سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حیض کی حالت میں طلاق دینا

  • 5979
  • تاریخ اشاعت : 2025-04-12
  • مشاہدات : 17

سوال

اگر بیوی حیض کی حالت میں ہو اور شوہر انتہائی جنونی کیفیت میں، توڑ پھوڑ کرتے ہوئے طلاق دے، تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر گھر میں تھوڑی بہت رنجشیں، غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں، ان کو آپس میں مل  بیٹھ کر حل کرنے اور سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک عقل مند انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ذ را سی بات پر اتنا غصے میں آ جائے کہ منہ سےطلاق کا لفظ نکال کر خاوند اور بیوی کے مقدس رشتے کو ختم  کردے۔

اس لیے اگر خاوند اور بیوی کا آپس  میں کسی بات پر جھگڑا ہو جائے تو  اسے آپس میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،  یا دونوں خاندانوں کے افراد مل کر اس پریشانی کا حل نکالیں۔ جب تمام کوششوں کے باوجود رشتہ نبھانا  ممکن نہ ہو تو اسلام نے خاوند کو طلاق کے ذریعے اس رشتے کو ختم کرنے کا اختیار دیا ہے۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡيَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنّ ﱠ (الطلاق: 1)

اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو۔

مفسرین نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ  ﱡفَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنّ ﱠ  سے مراد یہ ہے کہ تم عورتوں کو ان کی عدت کے وقت طلاق دو، یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو تو پاکی کی حالت میں ہمبستری کیے بغیر طلاق دو، تا کہ اس کی عدت کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری ہو، کیوں کہ اگر تم حالت حیض میں طلاق دو گے تو اگر اس حیض کو عدت میں شمار کرو تو عدت تین حیض سے کم رہ جائے گی اور اگر شمار نہ کرو تو تین حیض سے زیادہ ہو جائے گی، کیوں کہ بعد میں آنے والے تین حیضوں کے ساتھ اس حیض کے وہ ایام بھی شامل ہوں گے جو طلاق کے بعد باقی ہوں گے۔ اسی طرح اگر تم انہیں ایسے طہر میں طلاق دو گے جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل ٹھہر جائے، اس صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لیے تین حیض کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ. (صحيح البخاري، الطلاق: 5251، صحيح مسلم، الطلاق: 1471).

اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اسےحیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر چاہے تو اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے دے، کیوں کہ یہ وہ عدت ہے جس کے وقت اللہ تعالی نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ۔

 

واضح رہے کہ طلاق دینے کا سنت طریقہ درج ذیل ہے:

1. انسان اپنی بیوی کو پاکی کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے۔

2. ایک طلاق دے، ایک سے زائد طلاقیں نہ دے۔

3. طلاق دینے کے بعد اگر رجوع کرنا چاہتا ہے توکرلے ورنہ  عورت کی عدت ختم ہونے دے اور اسے چھوڑ دے۔ 

مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ حیض کی حالت میں عورت کو طلاق دینا خلاف سنت ہے، ایسے کرنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، اسے اپنے گناہ سے توبہ کرنی چاہیے، اور یہ عزم بھی کرے کہ آئندہ ایسی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہو گا۔

اگر کسی آدمی نے حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہے تو اس کی طلاق ہو جائے گی، لیکن اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا جس میں طلاق دی گئی ہے، بلکہ اس کے بعد جو حیض آئے گا وہ پہلا شمار ہو گا، کیوں کہ اللہ تعالی نے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ. (البقرة: 228).

اور وہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔

اگر اس حیض کو بھی عدت میں شمار کیا جائے جس میں طلاق دی گئی ہے تو تین حیض پورے نہیں ہوتے، بلکہ ایک حیض کے کچھ ایام کم رہ جائیں گے، اس لیےتمام علماء کے ہاں اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا جس میں طلاق دی گئی ہے۔ (المغنی، جلد نمبر  8، صفحہ نمبر 102).

آپ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں، انتہائی جنونی کیفیت میں، توڑ پھوڑ کرتے ہوئے طلاق دی ہے، اگر آپ کا غصہ اتنا زیادہ تھا کہ آپ  کے اعصاب قابو میں نہ رہے، شدت غضب کی وجہ سے آپ میں شعور اور احساس بھی نہیں تھا کہ آپ اپنی زبان سے کیا کہہ رہے ہیں  تو پھر آپ کی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لا طَلاَقَ ولا عِتَاقَ في غَلاَق (سنن أبي داود،طلاق: 2193) (صحيح).

اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے۔

اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى اكراہ يعنى جبر يا غصہ كيا ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو جس وجہ سے اس کے اعصاب بے قابو ہو جائیں تو یہ شخص پاگل اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہے، اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى۔

اگر آپ ہوش وحواس میں تھے، اور آپ کو ادراک تھا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے کر خود سے جدا کر رہے ہیں تو پھر آپ کی ایک طلاق واقع ہو چکی ہے اور آپ کی بیوی عدت میں ہے، عدت کے دوران آپ رجوع کر سکتے ہیں اور عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہو سکتا ہے، جس میں ولی، گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ عطاء الرحمن علوی صاحب حفظہ اللہ

تبصرے