الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو بیٹا مدرسے کا طالب علم ہے اسے چاہیے کہ اپنے والد کو تقوی اختیار کرنے اوراللہ سے ڈرنے کی ترغیب دے، اور اسے سمجھائے کہ قیامت کے روز انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال کا حساب دینا ہوگا۔ اسے یہ بھی بتائے کہ اللہ تعالی حرام کمانے والے کی دعا بھی قبول نہیں کرتے۔
اگراولاد نابالغ ہے یا بالغ ہے لیکن کمانے کی استطاعت نہیں رکھتی تو وہ اپنے باپ کی حرام کمائی سے اپنی ضروریات پوری کرسکتی ہے، کیونکہ اس صورتحال میں وہ مجبور ہیں، لیکن جب وہ حلال روزی کمانے پر قادر ہوجائیں تب ان پر باپ کی حرام کمائی سے لینا جائزنہیں ہو گا کیونکہ ان کے لیے رخصت مجبوری کی بنا پرتھی جب مجبوری ختم ہوگئی تو رخصت بھی ختم ہوجائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (البقرة: 173)
اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
1. جو بیٹا مدرسہ کا طالب علم ہے اگر اس کا ذریعہ آمدن کوئی بھی نہیں ہے تو وہ اپنے باپ کی کمائی سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسے لے سکتا ہے ، ایسے ہی چھوٹا بیٹا جو آن لائن کاروبار کرتا ہے لیکن اس کمائی سے اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے باپ کی کمائی سے لے سکتا ہے لیکن جب یہ دونوں خود کمانے کے قابل ہو جائیں تو پھر انہیں اس حرام کمائی سے لینا جائز نہ ہو گا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ