سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

لڑکی کی مرضی کے خلاف زبردستی شادی کر دینا

  • 5458
  • تاریخ اشاعت : 2024-12-25
  • مشاہدات : 30

سوال

كيا عاقلہ بالغہ لڑکی کی پسند کی جگہ شادی کرنے کی بجائے اسکی مرضی کے بغیر کسی دوسری جگہ زبردستی شادی کر دینا اسلام میں جائز ہے؟ كيا ايسا نکاح منعقد ہوگا؟ جب ولی نے لڑکی سے پوچھنا گوارہ ہی نہیں کیا اور زبردستی سائن کروالیے ہوں مار پیٹ کر۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت اگر كسى مرد كے ساتھ شادى میں رغبت نہيں ركھتى، اس سےشادى نہيں كرنا چاہتى،  تو اس كے ولى كے ليے  اسے اس شخص كے ساتھ شادى  كرنے پر مجبور كرنا حرام ہے۔

 سيدنا  ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ فرمایا:

لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ (صحيح البخاري: كِتَابُ الحِيَلِ: 6968)

کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت نہ كيا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے

ايك دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ نے فرمایا:

وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا (صحیح مسلم، كتاب النكاح:  1421)

اور کنواری سے اس کا والد اس کے (نکاح کے) بارے میں اجازت لے گا، اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔

لڑكى كے  ناپسند كرنے کے باوجود اس کی شادی کر دینا شریعت اور عقل دونوں  كے خلاف ہے، کیونکہ خاوند اور بیوی کا رشتہ باہمی محبت و الفت کا رشتہ ہوتا ہے۔ اگر بيوى اپنے خاوند سے نفرت ركھتى ہو، اسے ناپسند كرتی ہو تو ان دونوں كے درمیان كونسى و محبت اور الفت پیدا  ہو گى ؟!                   

 

اگر کسی لڑکی کو مجبور کر کے، زبردستی اس سے سائن کروا لیے گئے ہوں تو يہ نكاح عورت كى اجازت پر موقوف ہوگا۔ اگر عورت اجازت دے دے اور راضی ہو جائے، تو یہ نکاح صحیح ہے، اگر اجازت نہیں ديتى، تویہ نكاح  باطل ہو گا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن ابن ماجه، كتاب النكاح: 1875) (صحيح)

ایک کنواری لڑکی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بتایا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے جب کہ وہ (اس رشتے سے) ناخؤش ہے۔ نبی ﷺ نے اسے (نکاح قائم رکھنے یا نہ رکھنے کا) اختیار دے دیا۔

سيده عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میری وجہ سے اس کا مرتبہ اونچا کرے۔ جبکہ میں اسے پسند نہيں کرتی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نبیﷺ کے تشریف لانے تک بیٹھ جا۔ اتنے میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے آئے تو اس نے پوری بات رسول اللہﷺ کو بتائی۔ آپ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا اختیار اس لڑکی کے سپرد کردیا۔ وہ لڑکی کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے والد محترم کے کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں۔ میں تو یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی اس (نکاح کے) معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں؟۔  (سنن نسائی، كتاب النكاح: 3269 سنن ابن ماجه، كتاب النكاح: 1874) (صحيح)

اگر عورت نكاح پرراضی نہ ہو اور اس کی اجازت نہ دے، تو يہ نكاح فاسد ہوگا۔ اسے چاہيے كہ جس مرد كے ساتھ اس كا نكاح ہوا ہے اسے بتا دے اور اسے اپنے ساتھ جماع اور مباشرت نہ كرنے دے۔ مرد  كو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ عورت کو جماع اور مباشرت پر مجبور كرے۔ 

مرد سے کہا جائے گا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے یا پھر عدالت کے ذریعہ طلاق لے لی جائے گی۔ 

والله أعلم بالصواب.

محدث فتویٰ کمیٹی

تبصرے