الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی انسان نے جہالت کی وجہ سے اپنی زبان سے کفریہ کلمہ کہہ دیا اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ ایسی بات کرنا کفر ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کو ظاہر کرو يا چھپاؤ! اللہ اس پر تمہارا مؤاخذہ کرے گا۔‘‘ (ابن عباسؓ نے) کہا: اس سے صحابہؓ کے دلوں میں ایک چیز (شدید خوف کی کیفیت کہ احکام الہٰی کے اس تقاضے پر عمل نہ ہو سکے گا) در آئی جو کسی اور بات سے نہیں آئی تھی۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کہو: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اورہم نے تسلیم کیا۔‘‘ ابن عباسؓ نے کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں میں ایمان ڈال دیا اور یہ آیت اتاری: ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اسی کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر (وبال) پڑتا ہے (برائی کا) جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔‘‘ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا۔‘‘ ’’ اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے۔‘‘ فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا۔‘‘ ’’ہمیں بخش دے! او رہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا مولیٰ ہے۔‘‘ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان: 125)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْه. سنن ابن ماجه، الطلاق: 2045) (صحيح).
بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی، بھول اور مجبوری کو رکھ دیا ہے (یعنی اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا)۔
مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص خطا کار ہے جو غیر ارادی طور پر حق بات کی مخالفت کر لے۔
1. جس شخص کو یقینی طور پر علم تھا کہ یہ بات کہنا کفر ہے اس نے جان بوجھ کر کفریہ کلمہ کہا، تو وہ کافر ہو جائے گا، اس پر لازمی ہے کہ وہ اپنے کفر سے توبہ کرے، اپنے قول پر پشیمان ہو، آئندہ ایسا نہ کہنے کا پختہ عزم کرے اور کلمہ طیبہ کا اقرار کرے یعنی أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ایمان اور یقین کے ساتھ پڑھے۔
2. اگر انسان کفریہ کلمہ کہنے کی وجہ سے مرتد ہو جائے، تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی، بیوی کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ اسے اپنے قریب آنے دے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ (الممتحنة: 10)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو، اللہ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے ۔پھر اگر تم جان لو کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو، نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہوں گے۔
1. اگر خاوند عقد نکاح کے بعد اور بیوی سے ہمبستری کرنے سے پہلے مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح فوری طور پر ختم ہوجائے گا۔ اگر وہ اپنے کفر سے توبہ کر تا ہے تو دوبارہ عقد نکاح کرنا ہو گا، جس میں نکاح کے ارکان اور شروط کا پایا جانا ضروری ہے۔
2. اگر خاوند عقد نکاح اور ہمبستری کے بعد مرتد ہوا ہو اور عدت کے دوران پنے کفر سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کا نکاح برقرار ہے، کیونکہ صفوان بن اميہ رضی اللہ عنہ كى بيوى فتح مكہ كے موقع پر مسلمان ہو گئى تھى، اس كے مسلمان ہونے کے ايك ماہ بعد صفوان رضی اللہ عنہم بھى مسلمان ہو گئے تھے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں عليحدگى نہيں كرائى تھى، اور نہ ہى انہيں تجديد نكاح كا حكم ديا تھا، بلكہ وہ صفوان كے پاس پہلے نكاح کے ساتھ ہى رہيں۔
3. اگر عدت گزر جانے کے بعد وہ اپنے کفر سے توبہ کرتا ہے تو اگر اس کی بیوی نے دوسرے کسی مرد سے شادی نہیں کی اور وہ دونوں آپس ميں اكٹھا رہنے پر متفق ہیں تو پہلا عقد نكاح ہى كافى ہے تجديد نكاح كى ضرورت نہيں ہو گى۔
سيدنا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ، لَمْ يُحْدِثْ شَيْئًا (سنن أبي داود، الطلاق: 2240) (صحيح)
رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی زینب کو (ان کے شوہر) ابوالعاص ؓ پر پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا تھا، اور کوئی نیا (نکاح وغیرہ) نہ کیا تھا۔
ابو العاص رضى اللہ تعالى نے سورۃ الممتحنۃ كى آيات نازل ہونے كے دو برس بعد اسلام قبول كيا تھا جن ميں بيان كيا گيا ہے كہ مسلمان عورتيں مشركوں كے ليے حرام ہيں، اور ظاہر ہے كہ اس مدت ميں تو زينب رضى اللہ تعالى عنہا كى عدت ختم ہو چكى تھى، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلے نكاح ہى كے ساتھ انہيں واپس كر ديا تھا۔
یاد رہے! وہ عورت جسے روٹین سے ماہواری آتی ہے اس کی عدت تین حیض ہے، یعنی طلاق کے بعد اگر عورت کو تین مرتبہ حیض آ جائے اور وہ تیسرے حیض سے پاک ہو جائے تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ. (البقرة: 228).
اور وہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔
وہ عورت جس کو ماہواری آنا بند ہو گئی ہے، یا عمر کم ہونے کی وجہ سے ابھی آنا شروع ہی نہیں ہوئی ، ان کی عدت تین قمری مہینے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ﱠ . (الطلاق: 4).
اور وہ عورتیں جوتمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہےاور ان کی بھی جنہیں حیض نہیں آیا۔
اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﱠ. (الطلاق: 4).
اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔
1. اگر انسان کسی کی لکھی ہوئی کفریہ بات کسی شرعی مقصد کے لیے پڑھتا ہے، جیسے لوگوں کو اس کے کفر ہونے کی وضاحت کرنے کے لیے، یا اس کا رد کرنے کےلیے، وغیرہ، تو اس صورت میں وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔ اگر وہ کفریہ بات کو پڑھتا ہے اور دل سے اس پر راضی بھی ہے تو کافر ہوجائے گا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ عبد ا لخالق صاحب حفظہ اللہ