طالبعلم یا کوئی اور دعوت الی اللہ کے دعویٰ کے ساتھ ان کے ہمراہ نکل سکتا ہے ؟ جواب : ”تبلیغی جماعت کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صا لحین کے منہج پر قائم نہیں ہے جب یسا معاملہ ہے تو ان کے ساتھ نکلنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ یعنی تبلیغی جماعت والے کتاب و سنت کی دعوت دینے کے قائل نہیں بلکہ یہ کتاب و سنت کی دعوت کو فرقہ واریت کی دعوت سمجھتے ہیں۔ پس تبلیغی جماعت دور حاضر کی صوفی دعوت ہے جو اخلاق کی طرف تو بلاتی ہے مگر لوگوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی۔ کیونکہ اس سے ان کے زعم کے مطابق فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کوئی سائل یہ بھی پوچھتا ہے کہ اس جماعت کی محنتوں سے بہت سے لوگ اسلام کی طرف آتے ہیں اور کبھی ان کے ہاتھ پر غیر مسلم اسلام بھی قبول کرتے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ اس جماعت میں شمولیت اور اس کے ہمراہ دعوت کے لئے نکلنے کو جا ئز قرار دینے کے لئے کافی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے یسی باتو ں کو ہم سمجھتے ہیں اور بہت سنتے آئے ہیں یہ تو صو فیوں کا انداز فکر ہے۔ مثلا فلاں جگہ یک بزرگ تھا اس کا عقیدہ فاسدہ تھا سنت کو جانتا تک نہیں تھا لیکن بہت سے فاسق وفا جراس کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے ہر خیر کی طرف بلانے والی جماعت کے متبعین تو ہوا ہی کرتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کی اصل کو دیکھو کہ یہ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں کیا یہ لوگ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں اور اتباع سنت کا پیغام لوگوں کوسناتے ہیں کہ سنت پر عمل کرنا ہے جہاں کہیں سے اور جس کسی سے کیوں نہ ملے ۔ لیکن در حقیقت تبلیغی جماعت کوئی علمی منہج نہیں رکھتی بلکہ ان کا منہج جیسا دیس ویسا بھیس کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور ان کے حسب ضروت رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں“۔ (الفتاویٰ الاماراتیہ للا لبانی رحمہ اللہ)، فضیلتہ الشیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ (کبا ر علما ءکمیٹی کے رکن )کا فتویٰ: ”یہ بد عتی جما عت ہے جو صحیح منہج سے ہٹ چکی ہے یہ قا دری اور اس قسم کے صوفی طریقوں والے لو گ ہیں ان کا نکلنا اللہ کے راستے میں نہیں بلکہ مولانا الیا س کے راستے میں ہے اور یہ لو گ کتا ب و سنت کی دعوت نہیں دیتے بلکہ شیخ الیاس کی طرف لوگوں کو بلا تے ہیںاسلام کی دعوت دینے کے قصد سے گھر سے نکلنا تو جہاد فی سبیل اللہ ہے لیکن یہ تبلیغی جما عت والا نکلنا نہیں ہے ۔میں تبلیغی جما عت کو زما نہ قدیم سے جا نتا ہوں یہ لوگ مصر میں ہوںیا اسرئیل میں ہوں ،امریکہ میں ہوں یا سعودیہ میں ہوں ،غرض جہاں بھی ہوں بدعتی امور کرتے ہیں اور یہ سارے کے سارے اپنے شیخ الیاس کے ساتھ مر تبط ہیں“۔ (الفتاویٰ ورسائل سماحتہ الشیخ عبدالرزاق عفیفی ) فضیلة الشیخ عبدالقادر الارناﺅ (دمشق میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم )کا فتویٰ: ”تبلیغی جماعت یک صوفی جماعت ہے جو صحیح اور فاسد عقیدے اور سنت وبدعت کو غلط ملط کئے ہوئے ہے۔کتاب وسنت سے چمٹنے کا دعوی بھی ہے اور بشری مناہج سے بھی تعلق جوڑے ہوئے ہیں یہ لوگ نصوص شریعت کی تفسیر اپنے منہج کے مطابق کرتے ہیںسلف صالحین کے منہج کے مطابق نہیں کر تے جہاد کی تفسیر فقط نفس کے خلاف جہاد سے کرتے ہیں یہ لوگ دعوت تبلیغ اور تبلیغی سفرو سیا حت کی طرف تو بلا تے ہیں لیکن اس عقیدے(توحید )کے بارے میں خامو ش ہیں جو اسلام کی اساس ہے۔ ان کے ساتھ نکلنا ان کے طریقے کی تائید کرنا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہمراہ کسی کے لئے بھی جانا صحیح نہیں ہے سوائے ان اہل علم کے کہ جو انہیں نصیحت کریں اورلوگ ان کی بات کو قبول کریں “۔ فضیلتہ الشیخ حمود بن عبد اللہ التو یجری رحم اللہ (ریاض کے عظیم مشائخ میں سے یک) کا فتویٰ: ”یہ بدعتی اور گمراہ جماعت ہے صوفیوں کے طریق اور بد عتیوں کے منہج پر کام کر رہے ہیں۔ میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دین کو شرک وغلواور بدعت و خرافات سے بچانا چاہتے ہیں تو تبلیغی جماعت کے ساتھ شرکت نہ کریں اور ان کے ساتھ بالکل نہ نکلیں، نہ اپنے علاقہ وشہر میں اور نہ شہر سے باہر “۔ (القول البلیغ فی التحذیر من جماعتہ التبلیغ) فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (کبار علماءکمیٹی کے رکن )کا فتویٰ: ”اگر تبلیغی جماعت والے چھ نمبر کہ جن کی وہ دعوت دیتے ہیں کو چھوڑ کر ان کے بدلے حدیث جبریل (صحیح بخاری۔ کتاب الیمان ) کو لے لیں تو اس میں سارہ دین موجود ہے۔ کسی بھی قصہ گو یا واعظ کے لئے جائز نہیں کہ وہ یسی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے کہ جس کی صحت کا اسے علم نہ ہو اور جس حدیث کا ضعیف ہونا معلوم ہے اس کا بیان کرنا بالا ولی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح وہ قصے کہ جن کے جھو ٹے ہونے سے آگاہ ہے انھیں بھی بیان نہ کرے کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے نیز اجتماعی دعا خواہ وہ بیانات کے بعد ہو یا مسجد سے نکلتے ہوئے یا دعوت کے لئے جاتے ہوئے اس کی کوئی اصل نہیں اور یہ بدعت کی یک قسم ہے“۔ (فتاویٰ بتو قیع فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ) فضیلتہ الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ(کبار علماءکمیٹی کے رکن ) کا فتویٰ: ”کسی بھی دعوت کی صلاحیت اور استقامت اس کے منہج اور غیت ومقصد کے ذریعے سے پہچانی جاتی ہے کہ اس کے مقصد ومنہج کی نبوی منہج دعوت سے کتنی مطابقت ہے اور اصلاح عقائد اور شرک ومشرکین کی مخالفت میں اس کی تاثیر کی حد کیا ہے اور وہ دعوت کہ جو اس سے کم تر منہج رکھتی ہے مثلا ترک معاصی کی دعوت تو ہو لیکن ترک شرک کی دعوت نہ ہو ۔ بعض بدعتی اعمال کی طرف زیادہ محنت اور نفلی عبادات اور اذکار پر اقتصار کیا جائے۔ محدود مدت کے لئے سفرو خروج کی بدعت ، علم نافع سے بے پرواہی اور بعض مواعظ ، اذکارو وظائف اور فضائل اعمال کو ترجیح دینا تو جس دعوت میں یسی چیزیں پائی جائیں وہ ناقص دعوت کہلائے گی ۔ نہ ہی اس دعوت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی یہ صحیح نتائج دے سکتی ہے لہذا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس دعوت کا قصد کرے اور اس دعوت کی حامل تبلیغی جماعت کے ساتھ جائے کیونکہ ان کے ہمراہ جانے سے نہ تو دین کی صحیح بصیرت حاصل ہو گی اور نہ ہی صحیح عقیدہ کی معرفت“۔ فضیلتہ الشیخ سعد بن عبدالرحمن الحصین (اردن میں سعودیہ کے دینی مشیر) کا فتویٰ: ”میں آٹھ سال تبلیغی جماعت میں شامل رہا ہوں اور اس کی تائید کرتا رہا ہوں اور ان تہمتوں سے اس کا دفاع کرتا رہا ہوں جو میرے نزدیک ثابت نہ تھیں ۔ تبلیغی جماعت کتاب وسنت اور علماءامت کی صحیح فقہ کی بجائے قصوں کہانیوں اور خرافات پر قائم ہے اور انکی خرابی پر اس سے زیادہ ظاہر دلیل اور کون سی ہو سکتی ہے کہ دہلی میں انکی مرکزی مسجد میں قبریں موجود ہیں ۔ اسی طرح رائیونڈ کی مر کزی مسجد کے جوار میں اور سوڈان میں انکی مرکزی مسجد میں قبریں پائی جاتی ہیں بعض سعودی اور غیر سعودی علماءنے جو اس جماعت کی تائید کی ہے وہ اسکے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حسن ظن اور ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے متاثر ہوئے اور ان سے ان کے حمیت میں فتاویٰ صادر ہوئے لیکن کوئی بھی یسا قابل ذکر عالم نہیں کہ جو اس جماعت میں رہا ہو اور پھر اس سے نکلنے کے بعد اس کا تزکیہ بیان کیا ہو۔بہت سے علماءنے تبلیغی جماعت سے لوگوں کو ڈریا ہے مثلا حمود بن عبداللہ التو یجری ، عبدالرزاق عفیفی ، عبداللہ الغدیان اور صالح الفوزان وغیرہ “۔ (حقیقتہ التو حیدالی اللہ تعا لی وما اختصت بہ جزیرہ العرب) فضیلتہ الشیخ احمد بن یحیی (جازان کے عظیم مشائخ میں سے یک) کا فتویٰ: ”تبلیغی جماعت کا بانی صوفیت پر پروان چڑھا اور چشتی مراقبے میں عبدالقدوس گنگوہی کی قبر کے پاس بیٹھا کرتا تھا جبکہ عبدالقدوس گنگوہی وحدت الوجود کا قائل تھا۔ ان کی وہ مسجد جس سے ان کی دعوت کا آغاز سفر ہوا اس میں چار قبریں ہیں ۔ اس جماعت کا بانی قبر والوں سے کشف اور روحانی فیضان کا طلبگار رہتا تھا۔ یہ یت کنتم خیرامتہ اخر جت للناس کے بارے میں اس کا قول ہے کہ اس یت کی تفسیر اسے کشف کے ذریعے الھام ہوئی“۔ (المو رد العذب الز لال فیما انتقدعلی بعض المناہج الدعو یتہ من العقا ئد والاعمال) فضیلتہ الشیخ صالح بن سعد (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ) کا فتویٰ: ”تبلیغی جماعت یک صوفی جماعت ہے جو چار صو فی سلسلوں نقشبند یہ، سہر ور دیہ ، قادریہ اور چشتیہ کے مطابق بیعت کرواتی ہے۔ کتاب و سنت کی نصو ص میں تحریف کرتی ہے خصوصا وہ آیات و احادیث جو جہاد کے متعلق ہیں۔یہ لوگ ان کو اس جماعت کے ساتھ نکلنے، بدعتی سیاحت کرنے اور ان کے ساتھ مل کر نفس کے مجاہد ہ پر محمو ل کرتے ہیں۔ اسلام کے قواعد سے یہ لوگ نا واقف ہیں۔ صحیح عقیدے کے حاملین سے لو گو ں کومتنفر کرتے ہیں اور علم وعلماءسے لوگو ں کو ڈراتے ہیں۔ ”لو گو! اللہ کے لئے اس گمراہ جماعت سے بچ جاﺅ،اس سے تعلق نہ جوڑو،اسے قوت مت فراہم کرو، اسکے دھوکے میں نہ آﺅ کہ شیطان نے تبلیغی جماعت والوں کو دھوکہ دے کر اپنی رسیوں میں جکڑ رکھا ہے اور انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ وتابعین کرام کے راستے کو چھوڑ رکھا ہے بتلانے پر بھی باز نہیں آتے گویا کہ صراط مستقیم کو جانتے ہی نہیں“۔ یہ فتاویٰ فضیلتہ الشیخ محمد بن ناصر العر ینی حفظہ اللہ کی کتاب کشف الستار عما تحملہ بعض الدعوات من اخطار سے لئے گئے ہیں۔

تبصرے