الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی نمازجنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بعض لوگ میت کا جنازہ پڑھ لیتے ہیں تو باقی لوگوں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے، لیکن میت کے جنازے میں زیادہ افراد کا شریک ہونا افضل اور بہتر ہے اسی طرح اس کودفنانے میں جلدی کرنا بھی ضروری ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بیٹے کا قدید یا عسفان میں انتقال ہوگیا تو انھوں نے کہا: کریب! دیکھو اس کے (جنازے کے) لیے کتنے لو گ جمع ہوچکے ہیں۔ (کریب کہتے ہیں) میں باہر نکلا تو دیکھا کہ اس کی خا طر (خاصے لو گ جمع ہوچکے ہیں تو میں نے ان کو اطلا ع دی ۔ انھوں نے پوچھا: تم کہتے ہو کہ وہ چالیس ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔ تو انھوں نے فرمایا: اس (میت) کو (گھر سے) باہرنکالو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو بھی مسلمان فوت ہوجا تا ہے اور اس کے جنا زے پر (ایسے) چالیس آدمی (نماز ادا کرنے کے لیے) کھڑے ہو جاتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ان کی سفارش کو قبول فرما لیتا ہے ۔ (صحیح مسلم، الجنائز: 948)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ لَعَلَّهُ قَالَ تُقَدِّمُونَهَا عَلَيْهِ وَإِنْ تَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ (صحیح مسلم، الجنائز: 944)
جنازے (کو لے جانے) میں جلدی کرو، اگر وہ (میت) نیک ہے تو جس کی طرف تم اس کو لے جا رہے ہو وہ خیر ہے اگر وہ اس کے سوا ہے تو پھر وہ شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتاردو گے۔
1. مندرجہ بالااحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جنازے میں جتنے زیادہ افراد شریک ہو جائیں، اور جتنی جلدی اس کی تدفین ہو جائے بہتر ہے۔ اگر کوئی شخص جنازہ پڑھے جانے کے بعد آئے اور میت ابھی اسی جگہ پڑی ہو جہاں اس کا جنازہ پڑھا گیا تھا تو وہاں جنازہ پڑھ لے، اگر دفنانے کے بعد پہنچا ہے تو قبر پر کھڑے ہو کر بھی نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، وہ فوت ہوگیا تو نبی ﷺ نے لوگوں سے اس کی بابت پوچھا؟ انھوں نے کہا: وہ توفوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
أَفَلاَ كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ - أَوْ قَالَ قَبْرِهَا - فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا (صحیح البخاری، الصلاة: 458)
بھلا تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں نماز جنازہ ادا کی۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ