الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خاوند پر بیوی کے کچھ مالی اور کچھ غیر مالی حقوق ہیں، جن کی تفصیل ذیل میں ہے:
بیوی کے اپنے خاوند پرمالی حقوق حق مہر، نان و نفقہ، اوررہائش ہیں ۔
غیر مالی حقوق میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا، حسن سلوک کرنا اور بیوی کوتکلیف اور اذیت نہ پہنچانا ہے۔
مالی حقوق:
حق مہر:
ارشادباری تعالی ہے:
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء:4)
اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو۔
نان ونفقہ اور رہائش :
شریعت نے شادی شدہ عورت کے رہنے سہنے ، کھانے پینے اور کپڑوں کا خرچہ بھی خاوند پر فرض کیا ہے۔ خاوند کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے اخراجات پورے کرے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 233)
اور وہ مرد جس کا بچہ ہے، اس کے ذمے معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں) کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر جو اس کی گنجائش ہے۔
اور فرمایا:
لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا (الطلاق: 7)
لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔
اور فرمایا:
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ (الطلاق: 6)
انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لیےتکلیف نہ دوکہ ان پر تنگی کرو۔
غیرمالی حقوق :
بیویوں کے درمیان عدل وانصاف :
بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ، رہائش، تحائف وغیرہ اور ہر وہ چیز جس میں وہ عدل کر سکتا ہو عدل کرے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ، فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا, جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ (سنن أبي داود، النكاح: 2133))صحيح)
جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور پھر وہ کسی ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ قیامت کے روز اس کیفیت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔
بیوی سے حسن سلوک کرنا:
خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے اوراپنی وسعت کے مطابق ہر وہ چیز مہیا کرے جس سے باہمی محبت والفت پیدا ہو۔ ایک دوسرے کی جنسی خواہشات کی تکمیل بھی واجب ہے۔
اللہ تعالی کا فرن ہے :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء: 19)
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔
اور فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرۃ: 228)
اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے۔
بیوی کو اذیت اور تکلیف دینا حرام ہے:
جب کسی اجنبی شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اوراذیت پہنچانا بالاولی حرام ہوگا ۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا:
لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (سنن ابن ماجه:2340) (صحيح)
نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر فرمایا:
اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (سنن أبي داود، المناسك: 1905) (صحیح)
عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے اللہ کی امانت سے ان پر اختیار حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ان کی عصمتوں کو حلال جانا ہے۔ اور ان عورتوں پر بھی واجب ہے کہ تمہارے حقوق کا لحاظ رکھیں۔ (اور وہ) یہ کہ تمہارے بستروں پر وہ کسی کو نہ آنے دیں، جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو۔ (تمہارے گھروں میں تمہارے ناپسندیدہ افراد کو، مرد ہوں یا عورتیں نہ آنے دیں۔) اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو، مگر زخمی کرنے والی مار نہ ہو۔ اور تم پر واجب ہے کہ ان کا نان و نفقہ اور لباس معروف انداز میں مہیا کرو۔
والله أعلم بالصواب.