الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہرگھر میں تھوڑی بہت رنجشیں، غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں، ان کو آپس میں مل بیٹھ کرحل کرنے اورسلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک عقل مند انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ذرا سی بات پر اتنا غصے میں آجائے کہ منہ سےطلاق کا لفظ نکال کرخاوند اوربیوی کے مقدس رشتے کو ختم کردے۔
اس لیے اگر خاوند اوربیوی کا آپس میں کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو اسے آپس میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یا دونوں خاندانوں کے افراد مل کراس پریشانی کا حل نکالیں۔ جب تمام کوششوں کے باوجود رشتہ نبھانا ممکن نہ ہو تو اسلام نے خاوند کو طلاق کے ذریعے اس رشتے کو ختم کرنے کا اختیار دیا ہے۔
1- آپ نے اپنی بیوی کو انتہائی غصے کی حالت میں ایک ہی نشست میں واضح الفاظ میں تین طلاقیں دی ہیں، اگر آپ کا غصہ اتنا زیادہ تھا کہ آپ کے اعصاب قابو میں نہ رہے، شدت غضب کی وجہ سے آپ میں شعوراوراحساس بھی نہیں تھا کہ آپ اپنی زبان سے کیا کہہ رہے ہیں تو پھر آپ کی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لا طَلاَقَ ولا عِتَاقَ في غَلاَق. (سنن أبي داود،طلاق: 2193) (صحيح).
اغلاق كى حالت ميں نہ توغلام آزاد ہوتا ہے اورنہ ہى طلاق ہوتى ہے۔
اہل علم كى ايك جماعت نے" اغلاق " كا معنى اكراہ يعنى جبريا غصہ كيا ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو جس وجہ سے اس کے اعصاب بے قابو ہوجائیں تو یہ شخص پاگل اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہے، اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى۔
1- اگرآپ ہوش وحواس میں تھے، اورآپ کوادراک تھا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے کر خود سے جدا کررہے ہیں تو پھر آپ کی ایک طلاق واقع ہوچکی ہے اورآپ کی بیوی عدت میں ہے،عدت کے دوران آپ رجوع کرسکتے ہیں اور عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہو سکتا ہے، جس میں ولی ، گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔ کیوں کہ نکاح کے مضبوط بندھن کو شریعت نے یک لخت ختم نہیں کیا بلکہ تین طلاق کا سلسلہ اور پھران میں سے پہلی دو کے بعد سوچنے اور رجوع کرنے کا موقع دیا ہے تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَة. (صحيح مسلم، الطلاق: 1472).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اورسیدنا عمررضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کےناجائز طریقے کی روک تھام کے لیے ایک سیاسی فیصلہ کیا تھا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ہم اسے نافذ کردیں گے، یہ وقتی سیاسی فیصلہ تھا، شرعی نہیں تھا۔ (حاشية الطحاوي على الدر المختار: 2/105).
یاد رہے! وہ عورت جسے روٹین سے ماہواری آتی ہے اس کی عدت کی مدت تین حیض ہے، یعنی طلاق کے بعد اگرعورت کو تین مرتبہ حیض آجائے اوروہ تیسرے حیض سے پاک ہوجائے تواس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ. (البقرة: 228).
اوروہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔
وہ عورت جس کو ماہواری آنا بند ہو گئی ہے، یا عمر کم ہونے کی وجہ سے ابھی آنا شروع ہی نہیں ہوئی، ان کی عدت تین قمری مہینے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ﱠ . (الطلاق: 4).
اوروہ عورتیں جوتمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہےاوران کی بھی جنہیں حیض نہیں آیا۔
اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﱠ. (الطلاق: 4).
اورجو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
2. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب
3. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب