سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا حلالہ کروانے سے عورت سابقہ خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی؟

  • 5457
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-15
  • مشاہدات : 52

سوال

ایک شخص دوسرے کا نکاح پڑھاے اور وہ نکاح حلالہ کے لئے ہو اور اس مجلس میں صرف تین ہی آدمی ہو . ایک نکاح خواں اور ایک لڑکی کی جانب سے اس کا وکیل جوکہ اس کا باپ ہے اور ایک دلہا. ان کے علاوہ اس ایک شخص دوسرے کا نکاح پڑھائے اور وہ نکاح حلالہ کے لئے ہو۔ اس مجلس میں صرف تین ہی آدمی ہو ں: نکاح خواں، لڑکی کی جانب سے اس کا وکیل جوکہ اس کا باپ ہے، اور دلہا۔ ان تین آدمیوں کے علاوہ اس مجلس میں کوئی اور نہ تھا۔ آیا اس صورت میں مطلقہ دوسرے شخص کے لئے حلال ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس صورت میں نکاح خواں پر کوئی گناہ ہے یا نہیں؟ حالانکہ اس کو اس کے بارے میں علم بھی نہ تھا۔ شرعی نقطہ نظر سے اس کا حکم بیان کریں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حلالہ کروانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ یہ غیر شرعی نکاح کے ذریعے عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے کا حیلہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت کی ہے اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ  سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ. (سنن الترمذي، النكاح: 1120، سنن النسائي، الطلاق: 3416) (صحيح).

رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے ليے حلالہ کرايا جائے (دونوں)  پر لعنت کی ہے۔

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ. (سنن ابن ماجه،:  1936) (صحيح).

كیا میں کرائے کے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں (کہ وہ کون ہوتا ہے؟) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: جی ہاں (بتائیے) اے اللہ کے رسول! فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے ليے حلالہ کرايا جائے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔

 

1. سابقہ احادیث مبارکہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حلالہ کرنا اور کروانا کبیرہ گناہ ہیں اور ایسا نکاح باطل ہے، جو عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے کے لیے کیا گیا ہو۔ وہ عورت اس نکاح کی بنیاد پر سابقہ خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی۔

 

2. نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل(صحیح الجامع: 7557).

ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا۔

1. اگر نکاح پڑھانے والے کو علم تھا کہ یہ نکاح عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے، تو وہ گناہ گار اور مجرم ہے؛ کیونکہ اس نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی ہے، اور حرام کام میں تعاون کیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:   

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﱠ (المائدة: 2).

اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرواور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

 

2. اگر نکاح پڑھانے والے کو علم نہیں تھا کہ یہ نکاح عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے سے غرض سے کیا جا رہا ہے، پھر بھی اس کے لیے نکاح پڑھانا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کو نکاح کے مسائل، اس کے  ارکان وشروط کا علم  ہی نہیں ہے۔ اس نے گواہوں کی موجودگی کے بغیر ہی نکاح پڑھا دیا ہے، حالانکہ نکاح کے موقع پر دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ

2- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہ اللہ

3- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ

4- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ

تبصرے