الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ايك حديث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار لوگ بغير حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ وَالنَّبِيَّانِ يَمُرُّونَ مَعَهُمُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ أُمَّتِي هَذِهِ؟ قِيلَ: بَلْ هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، قِيلَ: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَإِذَا سَوَادٌ يَمْلَأُ الأُفُقَ، ثُمَّ قِيلَ لِي: انْظُرْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، فَإِذَا سَوَادٌ قَدْ مَلَأَ الأُفُقَ، قِيلَ: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَيَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ هَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ثُمَّ دَخَلَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ، فَأَفَاضَ القَوْمُ، وَقَالُوا: نَحْنُ الَّذِينَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاتَّبَعْنَا رَسُولَهُ، فَنَحْنُ هُمْ، أَوْ أَوْلاَدُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلاَمِ، فَإِنَّا وُلِدْنَا فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ لاَ يَسْتَرْقُونَ، وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ، وَلاَ يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ» فَقَالَ عُكَاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ: أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا؟ قَالَ: «سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ )صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ: 5705، صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ: 220)
میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں تو ایک نبی اور دو نبی گزرنے لگے۔ ان کے ساتھ لوگوں کے گروہ گزرتے تھے۔ اور کچھ نبی ایسے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ آخر میرے سامنے ایک بھاری جماعت آئی تو میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کیا یہ میری امت ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ ؑ کی امت ہے پھر مجھ سے کہا گیا: آپ افق کی طرف نگاہ اٹھائیں میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو آسمان کے کناروں تک چھائی ہوئی ہے پھر مجھے کہا گیا کہ ادھر ادھر دیکھو۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ عظیم ترین ہجوم نے آفاق کو بھرا ہوا ہے مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ حجرے میں داخل ہو گئے اور یہ وضاحت نہ کی کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ لوگ ان کی متعلق بحث وتحمیص کرنے لگے کہ وہ ہم لوگ ہیں جو اللہ تعالٰی پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی ہے اس لیے وہ لوگ ہم ہیں یا ہماری اولاد جو اسلام میں پیدا ہوئی کیونکہ ہم تو دور جاہلیت کی پیداوار ہیں جب یہ باتیں نبی ﷺ کو معلوم ہوئیں تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے فال نہیں دیکھتے (بد شگونی نہیں لیتے) اور داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ان میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں تم ان میں سے ہو۔“ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”عکاشہ تم سے بازی لے گیا ہے۔
مذكوره بالاحديث مباركہ میں جن ستر ہزار افراد کے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کا ذکر ہے وہ بھی اپنے نيك اعمال كی وجہ سے داخل ہوں گے۔ اگر رمضان میں فوت ہونے کی کوئی خاص فضیلت ہوتی تو وہ بھی ايمان والے، متقی اور پارسا لوگوں کے لیے ہونی تھی نہ کہ ہر اس انسان کے لیے جو رمضان میں فوت ہو جائے۔
ایک حدیث میں روزے کی حالت میں فوت ہونے کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو کہ درج ذیل ہے:
سيدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بيان كرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ حَسَنٌ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ صَامَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ (مسند أحمد: 23324) (صحيح)
جو شخص (رضائے الہٰی کے لئے ) لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اور اس کی زندگی اسی اقرار پر ختم ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص رضائے الہٰی کے لئے ایک دن روزہ رکھے اور اسی پر اس کا اختتام ہو تو وہ بھی جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص رضائے الہٰی کے لئے صدقہ کرے اور اسی پر اس کا اختتام ہو تو وہ بھی جنت میں داخل ہوگا۔
اس حدیث مبارکہ میں بھی مذکور ہے کہ جنت میں داخلہ نیک عمل کی بنا پر ہو گا اور اس شرط کے ساتھ کہ اسی نیک عمل پر اس کا خاتمہ ہوا ہو، صرف رمضان میں موت واقع ہونے سے بخشش نہیں ہو گی۔
والله أعلم بالصواب.