الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وه عورت جس كا خاوند فوت ہوگیا ہو اس پر لازم ہے کہ وه اپنے اسى گھر ميں عدت گزارے جس گھر ميں رہائش ركھے ہوئے اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فريعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کوفرمایا تھا:
امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي جَاءَ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ" قَالَتْ: فَاعْتَدَدتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (سنن ابن ماجه، الطلاق: 2031) (صحیح)
جب تک اللہ کی مقررکردہ مدت (موت کی عدت) پوری نہیں ہوجاتی، اسی گھر میں رہائش رکھو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی وفات کی خبر پہنچی۔ چنانچہ میں نے چار ماہ دس دن تک وہیں عدت گزاری۔
1. ليكن اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو يا پھراس كے پاس اپنى ضروريات پورى كرنے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اوروہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہ كرسكتى ہو تو اس كے لیے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں وه پرامن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو منتقل ہونا شرعا جائز ہے۔
2. ايسے ہی اگركوئی عورت اكيلا رہنے سے ڈرتى ہے، يا گھر كا كرايہ نہيں ادا كر سكتى تو كسی اور جگہ عدت گزار سکتی ہے، کیونکہ مندرجہ بالا تمام حالتوں میں اس کا عذر ہے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوى کمیٹی
01- فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
02- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
03- فضیلۃالشیخ عبد الحليم بلال حفظہ الله