الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے دعا کرنے کا ارادہ کرتے، تو پہلے اپنے لیے دعاكرتے پھر اس شخص کے لیے دعا فرماتے ۔
سيدنا ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَهُ بَدَأَ بِنَفْسِهِ (سنن ترمذي، أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: 3385) (صحيح)
جب رسو ل اللہ ﷺ کسی کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے، تو پہلے اپنے لیے دعا کرتے پھر اس کے لیے۔
انبیاء کرام کا بھی یہی طریقہ تھا کہ وہ پہلے اپنے لیے دعا کرتے تھے پھر دیگر لوگوں کے لیے دعا فرماتے۔
موسی علیہ السلام کی دعا :
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الأعراف:151)
نوح علیہ السلام کی دعا :
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَاراً (نوح:28)
ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی دعا :
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ . رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آَيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 128، 129)
ابراہیم علیہ السلام کی دعا :
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ . رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (إبراهيم:40،41)
رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ (إبراهيم: 35)
اللہ تعالی نے مومن بندوں کی دعا کا طریقہ بھی یہی بیان کیا ہے:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آَمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (الحشر: 10)
مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ انسان جب كسی کے لیے دعا کرنے کا ارادہ کرے، تو اسے پہلے اپنے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اگر کسی مسلمان بھائی پر کوئی آفت آگئی ہو یا اسے کوئی حاجت ہو پھر خود کو چھوڑ کر پہلے اس کے لیے دعا کی جا سکتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت حسان بن ثابت ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے گواہی طلب کر رہے تھے: تمہیں اللہ کی قسم! بتاؤ کیاتم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:
يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ القُدُسِ
اے حسان! رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کافروں کو جواب دو۔ اے اللہ! تو حسان کی روح القدس سے تائید فرما؟‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا:ہاں، میں نے سنا ہے۔ (صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ : 453)
والله أعلم بالصواب.