سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

شیطانی وسوسوں سے کیسے بچا جائے؟

  • 5925
  • تاریخ اشاعت : 2025-03-30
  • مشاہدات : 20

سوال

شیطانی وسوسوں سے کیسے بچا جائے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ شیطان انسان کو ہر لمحہ بہکانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، وہ انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے اور شبہات پیدا کرتا رہتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ  ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (الأعراف: 16-17)

اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ہی ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرفوں سے اور ان کی بائیں طرفوں سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔

اور فرمایا:

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ (فاطر: 6)

بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہو جائیں۔

اور فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (الحج: 52-53)

اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کوئی نبی مگر جب اس نے کوئی تمنا کی شیطان نے اس کی تمنا میں (خلل) ڈالا تو اللہ اس (خلل) کو جو شیطان ڈالتا ہے، مٹادیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ تاکہ وہ اس (خلل) کو جو شیطان ڈالتا ہے، ان لوگوں کے لیے آزمائش بنائے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بے شک ظالم لوگ یقینا دور کی مخالفت میں ہیں۔

 

شیطان انسان کو مرحلہ وار گمراہی کے راستے پر ڈالتا ہے ۔ وہ کسی بھی مسلمان کو سیدھا یہ نہیں کہے گا کہ كافر ہو جاؤ، لیکن مرحلہ وار کفر تک لے جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ پہلے انسان کو گناہ کرنے پر آمادہ کرے گا، ممکن ہے وہ گناہ صغیرہ ہو، لیکن آہستہ آہستہ کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، پھر اکبر الکبائر کے ارتکاب کرنے کی ترغیب دلاتا ہے، پھر شرکیہ اور کفریہ کاموں پر لگا دیتا ہے۔ جب انسان شيطان كے بہکاوے میں آ کر گناہوں کا ارتکاب کر تا رہتا ہے، تو وہ اس  کے ایمان کے بارے میں شکوک وشبہات دل میں ڈالنا شروع کر دیتا ہے، کبھی اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں اور کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وغيره۔ الغرض شیطان انسان کو مرحلہ وار آہستہ آہستہ گمراہ کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور: 21)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور جو شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے تو وہ تو بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

 

انسان کو شیطانی وسوسوں اور چالوں سے بالکل گھبرانا نہیں چاہیے، کیونکہ ايمان والوں پر اس کی چالیں الله تعالى كے فضل سے بالکل اثر نہیں کرتیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 76)

بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔

اور فرمایا:

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (99) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ (النحل: 99- 100)

بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کا ان لوگوں پر کوئی غلبہ نہیں جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اس کا غلبہ تو صرف ان لوگوں پر ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شریک بنانے والے ہیں۔

 

درج ذیل کام کرنے سے انسان ان شاء اللہ شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہے گا:

 

1. شيطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا۔

ارشاد باری تعالى ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (الأعراف: 201) 

یقینا جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔

 

یعنی شیطان کی طرف سے آنے والے خیال یا غصے کے چھونے کے ساتھ ہی انھیں اللہ تعالیٰ کا جلال، آخرت کی جوابدہی اور شیطان کی دشمنی یاد آجاتی ہے، جس سے فوراً ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، ان میں بصیرت اور استقامت پیدا ہو جاتی ہے، وہ اسی وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہوئے اس وسوسے، خیال یا غصے کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اور اس پر عمل سے باز رہتے ہیں۔

 

مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے  شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہا کرتے تھے : أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم  ”میں شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انتہائی عظمت والا ہے، میں اس کے انتہائی محترم چہرے کی پناہ لیتا ہوں اور اس کے سلطان قدیم کی پناہ لیتا ہوں۔“ کہا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں۔ کہا کہ انسان جب یہ کہہ لیتا ہے تو ابلیس کہتا ہے کہ آج سارے دن کیلئے یہ مجھ سے محفوظ ہو گیا۔ (سنن أبي داود، الصلاة: 466) (صحيح)

سيدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، وَإِذَا خَرَجَ، فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ: 773) (صحيح)

تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور کہے: اللَّهُمَّ وَافْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ’’اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اور جب باہر نکلے تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور کہے: اللَّهُمَّ اعْصِمْنِى مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم ’’اے اللہ! مجھے مردود شیطان سے محفوظ رکھ ۔

 

2. صبح وشام كے اذکار ، سونے اور بیدار ہونے کے اذکار ،  نماز کے بعد کے اذکار اور دیگر مسنون اذکار پر ہمیشگی کرنا۔

3.  قرآن کی تلاوت کرنا، کثرت کے ساتھ الله تعالى كا ذكركرنا، فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرنا۔

4. گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرنا۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: 

إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ لَا مَبِيتَ لَكُمْ وَلَا عَشَاءَ وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرْ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وَإِذَا لَمْ يَذْكُرْ اللَّهَ عِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وَالْعَشَاءَ (صحيح مسلم، الأشربة: 2018)

جب آدمی اپنے گھر میں جاتا ہے، اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ جل جلالہ کا نام لیتا ہے، تو شیطان (اپنے رفیقوں اور تابعداروں سے) کہتا ہے کہ نہ تمہارے یہاں رہنے کا ٹھکانہ ہے، نہ کھانا ہے اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رہنے کا ٹھکانہ تو مل گیا اور جب کھاتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہارے رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوا اور کھانا بھی ملا۔

 

سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ- قَالَ:- يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ؟ (سنن أبي داود، النوم: 5095) (صحيح)

جب بندہ اپنے گھر سے نکلے اور یہ کلمات کہہ لے:  بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه  ”ﷲ کے نام سے، میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرتا ہوں۔ کسی شر اور برائی سے بچنا اور کسی نیکی یا خیر کا حاصل ہونا ﷲ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔“ تو اس وقت اسے یہ کہا جاتا ہے: تجھے ہدایت ملی، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا (ہر بلا سے)۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تیرا داؤ ایسے آدمی پر کیونکر چلے جسے ہدایت دی گئی، اس کی کفایت کر دی گئی اور اسے بچا لیا گیا۔

 

5. نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔

6. قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا۔

کیونکہ قرآن وسنت کا علم نور ہے جس سے دلوں کو نور اور بصیرت ملتی  ہے، شیطانی وساوس اور برے افکار ونظریات ختم ہوجاتے ہیں۔

7. وسوسوں کے بارے میں مزید نہ سوچنا ، بلکہ اپنی سوچ اور فکر کو تبدیل کرلینا۔

والله أعلم بالصواب.

تبصرے