الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سابقہ انبیاء ورسل اور قوموں کے واقعات بہت سی حکمتوں کے سبب ذکر کیے ہیں، چند ایک حکمتیں درج ذیل ہیں:
1. ان قصوں اور واقعات سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف کو بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالی ایمان والے نیک بندوں کو بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے، اور کفر کرنے والے، فاسق وفاجر لوگوں کو عذاب دیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَّا آلَ لُوطٍ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا كَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ (القمر:34-35)
سوائے لوط کے گھر والوں کے، انھیں ہم نے صبح سے کچھ پہلے نجات دی۔ اپنی طرف سے انعام کرتے ہوئے، اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں اسے جو شکر کرے۔
اور فرمایا:
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (هود: 100-101)
یہ ان بستیوں کی چند خبریں ہیں جو ہم تجھے بیان کرتے ہیں، ان میں سے کچھ کھڑی ہیں اور کچھ کٹ چکی ہیں۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا اور لیکن انھوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا، پھر ان کے وہ معبود ان کے کچھ کام نہ آئے جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے، جب تیرے رب کا حکم آگیا اور انھوں نے ہلاک کرنے کے سوا انھیں کچھ زیادہ نہ دیا۔
2. ان واقعات کے بیان سے نبی ﷺ کو تسلی دینا بھی مقصود ہے کہ سابقہ انبیاء کو بھی ان کی قوموں نے جھٹلایا، اگر آپ کی قوم آپ پر ایمان نہیں لاتی تو آپ کو فکر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (فاطر: 25-26)
اوراگر وہ تجھے جھٹلائیں توبلا شبہ ان لوگوں نے (بھی) جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور صحیفوں کے ساتھ اور روشنی کرنے والی کتاب کے ساتھ آئے۔ پھر میں نے ان لوگوں کو پکڑ لیا جنھوں نے کفر کیا، تو میرا عذاب کیسا تھا؟
3. یہ واقعات ایمان والوں کے لیے ثابت قدمی کا باعث ہیں اور کفر کرنے والوں کے لیے تحذیر ہیں کہ وہ اپنے کفر سے باز آجائیں، ورنہ ان کا بھی حال سابقہ کافروں کی طرح ہو گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:47)
اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے، پھر ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنھوں نے جرم کیا اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔
اور فرمایا:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا (محمد: 10)
تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈال دی اور ان کافروں کے لیے بھی اسی جیسی( سزائیں) ہیں۔
4. ان واقعات سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کا بھی اثبات ہوتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبریں ہیں اور غیب کی خبر اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ (إبراهيم: 9)
کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اورعاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لوٹا لیے اور انھوں نے کہا بے شک ہم اسے نہیں مانتے جو تم دے کر بھیجے گئے ہو اور بے شک ہم تو اس چیز کے بارے میں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو، ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔
اور فرمایا:
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ (هود: 49)
یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم، پس صبر کر، بے شک اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔
قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں مذکور سابقہ نبیوں کی شریعتوں کے احکامات کو تین طرح تقسیم کیا جاتا ہے:
پہلی قسم:
سابقہ شریعتوں کے وہ احکامات جو ہماری شریعت کے خلاف ہیں وہ بلاشبہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (الأنعام: 146)
اور ان لوگوں پر جو یہودی بن گئے، ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا اور گائیوں اور بھیڑ بکریوں میں سے ہم نے ان پر دونوں کی چربیاں حرام کر دیں، سوائے اس کے جو ان کی پشتیں یا انتڑیاں اٹھائے ہوئے ہوں، یا جو کسی ہڈی کے ساتھ ملی ہو۔ یہ ہم نے انھیں ان کی سرکشی کی جزا دی اور بلاشبہ ہم یقینا سچے ہیں۔
دوسری قسم:
سابقہ شریعتوں کے وہ احکامات جو ہماری شریعت میں بھی ہے، وہ ہمارے لیے حجت ہیں، لیکن ان کی دلیل ہماری شریعت میں موجود نص ہو گی نہ کہ سابقہ نبیوں کی شریعتیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔
مندرجہ بالا آیت اس بات کی دلیل ہے کہ روزہ سابقہ شریعتوں میں بھی فرض تھا، پھر ہماری شریعت میں بھی اسے فرض کیا گیا۔
5. سابقہ شریعتوں کے وہ احکامات جو قرآن یا سنت میں مذکور ہیں لیکن ہماری شریعت میں اس کے منسوخ ہونے یا مشروع ہونے کا ذکر نہیں ہے ، اس بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ وہ ہمارے لیے حجت ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ (الأنعام90)
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو سابقہ نبیوں کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے ، جس بات کا حکم رسول کو ہے وہی حکم اس کی امت کے لیے بھی ہے، یعنی نبی ﷺ کی امت کو بھی سابقہ نبیوں کی پیروی کرنے کا حکم ہے۔
اور فرمایا:
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا(النحل:123)
پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر، جو ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو ابراہیم علیہ السلام کی ملت یعنی اس کے دین اور شریعت کی پیروی کا حکم دیا۔
اور فرمایا:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا (الشورى: 13)
اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے وہ مشروع کیا جو نوح علیہ السلام کے لیے مشروع کیا تھا، لہذا نوح علیہ السلام کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے ۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی