سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

كيا حرام مال میں زکوۃ واجب ہوگی؟

  • 5550
  • تاریخ اشاعت : 2024-12-25
  • مشاہدات : 93

سوال

ایک شخص بینک میں نوکری کرتا ہے اور اس کی ایک دكان بھی ہے۔ بنک کی تنخواہ اور دکان سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔ اس مال مخلوط کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں زکوۃ اور حج واجب ہوتا ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سود کبیرہ گناہ اوراللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ اس لیے سود لکھنا، سود کا حساب کتاب رکھنا یا سودی بنک میں ملازمت کرنا حرام ہے، کیونکہ حرام  کام میں تعاون کرنا بھی حرام ہے۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡوَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﱠ (المائدة: 2).

اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پرایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

اور فرمایا:

ﱡ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَﱠ. (البقرة: 278-279).

اے لوگو جو ایمان لائے ہو!  اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جاؤ، اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔

سیدنا جابر رضى اللہ عنہ بیان کرتےہیں:

لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ)). (صحيح مسلم، المساقاة: 1598).

رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے سود كھانے والے، سود كھلانے والے، سود لكھنے والے، اور سود كے گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائى ہے، اور فرمایا: يہ سب (گناہ میں) برابر ہيں۔

اس لیے بنک میں نوکری کرنے والے پر واجب ہے کہ اس ملازمت کو فورا چھوڑ دے اور حلال ذریعہ معاش اپنائے۔ جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت کا اظہار کرے، اور پختہ عزم كرے كہ آئندہ کوئی بھی حرام ذریعہ آمدن اختیار نہیں کرے گا ۔ 

بنک سے ملنے والی تنخواہ حرام کام میں معاونت سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔ اسے اپنے پاس رکھنا اور کھانا جائز نہیں ہے۔ اسے مسکینوں، فقیروں میں تقسیم کر دے۔ اگر کوئی مقروض شخص اپنا قرض ادا نہیں کرسکتا اس کی معاونت بھی اس مال سے کی جا سکتی ہے۔ سڑکیں، ہسپتال وغیرہ  بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں پر بھی ایسا مال خرچ کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یاد رہے!  کہ جب وہ یہ مال فقیروں، مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کرے گا، تو صدقے کی نیت نہیں کرے گا؛ کیوں کہ اللہ تعالی حرام مال قبول نہیں کرتا۔

سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا. (صحيح مسلم، الزكاة: 1015). 

اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے۔

لہذا حرام مال خرچ کرتے وقت یہ نیت ہو گی کہ وہ  گناہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے اور  اپنے مال کو سود سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ 

 

حرام مال میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی، کیونکہ شرعی لحاظ سے حرام مال پر انسان کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ حرام مال کو اپنے پاس رکھنا ہی درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے۔ حرام مال کو مسکینوں اور فقیروں وغیرہ میں تقسیم کرنا ضروری ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔  

اس شخص كے پاس بنک کی آمدنی اور دکان سے حاصل ہونے والی آمدنی یعنی حرام اور حلال مال خلط ملط ہو چكا ہے۔ اسے اپنے اکاؤنٹ میں موجود حرام مال كا اندازہ لگانا چاہيے كہ قریبا اتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں حرام ذریعہ معاش سے آئی ہے، وه  اسے خير وبھلائى كے كاموں ميں صرف كردے، حتى كہ اسے غالب گمان ہو جائے کہ اب اس كے اکاؤنٹ میں صرف حلال مال  باقى ره  گيا ہے۔

اگر وه  توبہ کرتے ہوئے حرام آمدنی سے چھٹکارا حاصل کرے گا، تو اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 2)

اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔

 

حرام  آمدنی سے چھٹکارا  حاصل کرنے کے بعد باقی ماندہ رقم اگر نصاب کو پہنچتی ہو یعنی وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو سال گزرنے کے بعدمجموعی رقم  سے اڑھائی فیصد زکاۃ نکالی جائے گی۔

اگر انسان حرام مال سے حج کرتا ہے، تو اس سے حج کا فریضہ ساقط ہو جائے گا، لیکن حرام مال سے حج کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہے۔ اس کا حج ناقص ہے، حج مبرور نہیں ہے۔ اس پر توبہ و استغفار کرنا اور حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنا واجب ہے۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

تبصرے