الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ بالا سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی احمد کے وارث درج ذیل افراد ہیں:
اگر میت کے صرف یہی وارث زندہ ہیں تو ساری جائیداد تین باپ شریک بھائیوں میں تقسیم ہوگی، سارے مال کے تین حصے کر لیے جائیں گے، ہر باپ شریک بھائی کو ایک حصہ مل جائے گا۔
دو حقیقی بھائیوں کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ جب میت کے قریبی وارث موجود ہوں تو دور کے وارث کو کچھ نہیں ملتا، باپ شریک بھائی رشتے میں میت کے زیادہ قریب ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما بيان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَر (صحيح البخاري، الفرائض: 6732).
تم جن ورثا کا حصہ متعین ہے انہیں ان کا حصہ پورا پورا ادا کر دو، پھر جو مال بچ جائے اسے میت کے قریبی ترین رشتےدار کو دے دو۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ انس مدنی صاحب حفظہ اللہ