الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں کسی میت کے وارث بننے کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں:
1- نسب
2- نکاح
3- ولاء (آزاد کردہ غلام کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو اس کا آقا جس نے اسے آزاد کیا تھا اس کاوراث ہو گا)
1. لہذا اگر مرنے والے کے ساتھ کسی شخص کا نسب، نکاح یا ولاء کاتعلق ہو تو وہ اس کا وارث بن سکتا ہے۔
2. رضاعی اولاد میں ان میں سے کوئی تعلق بھی نہیں پایا جاتا، اس لیے وہ اپنے رضاعی باپ ، رضاعی ماں یا بہن بھائی وغیرہ کا وارث نہیں بن سکتی۔
3. اگر انسان صاحب ثروت ہو، اس کے سگے بیٹوں کو مال کی زیادہ ضرورت نہ ہو، اور رضاعی اولاد فقیر اور محتاج ہو تو اسے چاہیے کہ وہ رضاعی اولاد کے لیے اپنے مال سے ایک تہائی یا اس سے کم کی وصیت کردے۔
سیدنا خالد بن عبید السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَعْطَاكُمْ ثُلُثَ أَمْوَالِكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ زِيَادَةً فِي أَعْمَالِكُمْ. (صحيح الجامع: 1721).
بلاشبہ اللہ تعالی نے تمہیں موت کے وقت ایک تہائی مال تک اختیار دیا ہے تاکہ تمہارے اعمال میں اضافہ ہوسکے۔
1. اپنے نام کے ساتھ رضاعی باپ کا نام لکھنا جائز نہیں ہے، حقیقی باپ کا نام لکھا جائے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ (الأحزاب: 5)
انہیں ان کے باپوں ہی کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے دوست ہیں۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ