الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس حدیث کا آپ نے ذکر کیا ہے اسے سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم ﷺ نکلے اور ابوبکر ؓ کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہے تھے اوران کی آواز دھیمی تھی۔ اورعمر بن خطاب ؓ کے پاس سے گزرے، وہ بھی نماز پڑھ رہے تھے، ان کی آواز بلند تھی۔ جب وہ دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس اکٹھے ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا، تم نماز پڑھ رہے تھے اور تمہاری آواز دھیمی تھی؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے جس سے مناجات کی اسے سنایا۔ پھر آپ ﷺ نے عمر سے کہا: ”میں تمہارے پاس سے گزرا، تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ حسن نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ! ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا، وَقَالَ لِعُمَرَ: اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا (سنن أبي داود، التطوع: 1329) (صحيح)
ابوبکر! اپنی آواز کچھ بلند کیا کرو۔“ اور عمر سے فرمایا: ”تم اپنی آواز کچھ دھیمی رکھا کرو۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں سنتیں اور نوافل اداکرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا (صحيح البخاري، الصلاة: 432)
اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انھیں بالکل قبرستان نہ بنا لو۔
1۔ سنن رواتب یعنی فجر، ظہر، مغرب اورعشاء کی نماز کے ساتھ جو سنتیں ادا کی جاتی ہیں ان میں خاموشی سے قراءت کرنا سنت ہے، البتہ اگر کوئی شرعی مصلحت ہو جیسے خشوع وخضوع کے لیے، تو اتنی اونچی آواز میں تلاوت کرسکتا ہے جو خود کو سنائی دے، اگر کسی کو تشویش لاحق ہو تو پھر خاموشی سے ہی قراءت کی جائے گی۔
2۔ قیام اللیل میں انسان جیسے اس کے لیے بہتر ہو ویسے قراءت کرلے، اگر اس کے لیے تھوڑی اونچی آواز سے قراءت کرنا زیادہ مناسب ہو تو اونچی آواز سے قراءت کرلے بشرطیکہ کسی کو کوئی اذیت لاحق نہ ہو، اگر خاموشی سے قراءت کرنا اس کے لیے زیادہ مناسب ہو تو خاموشی سے کر لے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ,يَرْفَعُ طَوْرًا، وَيَخْفِضُ طَوْرًا (سنن أبي داود، التطوع:1328)(صحيح)
نبی کریم ﷺ رات کو کبھی بلند آواز سے اور کبھی دھیمی آواز سے قراءت کرتے تھے۔
1۔ اگر انسان نفلی نماز میں لمبا قیام کرنا چاہتا ہو اور اسے قرآن زبانی یاد نہ ہو تو اس کے لیے قرآن مجید کھول کرنا تلاوت کرنا جائز ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا غلام ذکوان نماز میں قرآن مجید کھول کر امامت کروایا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری، الأذان، باب إمامة العبد والمولى)
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ