سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ادھار پیسے دے کر کسی قسم کا منافع لینا

  • 5285
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 104

سوال

میرے پاس اکثر لوگ ادھار پیسے لینے کے لیے آتے ہیں۔ میں انہیں کچھ رقم فراہم کرتا ہوں جتنی ان کو درکار ہوتی ہے لیکن اس کے عوض میں ان سے چیک وغیرہ ضمانت کے طور پرلیتا ہوں اور قرض كی واپسی کی مقرره مدت پرقرض کے ساتھ اضافی رقم یا جنس لیتا ہوں جو میں پہلے سے بتاتا ہوں کہ میں آپ سے فلاں جنس بازارسے 800 ، 600 یا 500 کم قیمت پر خریدوں گا ۔ یعنی اگر میں نے کسی کو دو لاکھ روپےدیے ہیں تو میں اس سےمقررہ مدت پر قرض كے ساتھ کچھ اضافی رقم یا جنس لوں گا۔ اگر موجوده قیمت 10 ہزار فی بوری ہے تو میں اس سے9200 کے حساب سے جنس لوں گا۔ کیا میرا یہ عمل شریعت کی رو سے حلال ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کو خیراوربھلائی کے کام میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، اگرآپ صاحب ثروت ہیں کوئی مسلمان آپ سے کسی جائز کام کے لیے قرض مانگتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اس کے ساتھ تعاون کریں، یہ آپ کا اس پراحسان ہے۔

ارشادباری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبة: 120)

یقینا اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کا اجرضائع نہیں کرتا۔

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الدَّيْنُ، فَإِذَا حَلَّ الدَّيْنُ فَأَنْظَرَهُ فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ صَدَقَةٌ  (السلسلة الصحيحة: 86)

قرض دینے والے کو قرض کی واپسی کی طے شدہ تاریخ آنے تک ہردن کے بدلے اس کے دیے گئے قرض کے برابرصدقہ کا ثواب ملتا ہے، اوراگر وہ قرض کی واپسی کی طے شدہ تاریخ آنے کے بعد مہلت دے دے تو اسے ہردن کے بدلے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔

 

1. اگر آپ کسی کو قرض دے کرزیادہ وصول کرتے ہیں تو یہ سود ہے اوراللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ. (البقرة: 278-279).

اے لوگو جو ایمان لائے ہو!  اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگرتم مؤمن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہوجاؤ، اوراگر توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اورنہ تم پرظلم کیا جائے گا۔

سیدنا جابر رضى اللہ عنہ بیان کرتےہیں:

لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ. (صحيح مسلم، المساقاة: 1598).

رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے سود كھانے والے، سود كھلانے والے، سود لكھنے والے، اور سود كے گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائى ہے، اورفرمایا: يہ سب (گناہ میں) برابر ہيں ۔

 

1. اگر آپ کسی کو قرض دے کر اس سےسستے داموں جنس خریدتے ہیں تو یہ بھی حرام ہے، کیونکہ آپ نے قرض اور کاروبارکو اکٹھا کردیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اورکاروبار کو اکٹھا کرنے سے منع کیا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ (سنن أبي داود، الإجارة: 3504 (صحيح)

 ادھاراوربیع (كاروبار) حلال نہیں ہیں۔

 

1. علماء کے ہاں مسلمہ قاعدہ ہے کہ قرض کے بدلے فائدہ حاصل کرنا سود ہے آپ بھی قرض دے کر مقروض سے فائدہ حاصل کرتے ہیں جو چیز وہ کسی دوسرے شخص کو زیادہ پیسوں کے عوض بیچے گا وہ آپ کو قرض کی وجہ سے کم قیمت پردے گا۔

2. آپ پر واجب ہے کہ اس گناہ سے توبہ کریں، جو كچھ ہوچكا اس پرندامت کا اظہارکریں، اور پختہ عزم كریں كہ آئندہ ایسے عظيم گناہ اورجرم كا ارتكاب نہيں كریں گے، جس سے قرآن و احادیث میں منع کیا گیا ہے۔

3. اللہ تعالی نے آپ کو مال ودولت سے نوازا ہے، ضروت مند مسلمان کو قرضہ دیں ، اللہ تعالی آپ کو اس کا بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا جیسا کہ مذکورہ بالا سطورمیں گزر چکا ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی