الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی داڑھی پوری رکھی ہوئی تھی اورآپ نے بہت سی احادیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے۔
داڑھی کو بڑھانے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل احادیث آتی ہیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى. (صحیح البخاري، اللباس: 5893، صحيح مسلم، الطهارة: 259)
مونچھیں پست کراؤ اورداڑھی خوب بڑھاؤ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ (صحیح البخاري، اللباس: 5892)
تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھاؤ اورمونچھیں کتراؤ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى (صحيح مسلم، الطهارة: 259).
تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے مونچھیں کتراؤاورداڑھی مکمل چھوڑدو۔
دیگر بہت سی احادیث اسی معنی میں آتی ہیں جس میں داڑھی کو مکمل طور چھوڑ دینے اورمعاف کر دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے ایک مسلمان پر داڑھی کو مکمل رکھنا واجب ہے، اور کسی بھی طرح سے کترانا جائز نہیں ہے۔
نماز میں امامت کا حق دارکون ہے؟
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وفي رواية فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا. (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 673).
لوگوں کو امامت وہ کروائے گا جوان میں سے زیادہ قرآن کا حافظ ہوگا، اگر تمام لوگ قرآن مجید کے حفظ میں برابرہوں، تو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگروہ سنت رسول کے علم میں برابر ہوں، تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو(اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگروہ ہجرت میں بھی برابر ہوں، تو جس نے پہلے اسلام قبول کیا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اورایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں: کہ جو عمر میں بڑا ہو۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے امامت کرواتے ہوئے قبلہ کی طرف تھوکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امامت سے روک دیا اورفرمایا:
إنَّك آذَيتَ اللهَ ورسولَه. (سنن أبي داود، الصلاة: 481) (صحيح).
تو نے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ جو شخص قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اس کی آواز خوبصورت ہو، قواعد تجوید سے آگاہ ہو، سنت رسول اور خاص طور پرنماز کے مسائل کو تفصیل کے ساتھ جانتا ہو، متقی ، پرہیزگار ہو، وہ امامت کا زیادہ حق دار ہے۔
اس لیے مسجد میں مستقل امام اسی شخص کو بنانا چاہیے جس نے پوری داڑھی رکھی ہو لیکن اگرکسی وقت نمازباجماعت کے لیے کوئی باریش اورنماز کے مسائل سے آگاہی رکھنے والے شخص موجود نہ ہو تو بغیر داڑھی والا بھی امامت کروا سکتا ہے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
2. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب
3. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب