سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا شادی شدہ بیٹی کو فطرانہ یا زکوة دی جا سکتی ہے؟

  • 5290
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-30
  • مشاہدات : 144

سوال

کیا شادی شدہ بیٹی کو فطرانہ یا زکوة دی جا سکتی ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت نے شادی شدہ عورت کے رہنے سہنے، کھانے پینے اور کپڑوں کا خرچہ خاوند پر فرض کیا ہے، خاوند کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے اخراجات پورے کرے۔

ارشادباری تعالی ہے:

وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا  (البقرة: 233)

اوروہ مرد جس کا بچہ ہے، اس کے ذمے معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں) کا کھانا اوران کا کپڑا ہے۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر جو اس کی گنجائش ہے۔

اور فرمایا:

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ (الطلاق: 6)

انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اورانھیں اس لیےتکلیف نہ دوکہ ان پر تنگی کرو۔

 

 اگر آپ کا داماد آپ کی بیٹی کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے، فقیر یا مسکین ہے تو اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے تاکہ وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکے۔

اگر بیٹی بیوہ ہے تو باپ اسے زکاۃ نہیں دے گا،  بلکہ اس  پر واجب ہے کہ وہ اپنے مال سے اپنی بیٹی کےاخراجات پورے کرے ۔

اگربیٹی بیوہ ہو اورمقروض ہو تو قرض کی ادائیگی کے لیے اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

اگر باپ کے پاس اتنا مال نہ ہوکہ وہ اپنی بیوہ بیٹی کے اخراجات پورے کرسکے تو اسے زکاۃ یا فطرانہ دے سکتا ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی