سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اگرعورت کو طلاق کی خبر تاخیر سے پہنچے تو طلاق کی عدت کب شروع ہو گی؟

  • 5434
  • تاریخ اشاعت : 2024-08-13
  • مشاہدات : 116

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو زبانی تین طلاقیں مکمل کرلی اور عورت سے جسمانی رابطہ بھی ختم کر دیا، پھر تقریباً 6 ماہ بعد قانونی طور پر تحریری طلاق بھجوائی اور اس کا اپنی یونین کونسل میں اندراج بھی کروا دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عورت کی عدت کی مدت کب سے شروع ہوگی۔ زبانی طلاق سے یا تحریری طلاق سے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر اس شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی ہے تو اس کے پاس عدت کےدوران رجوع کرنے کا اختیار ختم ہوچکا ہے، اب وہ عورت اپنی عدت گزارے گی اور ہمیشہ کے لیے اس سے الگ ہوجائے  گی۔

ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡالطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﱠ (البقرة: 229).

یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے‘، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔

اور فرمایا:

ﱡفَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﱠ (البقرة: 230).

پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو (پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کرلیں، اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، وہ انہیں ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہےجو جانتے ہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رفاعہ القرظی نے ایک عورت سے شادی کی اور اسے تیسری اورآخری طلاق بھی دے دی ، اس عورت نے کسی اور مرد سے شادی کرلی، وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ اس نے جس مرد سے شادی کی ہے وہ حقوق زوجیت ادا نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ عورت دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ. (صحيح البخاري، الطلاق:  5317 )، صحيح مسلم، النكاح: 1433.

 نہیں (یعنی تو واپس رفاعہ کے پاس نہیں جا سکتی) حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرا مزہ چکھے۔

مندرجہ بالا آیت اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد عورت اپنے سابقہ خاوند کے لیے صرف اسی صورت حلال ہوسکتی جب وہ اپنی رغبت سے، گھر بسانے کی غرض سے کسی مرد سے شادی کرے اورمرد کی نیت بھی گھر بسانے کی ہی ہو، سابقہ خاوند کے لیے اس عورت کو حلال کرنا مقصد نہ ہو، ان دونوں کے ازدواجی تعلقات قائم ہوں ، پھر دوسرا خاوند کسی سبب کی بنا پر اپنی بیوی کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے  یا فوت ہو جائے تو یہ عورت سابقہ خاوند کے لے حلال ہو جائے گی  اور وہ اس سے دوبارہ نئے سرے سے نکاح کر سکتا ہے جس میں ولی ، گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔

1. طلاق کی عدت خاوند کے طلاق دینے کے فورا بعد شروع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں مذکور صورت حال میں  اگر کسی دلیل سے ثابت ہو جائے یا خاوند خود اعتراف کرے کہ اس نے 6 ماہ پہلے اپنی بیوی کوطلاق دے دی تھی ، تو جب خاوند نے طلاق دی تھی ، اسی وقت سے عدت شروع ہو چکی تھی۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

2- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ

3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ

تبصرے