سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے؟

  • 5403
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-05
  • مشاہدات : 113

سوال

حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے،قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دلائل بیان کریں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے ہرلحاظ سے نمونہ ہے۔ انسان کی عائلی زندگی ہو یا معاشرتی، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اقتصادی زندگی ہو یا سیاسی، الغرض  زندگی کے ہرشعبہ میں آپ کی پیروی کرنا ہرمسلمان پر واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے تمام احکامات کوعملی طور کرکے دکھایا، چند ایک دلائل اس حوالے سے ذکر کیے جاتے ہیں:

ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الأحزاب: 21)

بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔

اور فرمایا:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 4)

اور بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے خلق پر ہے۔

اللہ تعالی نے متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد  فرمایا:

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ (الأنعام: 90)

یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر، کہہ میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، یہ تو تمام جہانوں کے لیے ایک نصیحت کے سوا کچھ نہیں۔

اور فرمایا:

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى  وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم:1-4)

قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

اور فرمایا:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 7)

اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اورجس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔

سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف منہ کر لیا اور وعظ فرمایا، بڑا ہی بلیغ اور جامع وعظ، ایسا کہ اس سے ہماری آنکھیں بہہ پڑیں اوردل دہل گئے۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا الوداعی وعظ تھا، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ فرمایا: ”میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اوراپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا، خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (سنن أبي داود، السنة: 4607) (صحیح)

سيده عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :

 كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مسند أحمد: 25813) (صحيح)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تو قرآن تھا۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے